تحریر کی دنیا میں الفاظ وہ اینٹیں ہیں جن سے خیالات کے محلات تعمیر کیے جاتے ہیں۔ یہ اینٹیں اگر مضبوط ہوں، ان میں سچائی کا گارا ہو اور جذبے کا رنگ ہو، تو یہ صدیوں تک قائم رہتی ہیں۔ لیکن اگر انہیں لاپرواہی اور بدنیتی کی کمزور بنیادوں پر رکھا جائے، تو یہ ریت کی دیوار کی طرح بکھر جاتی ہیں۔ الفاظ کی حرمت اور لکھاری کی ذمہ داری، درحقیقت، ایک ایسا موضوع ہے جو کسی بھی معاشرے کی فکری بنیادوں کو سمجھنے میں مدد دیتا ہے۔
الفاظ: محض لفظ نہیں، ایک عہد ہیں
لفظ محض لکھنے کا ذریعہ نہیں، یہ کردار کی پہچان اور خیالات کی تصویر ہوتے ہیں۔ ایک لکھاری جب قلم اٹھاتا ہے، تو وہ ایک مقدس امانت کو سنوارنے کی ذمہ داری لیتا ہے۔ الفاظ دلوں کو جوڑ بھی سکتے ہیں اور توڑ بھی سکتے ہیں، یہ چراغ بھی بن سکتے ہیں اور آگ بھی۔ یہ وہ روشنی ہیں جو صدیوں تک چمک سکتی ہیں، اور وہ شعلے بھی جو صرف ایک لمحے میں سب کچھ جلا کر راکھ کر سکتے ہیں۔ اس لیے لکھنے والے پر لازم ہے کہ وہ اپنی تحریر کے اثرات سے واقف ہو، اور اپنے قلم کو بے لگام نہ چھوڑے۔
لکھاری کی ذمہ داری: سچائی، دیانت اور مثبت پیغام
دنیا کے ہر بڑے انقلاب کے پیچھے ایک قلمکار کا دماغ ہوتا ہے، ایک مفکر کی سوچ ہوتی ہے، اور ایک لکھاری کا درد چھپا ہوتا ہے۔ معاشرے کے ذہنی ارتقا میں ایک لکھاری کا کردار کسی بادشاہ سے کم نہیں ہوتا، کیونکہ جہاں تلوار زخم دیتی ہے، وہیں قلم مرہم رکھتا ہے۔ ایک اچھے لکھاری کی ذمہ داری ہے کہ:
سچ لکھے: سچائی کی حفاظت کرے اور الفاظ کو حقیقت سے جوڑ کر پیش کرے۔
مثبت پیغام دے: ایسا ادب تخلیق کرے جو روشنی، امید اور بہتری کا ذریعہ بنے۔
اخلاقی حدود کا خیال رکھے: ایسا کچھ نہ لکھے جو معاشرتی اقدار کو مجروح کرے یا بے راہ روی کو فروغ دے۔
معاشرتی شعور بیدار کرے: اپنے قلم کے ذریعے اصلاح کا کام کرے اور سماج کی بھلائی کے لیے لکھے۔
کبھی کبھی خاموشی بھی ایک تحریر ہوتی ہے. ایک سچا لکھاری جانتا ہے کہ ہر بات کو لفظوں میں ڈھالنا ضروری نہیں، بعض اوقات خاموشی بھی ایک تحریر ہوتی ہے۔ وہ اپنی تحریر میں ایسا توازن قائم رکھتا ہے کہ وہ کسی کو نقصان نہ پہنچائے بلکہ اصلاح کا ذریعہ بنے۔
کلامِ اقبال اور الفاظ کی حرمت
علامہ اقبال نے اپنے الفاظ کے ذریعے مسلمانوں میں ایک نئی روح پھونکی۔ ان کے اشعار آج بھی زندہ ہیں کیونکہ ان کے الفاظ کی بنیاد اخلاص اور سچائی پر تھی۔ انہوں نے اپنے قلم کو بامقصد بنایا اور ایسی تحریریں تخلیق کیں جو رہنمائی کا ذریعہ بنیں۔
آج کے دور میں، جب الفاظ کی قدریں گھٹتی جا رہی ہیں، لکھاری پر لازم ہے کہ وہ اپنی تحریر کو سنوارے، اسے مقصدیت دے، اور اسے صرف شہرت کے لیے استعمال نہ کرے بلکہ سماج کی بھلائی کے لیے لکھے۔ قلم ایک امانت ہے، اور لکھاری اس کا امین۔ اگر ہم الفاظ کی حرمت کا خیال رکھیں، تو یقیناً ہماری تحریریں آنے والی نسلوں کے لیے مشعل راہ بن سکتی ہیں۔
تبصرہ لکھیے