عصر حاضر کا میدان عمل ایک جدید میدان عمل ہے ماضی میں اس انداز کے مضبوط اور مربوط فتنے کبھی ہمارے سامنے نہیں آئے تھے لیکن آج ہمیں واضح طورپر دجالی دور کے کھلے اور ظاہری آثار دکھائی دے رہے ہیں ایسے حالات میں ہمارا کیا رویہ ہو اور ہم کون سا راستہ اختیار کریں اس حوالے سے چند تجاویز پیش خدمت میں تاکہ محنت کے میدان کا تعین کرنے میں آسانی رہے۔
مذہبی طبقات و شخصیات اور میرا رویہ
مذہبی طبقات اور شخصیات کے حوالے سے میرا یہ رویہ رہا ہے کہ کبھی نام لے کر کسی شخصیت یا جماعت پر تنقید نہیں کرتا (تجدد پسندوں کے علاوہ) اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ایسی تنقید لبرل سیکولر اور دین بیزار طبقے کی طرف سے بخوبی ہوتی رہتی ہے میری کوشش یہ ہوتی ہے کہ مسلک و مکتب فکر سے بلند ہو کر جہاں تک ممکن ہو مذہنی شخصیات اور جماعتوں کی مدافعت کی جائے اس کے باوجود کہ مجھے مذہبی شخصیات و جماعتوں کی ذہنی وسعت اور گروہی عصبیت کا بخوبی اندازہ ہے لیکن میں کبھی ان سے مایوس نہیں ہوا بقول اقبال
لا کر بَرہمنوں کو سیاست کے پیچ میں
زُناّریوں کو دَیرِ کُہن سے نکال دو
وہ فاقہ کش کہ موت سے ڈرتا نہیں ذرا
رُوحِ محمدؐ اس کے بدن سے نکال دو
فکرِ عرب کو دے کے فرنگی تخیّلات
اسلام کو حِجاز و یمن سے نکال دو
افغانیوں کی غیرتِ دیں کا ہے یہ علاج
مُلّا کو اُن کے کوہ و دمن سے نکال دو
کسی نہ کسی درجے میں ہماری مذہبی روایت اور علوم دینیہ کو اسی مذہبی طبقے نے زندہ رکھا ہوا ہے جسے روایتی مذہبی طبقہ کہا جاتا ہے ، مجھے بخوبی معلوم ہے کہ ہم ایک ہاری ہوئی جنگ لڑ رہے ہیں اور جلد یا بدیر ہماری جغرافیائی حدود کا لبرل و سیکولر ہو جانا مقدر ہے لیکن پھر بھی لڑنا تو ہے شکست تسلیم نہیں کرنی اور اس لڑائی میں یہ روایتی مذبی طقبہ ہی کارآمد ہے اور اپنی تمام تر غلطیوں سمیت کارآمد ہے، مگر افسوس کہ جب مدارس سے نالاں نوجوان مدرسوں پر تنقید کرتے ہیں جب دنیا کی چکا چوند اور دکھاوے کی روشنیوں سے مرجھائی ہوئی آنکھیں اپنی ہی درسگاہوں اور اساتذہ کے خلاف زہر اگلتی ہیں جب مذہبی جماعتیں اور گروہ ایک دوسرے کی مٹی پلید کرتے ہیں جب مسالک و مکاتب فکر ایک دوسرے کی تذلیل کر رہے ہوتے ہیں تو انہیں احساس ہی نہیں ہوتا کہ وہ کس کے ہاتھ مضبوط کر رہے ہیں وہ کس کی زبان بول رہے ہیں اور اس سب سے کس کو نفع ہو رہا ہے۔
کسی مذہبی سیاسی جماعت سے منسلک لوگ مسالک کو فرقہ پرست قرار دے کر تمام مسالک کے علماء پر تنقید کریں یا کسی ایک مذہبی جماعت سے منسلک لوگ قوم پرستوں کی تائید کریں یا کسی ایک مذہبی جماعت سے منسلک لوگ دوسری مذہبی جماعتوں کی تضحیک و تذلیل کریں یا کسی ایک مذہبی گروہ کے لوگ کسی دوسرے مذہبی گروہ میں کیڑے نکالیں یاد رکھیے آپ کے ہاتھ بھی کچھ نہیں آنا آگے کو یہ مقدمہ آپ ہی کے خلاف بننے والا ہے یاد رکھیے
" ایک لامذہبی ذہن کے نزدیک آپ دیوبندی ، بریلوی ، اہل حدیث یا جماعتی ، جمیعتی ، سپاہی ، منہاجی ، تبلیغی ، تنظیمی ، اشاعتی نہیں "
آپ صرف مذہبی ہیں وہ یہ تقسیم نہیں کرتا وہ تمام برائیاں کہ جو آپ ایک دوسرے کے خلاف انفرادی طور پر کرتے ہیں انہیں جمع کرکے وہ ایک اجتماعی مقدمہ آپ کے خلاف قائم کریں گے اور اس مقدمے کو جیتنا آپ کیلئے ممکن ہی نہیں ہوگا کیونکہ یہ مقدمہ عوام کے سامنے پیش ہوگا۔
معاشرے میں موجود مذہبی طبقات
معاشرے میں موجود مذہبی طبقات میں دو بڑے گروہ دکھائی دیتے ہیں ایک طرف تو وہ روایت پسند گروہ ہے کہ جو روایتی مذہبی اداروں سے منسلک ہے یعنی مدارس سے منسلک گروہ اور دوسری جانب وہ روایت پسند گروہ ہے کہ جو مدارس سے تو منسلک نہیں لیکن دین کی روایتی تعبیر کا قائل ہے دوسری جانب ایک وہ گروہ ہے کہ جو روایت گریز یا تجدد پسند ہے یہ طبقہ کسی بھی درجے میں اسلام کی روایتی تعبیر کو تسلیم نہیں کرتا بلکہ بڑی حد تک اس تعبیر سے گریز کا رویہ رکھتا ہے۔
موجودہ دور میں روایتی علماء کی ضرورت اور ان کی محنت کے دائرے
روایتی علماء پہلے بھی اہم تھے اور آج بھی اتنے ہی اہم ہیں اور آئندہ بھی دین کی ضرورت و اہمیت کے ساتھ ساتھ علماء کی ضرورت و اہمیت موجود رہے گی ہم یہ دعویٰ نہیں کرتے کہ علماء فرشتے ہیں یا معصوم ہیں یا پھر ہر طرح کے نقائص سے پاک ہیں جس طرح معاشرے کے دیگر طبقات میں خرابیاں موجود ہیں اسی طرح علماء میں بھی ہیں لیکن جس طرح معاشرے کے ہر طبقے میں کچھ نہ کچھ خیر بھی موجود ہے اسی طرح علماء کے طبقے میں بھی خیر موجود ہے اور ان شاء اللہ رہے گی۔
موجودہ دور میں علماء کی جو بنیادی کمزوری خاص کر نوجوان علماء کی جو بنیادی کمزوری ہمیں دکھائی دیتی ہے وہ علمیت کا فقدان یا استعداد کی کمی نہیں ہے گو کہ یہ عنصر بھی کسی نہ کسی درجے میں موجود ضرور ہے لیکن بنیادی مسئلہ ہے مقصدیت کے نہ ہونے کا اور اسی وجہ سے ہم علماء کے طبقے میں کسی نہ کسی درجے انحطاط دیکھتے ہیں تو یہاں پر ہم کوشش کریں گے کہ ان دائروں کی وضاحت کریں کہ جو علماء کے لیے محنت کا میدان بن سکتے ہیں۔
اول درجے میں ایک عالم محقق ہوگا اس کا وقت تحقیق میں لگے گا اس کے اندر ایک خاص اجتہادی اور فقہی شان ہوگی وہ اپنے سے پچھلوں کی روایت کا امین ہوگا اور اس کی روشنی میں دور جدید کے مسائل کا حل بیان کرے گا۔
دوسرے درجے میں ایک عالم مصنف ، مولف ، مورخ ہوگا اور تحریر کے میدان میں اپنی صلاحیتیں بروئے کار لاکر دینی مواد تحریر کرے گا۔
تیسرے درجے میں ایک عالم بہترین مدرس ہوگا اور آنے والوں کو اسلامی علوم بہترین انداز میں منتقل کرے گا۔
چوتھے درجے میں ایک عالم متکلم ہوگا دین کا داعی ہوگا ادیان باطلہ کے رد پر مہارت رکھنے والا ہوگا اور حفاظت دین کا میدان سنبھالے گا۔
پانچویں درجے میں ایک عالم منتظم ہوگا مدارس کے نظام کو احسن انداز میں چلائے گا اور اس کے نظم و ترتیب کو قائم رکھے گا۔
چھٹے درجے میں ایک عالم امام ہوگا قاری ہوگا مساجد کے نظم کو سنبھالے گا اور معاشرے میں بنیادی ضرورت کے دین کو زندہ رکھے گا۔
ساتویں درجے میں ایک عالم دیگر شعبہ جات جیسے طب ، سیاست ، قانون ، معاشرت و معیشت کا علم حاصل کرکے ان میں کام کرے گا۔
یہ وہ دائرے ہیں کہ جو علماء کے بنیادی مقصود کا تعین کرتے ہیں لیکن اگر ان دائروں تک خود کو محدود نہ کیا جائے اور مقصدیت کا تعین نہ کیا جائے تو چند مزید طبقات پیدا ہوتے ہیں۔
اول یو ٹیوبر ، وی لاگر ، صحافت سکھانے والے اور تحریر سکھانے والے اور میڈیا کے علماء۔
دوم وہ نوجوان منحرف مولوی کہ جو ادیب ، شاعر ، فلسفی بننے کہ چکر میں اپنا بنیادی مقصود فراموش کر بیٹھیں اور مدارس کے نظام سے ہی منحرف ہو جائیں (گو کہ ادب سیکھنا ایک اضافی صلاحیت ہے اور محمود ہے لیکن بنیادی مقصود کی قیمت پر نہیں)۔
سوم وہ طبقہ جو کسی ڈسکورسیت کی طرف چلا جائے اپنا بنیادی مقصود و مطلوب تو کجا اپنی اعتقادی روایت ہی فراموش کر بیٹھے یہاں تک کہ ان میں سے بعض لبرل سیکولرزم اور الحاد و دہریت کا شکار ہو جائیں یا پھر وہ جدید اداروں میں جاکر ان کے رنگ میں رنگ جائیں اور اپنی بنیاد چھوڑ بیٹھیں۔
دور جدید کے مذہب گریز نظریات کی بحث اور ہمارے مذہبی طبقے کا جمود
ہمارا مذہبی طبقہ جمود کا شکار ہے ، جی ہاں ہمارا مذہبی طبقہ جمود کا شکار ہے اور یہاں مذہبی طبقے سے مراد کسی خاص مسلک ، مکتب فکر ، گروہ یا جماعت سے نہیں بلکہ بحیثیت مجموعی مذہبی طبقے سے ہے۔
یہاں ایک بات کی وضاحت ضروری ہے کہ جب ہم جمود کی بات کرتے ہیں تو اس سے ہماری مراد جدیدیت کی دعوت نہیں ہے اور نہ ہی تجدد پرستی کا اعلان ہے بلکہ جمود سے مراد دور جدید کے مذہب گریز نظریات کو سمجھ کر روایت کی روشنی میں ان کے سدباب کی طرف متوجہ کرنے کی ہے۔
ہمارا آج کا روایت پسند مذہبی طبقہ اس وجہ سے جمود کا شکار نہیں کہ وہ روایت سے جڑا ہوا ہے اور اپنی روایت کی بنیاد پر جمود کا شکار ہے بلکہ عجیب مسئلہ تو یہ ہے کہ وہ روایت سے کٹ چکا ہے اور اپنی حقیقی روایت سے ہٹ کر جس راستے پر چل رہا ہے اسے ہی حقیقی سمجھ کر جمود کا شکار ہے۔
جب آپ اپنے مذہبی طبقے کے سامنے مذہب گریز نظریات کی گفتگو پیش کرتے ہیں تو شدید مایوسی کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور یہ مایوسی صرف خالص روایت پسند گروہوں کی جانب سے ظاہر کردہ رویے پر ہی نہیں ہوتی بلکہ یہ مایوسی ان طبقات کے رویے کو دیکھ کر بھی ہوتی ہے کہ جن کی تخلیق کا دعویٰ ہی یہ تھا کہ وہ روایتی مذہبی طبقے کی اصلاح کیلئے کھڑے ہوئے تھے ، مگر افسوس کہ جس دعوے کو لے کر وہ کھڑے ہوئے تھے اور جس امر کی مخالفت کا ڈنکا وہ بجانا چاہتے تھے خود اسی جمود کا اس سے زیادہ شدت کے ساتھ شکار ہوگئے۔
جب ہم مذہب گریز نظریات سے گفتگو کرتے ہیں تو ان کا دائرہ کا ماضی کے سوفسطائیہ سے دور جدید کے ارتیابیوں تک پھیلا ہوا ہے ان نظریات کی شکل پیرامڈ کی طرح ہے کہ جس کی بنیادیں تشکیک پر قائم ہیں تشکیک بطور نظریہ بھی اور تشکیک بطور رویہ بھی ، تشکیک کی بنیاد پر قائم اس اہرام کے مختلف درجات ہیں تشکیک ہمیں روایت گریزی کی طرف لے جاتی ہے روایت گریزی سے مراد اس راہ کو کھوٹی کردینا اسلام کا وہ پیٹا پاٹا راستہ چھوڑ دینا اس الصراط سے ہٹا دینا کہ جسے منہج سلف کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے اگر ہم تشکیک کے وائرس کو دیکھیں تو یہ روایت کے امیون سسٹم پر حملہ آور ہوتا ہے ، جدید مسلم دنیا میں تشکیک استشراقی فکر کی شکل میں وارد ہوئی وہ استشراقی فکر کے جو چرچ تک محدود تھی استعمار کی چھتر چھایہ میں ہمارے گڑھوں تک چلی آئی ، استشراقی فکر نے تشکیک کے کام کو ہی آسان کیا اور اس تشکیک کو علمی مواد فراہم کرکے ہماری تمام تر ثقافتی ، تاریخی ، علمی ، فکری اور اعتقادی مسانید تک پہنچا دیا ، اس استشراقی فکر کا اصل کام یہ تھا کہ ہم پر ہماری تاریخ ، ہماری سیاست ، ہماری فقہ ، ہمارا تصوف ، ہماری حدیث اور ہماری تفسیر سبھی کچھ مشکوک ہوجائے یہ وہ پہلا پھندا تھا کہ جس میں ہمیں جکڑا گیا۔
جیسا کہ اوپر عرض کی اس سب خرابے کی ابتداء تشکیکی رویہ تھا پھر اسی تشکیک نے استشراقی فکر سے علمی و فکری مواد حاصل کیا اور یہ استشراقی فکر استعمار کے کاندھوں پر سوار ہوکر ہم تک پہنچی ، غور کیجئے اور بار بار غور کیجئے تفکر کی آنکھیں کھولیے شعور کے در وا کریں پھر سوچیے پھر سے سوچیے وہ تمام پردے کہ جو اپنی روایت سے دوری کی وجہ سے ہماری آنکھوں پر پڑ چکے ہیں انہیں اتار کر دیکھنے کی کوشش کریں ، جب ہماری روایت کی جڑیں صاف ہو رہی ہوتی ہیں تو دوسرے راستے سے مذب گریز نظریات ان کی جگہ لے رہے ہوتے ہیں یعنی گلشن تو ہمارا اور اس کی گلشن کی زمین میں خار دوسروں کے اور پیر اس امت کے لہو لہان۔
آپ کے ہاتھ سے تصور خلافت نکلتا ہے تو سیکولر ازم قومی وطنیت کی شکل میں جمہوریت کے نام پر آپ کے گھر میں داخل ہو جاتا ہے ، جب آپ کے ہاتھ سے اسلامی علم الکلام نکلتا ہے تو جدید فلسفہ آپ کا گھر دیکھ لیتا ہے ، جب آپ کے ہاتھ سے تصوف نکلتا ہے تو باطنیت و رہبانیت آپ کے دروازے تک چلی آتی ہے اور آپ کے بالا خانوں میں وحدت ادیان کی آوازیں لگنا شروع ہو جاتی ہیں ، جب آپ کے ہاتھ سے اسلام کا تصور اخلاقیات نکلتا ہے تو ہیومنزم آپ کے کاندھوں پر سوار ہو جاتا ہے ، جب آپ کے ہاتھ سے حکمت و معرفت نکلتی ہے اور اطاعت گزاری کا جذبہ مفقود ہوتا چلا جاتا ہے تو لبرلزم آپ کو جکڑ لیتا ہے ، جب آپ صنفی تعلقات میں مذہبی اصولوں کو ایک طرف رکھ دیتے ہیں تو فیمینزم آپ کے ذہن پر غالب ہو جاتا ہے ، جب توکل جاتا ہے تو مادیت کا غلبہ ہوتا ہے غرض یہ کہ آپ کے تمام تر پیمانے تبدیل ہو جاتے ہیں اور آخر کار یہ مذہب گریز نظریات و رویے سیڑھی در سیڑھی آپ کو الحاد کی چوٹی پر لا کھڑا کرتے ہیں۔
ایسا نہیں کہ اس تمام پراسیس کے درمیانی درجات نہیں ہیں جی ہاں اس کے درمیانی درجات بھی ہے اس سیڑھی کے وہ تمام اسٹیپس کہ جو مدرسے کی سیکولرائیزیشن سے ہوتے ہوئے کبھی اسلامی جمہوریت کی شکل میں تو کبھی اسلامی بینکاری کی شکل میں کبھی اسلامی فیمینزم کی شکل میں تو کبھی اسلامی نیشنلزم کی شکل میں غرض یہ کہ ہر وہ ازم کہ جس کا سکہ آج چلتا ہو اسلامی شکل میں آپ کے سامنے پیش کردیا جاتا ہے اور پورے اخلاص کے ساتھ پیش کیا جاتا ہے اور یہ بھی ممکن ہے کہ وہ اپنے وقت اور اپنے دائرہ کار کے اعتبار سے درست بھی ہو لیکن تاریخ کے اوراق پر جب چند باب پلٹتے ہیں تو وہی معصومانہ تسامحات بڑے بڑے عفریتوں کی شکل میں نمودار ہونا شروع ہو جاتے ہیں۔
تو گفتگو ہو رہی تھی روایتی مذہبی طبقات کے جمود کے حوالے سے ابھی کل ہی کی بات ہے کہ ایک جگہ بحث چل رہی تھی وہاں پر عرض کی کہ ہمیں ان مذہب گریز نظریات کا روایت کی روشنی میں جواب دینا ہوگا وگرنہ یہ آخری میدان بھی ہمارے ہاتھ سے نکل جائے گا مگر افسوس کے سامنے سے اسی جمود کا اظہار ہوا ، ایک انتہائی قابل افسوس امر یہ ہے کہ ہر ہر مذہبی گروہ ، جماعت یا ادارہ یہ سمجھ بیٹھا ہے کہ پورے کا پورا دین در حقیقت انہی کو سمجھ آیا ہے اور دین کے جس شعبے میں وہ محنت کررہے ہیں دین تو صرف اسی سے زندہ ہوگا ، گو کسی درجے میں یہ غلو مطلوب بھی ہے کہ اس کے بغیر وہ غیر مشروط اطاعت اور بقول ابن خلدون عصبیت (مثبت معنی میں) حاصل نہیں ہوتی کہ جو تحریکوں ، جماعتوں ، گروہوں اور اداروں کو چلاتی ہے مگر یہ سوچ لینا کہ
ہر اینٹ سوچتی ہے کہ دیوار اس سے ہے
ہر سر یہی سمجھتا ہے دستار اس سے ہے
جی ہاں یہ سوچ اور یہ رویہ زہر قاتل ہے جب ہم اپنی گفتگو میں مذہبی طبقات کے سامنے یہ بات رکھتے ہیں کہ جناب من ہمیں اپنی علمی و فکری روایت سے جڑے رہنا ہے لیکن دور جدید کے مذہب گریز نظریات کے خلاف دلائل کا انداز کچھ الگ ہوگا تو ان کی جانب سے یہ رویہ سامنے آتا کہ ان کے حضرت ان کے مفکر ان کے لیڈر جو کچھ بھی فرما گئے وہ حرف آخر ہے اور اس پر ایک لفظ تو کجا ایک حرف بلکہ کسی اضافت کی بھی گنجائش موجود نہیں اور جب انہیں یہ سمجھایا جائے کہ جناب فلاں مفکر کا کام ان کے دور کے اعتبار سے تو بہت شاندار تھا لیکن آج وہ غیر معتلق ہو چکا ہے آج وہ تمام دلائل کارگر نہیں ہیں اور ہمیں وہی گفتگو یاد رہے کہ وہی گفتگو آج کی زبان میں کرنی ہے تو انہیں یہ بات ہضم نہیں ہوتی اور افسوس کہ یہ وہ مذہبی طبقات ہیں کہ جن کی تمام تر دعوت خود روایتی طبقات پر تنقید سے شروع ہوئی تھی۔
ہماری گفتگو تجدد کی دعوت نہیں بلکہ روایت کا احیاء ہے ہم امت کو اس روایت سے جوڑنا چاہتے ہیں کہ جو محمد عربی ﷺ کے صدقے میں ہمیں ملی وہ روایت کہ صحابہ رض اس کی اعلیٰ ترین عملی مثال تھے وہ روایت کہ ہمارے سلف جس کے امین تھے وہ روایت کہ جسے فقہاء و محدثین نے جلا بخشی وہ روایت کہ جو متکلمین سے ہمیں ملی وہ روایت کہ جو صوفیاء نے ہم تک پہنچائی ہم امت کو اسی روایت سے جوڑ دینے کے داعی ہیں۔ یاد رہے کہ دور جدید کے مذہب گریز نظریات کا ابطال اسی روایت کی روشنی میں ہوگا کہ جو ہماری روایت ہے ضرورت صرف اس امر کی ہے کہ حال کے فتنے کو جاننا اور اس کے جوابات اپنی قدیم روایت کی روشنی میں آج کی زبان میں پیش کرنا۔
شعبہ رد الحاد اور مذہبی طبقات کے مغالطے
رد الحاد اس وقت ایک معروف اور چلتا ہوا عنوان ہے آج سے دس ایک سال پہلے اس عنوان سے ہمارے دینی طبقات یکسر ناواقف تھے سوائے معدودے چند لیکن اب یہ گاؤں کی گفتگو بن چکا ہے خاص کر سوشل میڈیا کی آمد کے بعد یہ ایک معروف عنوان ہے۔
رد الحاد کے حوالے سے بنیادی سطح پر ہمیں دو طبقات دکھائی دیتے ہیں اور دونوں ہی مغالطو کا شکار ہیں سب سے پہلے ہم اس طبقے کے حوالے سے بات کرتے ہیں کہ جو اسے شعبہ سمجھتا ہی نہیں جی ہاں ایک طبقہ ایسا بھی موجود ہے کہ جس کے نزدیک یہ سرے سے کوئی مسئلہ ہی نہیں نہ ہی اس کے حوالے سے کوئی گفتگو ہونی چاہیے کیونکہ برائی کے ذکر سے برائی جنم لیتی ہے میرے خیال میں یہ طبقہ دس سال پیچھے جی رہا ہے اور اسے یہ معلوم ہی نہیں ہے کہ آج کی دنیا میں مسلم معاشروں کو کون سے مسائل درپیش ہیں اور افسوس کی بات یہ کہ اس گروہ کا تعلق روایتی مذہبی طبقے سے ہے۔
دوسری جانب وہ طبقہ جو اس شعبے سے منسلک ہو چکا ہے. ان میں سے اکثر حد درجہ غلو کا شکار دکھائی دیتے ہیں. ان کی رائے میں شاید دین کی واحد محنت اسی شعبے سے منسلک ہے گو کہ یہ غلو کسی نہ کسی درجے میں مطلوب بھی ہوتا ہے. ہم دیکھتے ہیں کہ تبلیغی جماعت کے لوگوں سے بات ہو تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ شاید تبلیغ ہی دین کو زندہ کرنے کا واحد راستہ ہے. اسی طرح جماعت اسلامی کے احباب سے بات ہو تو ان کی نزدیک دین کا سیاسی غلبہ وہ بھی براستہ ووٹ ہی واحد راستہ ہے. دوسری جانب تنظیمی و خلافتی احباب کی نگاہ میں حکومت اسلامی براستہ انقلاب ہی واحد راستہ ہے. ایسے ہی حربی ، خانقاہی اور علمی حلقوں کے مغالطے ہیں. گو کہ یہ تمام طبقات اپنی اپنی جگہ اہم اور ضروری ہیں لیکن محدود بھی ہیں یہی کچھ مغالطہ رد الحاد کی محنت کرنے والوں کو بھی لگتا ہے کہ آج کے دور میں شاید یہی ایک محنت ہے یا دین صرف اسی طریقے سے بچ سکتا ہے۔
اس دوسرے مغالطے کے نتیجے میں چند مسائل پیدا ہوتے ہیں اور یہ تمام مسائل قابل اصلاح ہیں۔
پہلا مسئلہ تو یہ ہوا کہ تمام لوگ یا علمی افراد کی کریم اسی شعبے میں جھونک دی جائے اور دین کے دیگر علمی کام پیچھے رہ جائیں۔
دوسرا مسئلہ یہ کہ رد الحاد کیلیے ہر طرح کی مسلکی شناخت سے خارج ہوکر یہ کام کیا جائے اور اس کے نتیجے میں اپنی کوئی حقیقی دینی شناخت ہی باقی نہ بچے اور مین سٹریم مسالک سے انحراف کا دروازہ کھل جائے۔
تیسرا مسئلہ یہ کہ ہر کوئی خود کو متکلم سمجھ کر کلامی اور اعتقادی مسائل میں رائے دینا شروع کردے اور غلطیاں کھائے۔
چوتھا مسئلہ یہ کہ الحادی سوالات کا جواب دینے کیلئے دینی مصادر کی وہ تاویلات شروع ہو جائیں کہ جو منہج سلف سے یکسر الگ ہوں اور تجدد پسندی ، سائنس پرستی اور انکار حدیث کا دروازہ کھل جائے۔
پانچواں مسئلہ یہ کہ میڈیا کے راستے کو ہی اصل راستہ سمجھ لیا جائے اور تمام تر محنت اسی دائرے پر لگا دی جائے جس سے شہرت پسندی کا دروازہ کھل جائے جو خود ایک بڑا فتنہ ہے۔
چھٹا مسئلہ یہ ہے کہ براہ راست الحادی اعتراضات کا جواب دینے کا سلسلہ شروع ہو جائے جبکہ ان کی بنیاد میں موجود مغربی افکار و نظریات پر سرے سے عبور نہ ہو۔
ساتواں مسئل یہ کہ دعوت ایمان کہ کوشش ہی نہ کی جائے اور تمام تر محنت دفاعی پوزیشن سے ہو اور لوگوں کو الحاد کی طرف جانے سے روکنے کا کوئی نظم موجود نہ ہو۔
آٹھواں مسئلہ یہ کہ آج کے دور میں رد الحاد کے حوالے سے کام کرنے ولوں کو ہی حقیقی علماء سمجھا جائے اور اکابرین سے اعتماد ختم ہو جائے۔
نواں مسئلہ یہ ہے کہ فلسفے کا اس درجہ غلو پیدا ہو اور اصطلاحات کے جنگل میں اتنی دور چلے جائیں کہ براہ راست قرآن و سنت اور اقوال سلف سے تمسک پی باقی نہ رہے۔
دسواں اور سب سے بڑا مسئلہ یہ کہ رد الحاد کو صرف عقلی دلائل تک محدود سمجھا جائے اور روحانی اور اخلاقی تربیت اور کردار سازی کو اس عنوان سے خارج سمجھا جائے۔
گیارہواں مسئلہ پھکڑ پن ٹرولنگ اور غیر سنجیدہ اور بعض اوقات انتہائی غیر اخلاقی انداز میں اس کام کو کرنا ہے جس سے اس محنت کے ساتھ منسلک روحانیت نکل جاتی ہے۔
جب تک ہم ان تمام دائروں میں اپنی اصلاح نہیں کریں گے رد الحاد کے حوالے سے ہماری محنت مفید سے زیادہ مضر ثابت ہوگی رد الحاد کے حوالے سے کام کرنے والوں کو اس اعتبار سے خود پر محنت کرنا ہوگی اور اپنی اصلاح کیلیے تربیت و تزکیے کے مراحل سے گزرنا پڑے گا وگرنہ وہ خود اس اہم محنت کو نقصان پہنچانے کے مرتکب قرار پائیں گے۔
تبصرہ لکھیے