ہوم << فقہی منہاج میں استدلال کے سقم ، اور اہل فلسطین کے لیے استطاعت کی شرط - ڈاکٹر عرفان شہزاد

فقہی منہاج میں استدلال کے سقم ، اور اہل فلسطین کے لیے استطاعت کی شرط - ڈاکٹر عرفان شہزاد

استدلال کے منہاج میں سُقم کن غیر معقول نتائج تک لے جا سکتا ہے، ذیل میں فقہ سے اِس کی ایک مثال پیش کی جاتی ہے۔ یہ حدیث سے غلط استدلال کا ایک نمونہ ہے۔ ایسے بیسیوں مسائل ہماری فقہ کو لاحق ہیں۔ اِس سے یہ بھی واضح ہوگا ہے کہ
فکر غامدی میں استدلال کی بنیادوں کی تنقیح کیوں اہم ہے۔
حدیث کے بارے میں غامدی صاحب کا موقف کیوں درست ہے۔
نظمِ کلام سےفہمِ کلام کے درست مفہوم تک رسائی کا منہاج کیونکر ایک درست طرزِ فہم ہے۔
کلام اپنے لسانی اور عقلی مضمرات کے ساتھ صادر ہوتا ہے، متن فہمی میں اِس اصول کی کیا اہمیت ہے۔
اور یہ کہ کلام کا تاریخی پس منظر سیاقِ کلام میں شامل ہوتا ہے۔
متن فہمی کے یہ مسلمہ اصول اگر قرآن اور حدیث کی تفہیم میں نہ برتے جائیں تو نتائج کس قدر غلط پیدا کیے جا سکتے ہیں، یہ درج ذیل مثال سےواضح ہوگا۔

غامدی صاحب کا مؤقف ہے کہ احادیث دین کا مستقل ماخذ نہیں ہیں۔ دین کے مستقل ماخذ قرآن اور سنت متواترہ ہیں، جو اجماع و تواتر کے قطعی ذرائع سے ملے ہیں۔یہ اخبارِ احاد کی صورت میں منتقل ہوئی ہیں، اِس لیے یہ علم کا ایک ظنی ماخذ ہیں۔ احادیث میں اصل دین کی تبیین و تشریح، اُس کے اصولوں کا اطلاق، رسول اللہ ﷺ کا اسوہءِ حسنہ، آپ کی سیرت و سوانح کا بیان ہوتا ہے۔ اِن میں کوئی مستقل حکم بیان نہیں ہوتا۔ اِن سے قرآن کے کسی حکم میں نسخ اور تبدیلی نہیں ہو سکتی۔ یہ اپنے سیاق و سباق کے ساتھ بالعموم بیان نہیں ہوتیں، اِس لیے اِنھیں علم اور عقل کے مسلّمات کی روشنی میں رکھ کر سمجھا جائے گا۔

اِس کے برعکس، فقہا احادیث کو ایک ظنی ماخذ تسلیم کرنے کے باوجود دین کے مستقل احکام اخذ کرنے کا ایک ذریعہ مانتے ہیں اور اُن سے قرآن کے حکم میں نسخ و تبدیلی کے بھی قائل ہیں۔ متن میں لسانی اور عقلی تقییدات عائد کرنے میں بھی اُن کے ہاں سقم پائے جاتے ہیں۔
اب محولہ مسئلے کا جائزہ پیش کیا جاتا ہے۔

ایک روایت کے مطابق رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ مسلمانوں کا بارہ ہزار کا لشکر مغلوب نہیں ہو سکتا۔
پوری روایت یہ ہے:
عن ابن عباس، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال:" خير الصحابة اربعة، وخير السرايا اربع مائة، وخير الجيوش اربعة آلاف، ولن يغلب اثنا عشر الفا من قلة"، قال ابو داود: والصحيح انه مرسل. (ابو داؤد، 2611) عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بہتر ساتھی وہ ہیں جن کی تعداد چار ہو، اور چھوٹی فوج میں بہتر فوج وہ ہے جس کی تعداد چار سو ہو، اور بڑی فوجوں میں بہتر وہ فوج ہے جس کی تعداد چار ہزار ہو، اور بارہ ہزار کی فوج قلّت تعداد کی وجہ سے ہرگز مغلوب نہیں ہو گی۔“

یہ ایک مرسل حدیث ہے۔ سند سے قطع نظر، روایت کو متن فہمی کے درج بالا اصولوں کی روشنی میں سمجھا جائے تو اِس کا درست مفہوم متعین کرنا دشوار نہیں ہے۔ اِسے اِس کے تاریخی پس منظر میں دیکھیے۔ عرب میں راستے دشوار اور غیر محفوظ تھے، اِس صورت حال میں یہی مشورہ دیا جانا چاہیے تھا کہ کم از کم دو چار لوگ مل کر سفر پر نکلیں۔ دوسرے یہ کہ عرب کے متفرق قبائل کے مقابلے میں سب سے بڑی جنگی قوت رسول اللہ ﷺ کے پاس جمع ہو گئی تھی، جو مختلف قبائل پر مشتمل تھی۔ ہمسایہ قبائل سے چھوٹی جھڑپوں اور عرب کے بڑے قبائل سے باقاعدہ جنگوں کا سلسلہ جاری تھا۔ اِس تناظر میں رسول اللہ ﷺنے کسی موقع پر اپنے ساتھیوں کی حوصلہ افزائی یا اُن کی تنبیہ کے لیے فرمایا کہ عرب کے قبیلوں کی بکھری ہوئی طاقت کے مقابل چھوٹی چھڑپوں کے لیے چار سو اور بڑی جنگ کے لیے چار ہزار اور پھر بارہ ہزار ایک بڑا لشکر ہے، جواِن متفرق قبائل سے مغلوب نہیں ہو سکتا، یا اسے مغلوب نہیں ہونا چاہیے۔

تاہم، روایت میں وارد اِس بیان سے فقہا نے اپنے اصولِ فقہ کے مطابق ایک مستقل حکم برآمد کر لیا کہ اگر مسلمانوں کے لشکر کی تعداد بارہ ہزا ہو تو پھر وہ کسی صورت لڑائی سے پیچھے نہیں ہٹ سکتے۔ البتہ اُن کی تعداد اِس سے کم ہو تو پھر جنگی طاقت کے فرق کی وجہ سے وہ جنگ سے پیچھے ہٹ سکتے ہیں، خواہ اُن کی تعداد دشمنوں کے برابر یا اُن سے زیادہ ہی کیوں نہ ہوں۔

یہ نتیجہ اُنھوں نے اِس علم کے باوجود نکالا کہ رسول اللہ ﷺ کی موجودگی میں بھی مسلمانوں کا بارہ ہزار کا لشکر غزوہءِ حنین کے موقع پر ایک بار شکست سے دوچار ہو گیا تھا۔ تاہم، اُنھوں نے دوبارہ ہمت مجمتع کر کے شکست کو فتح میں تبدیل کر لیا تھا۔ چنانچہ واقعہ بھی سامنے تھا، جس کے مطابق بارہ ہزار کا لشکر بھی ہزیمت کا شکار ہو سکتا ہے۔ مگر حدیث میں وارد الفاظ واقعہ پر غالب آ گئے۔

فقہا اِس روایت میں صرف ایک عقلی قید کا اضافہ کرتے ہیں کہ غلبے کی یہ بشارت اِس سے مشروط ہے کہ مسلمانوں کا کلمہ متحد ہو۔ یعنی اُن میں باہم کوئی اختلاف نہ ہو۔ یہ اضافہ بھی وہ اس لیے کرتے ہیں یہ اضافہ اِسی روایت کے بعض دیگر متون میں ذکر ہوا ہے، جن کی سند بھی قابلِ لحاظ نہیں۔ اگریہ مضمر عقلی قید یہاں لگائی جا سکتی ہے تو دیگر عقلی قرائن سے مزید قیدیں بھی اِس میں مضمر سمجھی جا سکتی تھیں، جن کی طرف ہم نے اشارہ کیا۔

استدلال کے منہاج کا یہ وہ سُقم ہے جو پہلے ایک روایت کو دین میں مستقل حکم کا ایک ماخذ باور کرتا ہے اور پھر اُسے اُس کے سیاق و سباق سے کاٹ کر ایک مستقل حکم برآمد کر لیتا ہے اور پھر قرآن کے حکم میں نسخ کر دیتا ہے۔ وہ یوں کہ قرآن مجید دشمنوں سے افرادی طاقت کے تناسب کی رعایت رکھتے ہوئے مسلمانوں سے مطالبہ کرتا ہے کہ دشمنوں کی تعداد اُن سے دس گنا زیادہ بھی ہو تو وہ ان سے جنگ کریں، پھر اِس تناسب کو تبدیل کر کے ایک اور دو نسبت مقرر کرتا ہے کہ ان میں پہلے سے کچھ کم زور در آئی ہے۔ (انفال، 66)۔ مگر فقہا تناسب کی اِس رعایت کو اُس صورت میں کالعدم قرار دیتے ہیں جب مسلمانوں کی تعداد بارہ ہزار ہو۔

اس روایت کی بنا پر قرآن کے حکم میں یہ نسخ فقہا کے اپنے اصول فقہ کی رو سے بھی درست نہیں۔ احناف قرآن مجید میں نسخ کے لیے روایت کا کم از کم مشہور ہونا لازم قرار دیتے ہیں۔ مگر یہاں ایک مرسل روایت سے قرآن کے حکم میں نسخ کر دیا گیا ہے۔

ایک طرف فقہامعقولیت کا ثبوت دیتے ہوئے یہ قرار دیتے ہیں کہ ہتھیاروں میں دشمن کو برتری حاصل ہو تو افرادی قوت کا فرق نہیں دیکھا جائے گا، اِس صورت میں مسلمانوں کی تعداد زیادہ بھی ہو تو وہ جنگ سے پیچھے ہٹ سکتے ہیں، مگر اپنے فقہی فریم کے مطابق، ایک روایت کے آگے بے بس ہو کر یہ غیر معقول نتیجہ نکالنے پر مجبور ہو جاتے ہیں کہ اگر اُن کی تعداد بارہ ہزار ہو تو پھر وہ کسی صورت پیچھے نہیں ہٹ سکتے، چاہے دشمن کے پاس برتر جنگی طاقت ہو۔

قانون کے ایک پروفیسر صاحب فقہا کے اِس نتیجہءِ کی بنیاد پر آج کے مسلمانوں کو بھی یہی مشورہ دیتے ہیں کہ جنگی ٹیکنالوجی کے فرق کی وجہ سے وہ دشمنوں کے مقابلے سے صرف اُسی صورت میں دست بردار ہو سکتے ہیں، جب اُن کی تعداد 'بارہ ہزار' سے کم ہو، لیکن اُن کی تعداد بارہ ہزار یا اِس سے زائد ہو تو پھر اُنھیں ہر صورت مقابلہ کرنا ہوگا، کیونکہ بارہ ہزار کا لشکر مغلوب نہیں ہو سکتا۔
پروفیسر صاحب امام ابو بکر جصاص سے نقل کرتے ہیں:
"و الذي روي عن النبي ﷺ فی اثنی عشر ألفاً، فھو أصل فی ھذا الباب؛ و إن کثر عدد المشرکین، فغیر جائز لھم أن یفروا منھم، و إن کانوا أضعافھم، لقولہ ﷺ (إذا اجتمعت کلمتھم )، وقد أوجب علیھم بذلک جمع کلمتھم۔ (اور بارہ ہزار کے متعلق جو کچھ رسول اللہ ﷺ سے روایت کیا گیا تو وہ اس باب میں اصل کی حیثیت رکھتا ہے، خواہ مشرکین کی تعداد کتنی ہی زیادہ ہو، مسلمانوں کے لیے جائز نہیں ہوگا کہ وہ ان کے مقابلے سے بھاگ جائیں چاہے وہ ان سے کئی گنا زیادہ ہوں کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا (اگر ان کا کلمہ ایک ہو) اور اس قول کے ذریعے ان پر واجب کیا کہ وہ کلمہ ایک کریں۔")

اِس پر تبصرہ کرتے ہوئے وہ لکھتے ہیں:
"پس ایسی صورت میں (یعنی جب ان کی تعداد بارہ ہزار ہو) مسلمان یہ عذر نہیں پیش کرسکتے کہ ان کا آپس میں اتحاد نہیں ہے اور اس لیے وہ اس حکم سے مستثنی ہیں۔ اس کے برعکس ایسی صورت میں ان پر شرعاً واجب ہوگا کہ وہ متحد ہو کر دشمن کے خلاف لڑیں اور یقین رکھیں کہ اللہ تعالیٰ ان کی مدد کرے گا اور انھیں دشمن پر غالب کرے گا۔" ( قدسیوں کے لیے قدرت اور استطاعت کی شروط، از ڈاکٹر مشتاق احمد )

ایک طرف جنگی طاقت اور ٹیکنالوجی کے فرق کی ناقابل تردید حقیقت اور دوسری طرف بارہ ہزار کی تعداد سے فقہا کا استدلال، اِس نازک مقام سے وہ یوں گزرے ہیں:
"۔۔۔یہ بات بھی قابل توجہ ہے کہ عددی نسبت کا لحاظ تو اس زمانے میں رکھا جاسکتا تھا جب افرادی قوت ہی میدان جنگ میں اہم کردار ادا کرتی تھی ۔ موجودہ دور میں جبکہ سائنس اور ٹیکنالوجی نے فرد کی اہمیت کو نسبتاً کم کردیا ہے کیا زیادہ اہم سوال یہ نہیں ہوگا کہ ٹیکنالوجی کے لحاظ سے دشمن کہاں کھڑا ہے؟ اگر مسلمان فوج کی تعداد دس ہزار ہے مگر اس کے پاس روایتی بندوق ہیں اور دشمن کی تعداد سو ہے مگر اس کے پاس جدید ترین ہتھیار ہیں تو مقدرت کا اندازہ تعداد سے لگایاجائے گا یا اسلحے کی نوعیت سے ؟ ۔۔۔"امام سرخسی نے اس موضوع پر جو کچھ کہا ہے وہ یقینا قول فیصل کی حیثیت رکھتا ہے۔

إن کان عدد المسلمین مثل نصف عدد المشرکین لا یحل لھم أن یفروا ۔۔۔ وکان الحکم فی الابتداء أنھم إذا کانوا مثل عشر المشرکین لا یحل لھم أن یفروا ۔۔۔ وھذا إذا کان بھم قوۃ القتال بأن کانت معھم الأسلحۃ؛ فأما من لا سلاح لہ، فلا بأس بأن یفر ممن معہ سلاح؛ و کذلک لا بأس بأن یفر ممن یرمي إذا لم یکن معہ آلۃ الرمي۔ ألا تری أن لہ أن یفر من باب الحصن، ومن الموضع الذی یرمی فیہ بالمنجنیق، لعجزہ عن المقام فی ذلک الموضع۔ وعلی ھذا ، لا بأس بأن یفر الواحد من الثلاثۃ، إلا أن یکون المسلمون اثني عشر ألفاً کلمتھم واحدۃ، فحینئذٍ لا یجوز لھم أن یفروا من العدو و ان کثروا، لأن النبي ﷺ قال : لن یغلب اثنا عشر ألفاً عن قلۃ ۔ ومن کان غالباً، فلیس لہ أن یفر۔ (اگر مسلمانوں کی تعداد مشرکین کے نصف کے برابر ہو تو ان کے لیے جائز نہیں کہ وہ فرار اختیار کریں ، اور ابتدا میں حکم یہ تھا کہ اگر ان کی تعداد مشرکین کے دسویں حصے کے برابر ہو تو ان کے لیے جائز نہیں تھا کہ وہ فرار اختیار کرتے ۔ یہ حکم اس صورت میں ہے جب ان میں جنگ کی قوت ہو ، یعنی ان کے پاس اسلحہ ہو ۔ پس جس کے پاس اسلحہ نہ ہو اس کے لیے اسلحہ رکھنے والے کے مقابلے سے فرار اختیار کرنے میں کوئی قباحت نہیں ہے ۔ اسی طرح اس میں کوئی قباحت نہیں ہے کہ اگر اس کے پاس رمی کا آلہ نہ ہو تو وہ رمی کرنے والے سے فرار اختیار کرلے ۔ کیا تم دیکھتے نہیں کہ اس کے لیے جائز ہے کہ قلعے کے دروازے سے اور اس جگہ سے جہاں منجنیق سے گولے پھینکے جارہے ہوں فرار ہوجائے کیونکہ وہ اس جگہ ٹھہرنے سے عاجز ہوتا ہے ؟ ان اصولوں کی بنا پر تنہا شخص کے لیے تین افراد کے مقابلے سے فرار اختیار کرنا جائز ہے ، سوائے اس حالت کے جب مسلمانوں کی تعداد بارہ ہزار ہو اور ان کا کلمہ ایک ہو ۔ پس اس حالت میں ان کے لیے دشمن سے فرار اختیار کرنا جائز نہیں خواہ ان کی تعداد کتنی ہی زیادہ ہو کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے : بارہ ہزار کا گروہ تعداد میں کمی کے سبب سے مغلوب نہیں ہو سکتا ۔ اور جو غالب ہو اس کے لیے جائز نہیں ہے کہ وہ فرار اختیار کرلے ۔) "(قدسیوں کےلیے قدرت اور استطاعت کی شرط)

اِس نتیجہءِ فہم پر عملاً کبھی کسی لشکر، کسی حکومت نے عمل نہیں کیا۔ مگر پروفیسر صاحب کو اصرار ہے کہ جب فقہا نے یہ نتیجہ نکال ہی لیا ہے تو اب اہل غزہ اپنے سے کئی گناہ طاقت دشمن سے جنگ میں پیچھے نہیں ہٹ سکتے، کیونکہ بارہ ہزار جنگجو تو اُنھیں میسر ہی ہیں۔ تاہم، وہ اِس سوال کا جواب نہیں دیتے کہ بارہ ہزار سے زائد 'قدسیوں 'کا لشکر ہر بار مغلوب کیوں ہو جاتا ہے؟ حدیث میں بیان کردہ بشارت کے برعکس نتیجہ کیوں نکل رہا ہے؟ اگر قدسیوں کا ایمان کم زور ہے یا اُن کا کلمہ متحد نہیں تو اِس صورت میں بھی اُنھیں جنگ روک کر پہلے اپنے ایمان کی مضبوطی اور کلمہ کے اتحاد پر کام کرنا چاہیے۔

کم زور مظلومین کے لیے لائحہ عمل وہ نہیں جو فقہا کے ایک غلط استدلال کی بنیاد پر علم و عقل سے دست بردار ہو کر جنگ زدہ فلسطین اور دیگر کم زور مسلمانوں کے لیے تجویز کیا جا رہا ہے، بلکہ وہ ہے جو اللہ تعالی نے سورہ نساء میں مکہ اور گرد و نواح کے مظلوم اور بے بس مسلمانوں کے لیے خود وضع کیا تھا۔ ارشاد ہوا ہے:
وَمَا لَكُمْ لَا تُقَاتِلُونَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَالْمُسْتَضْعَفِينَ مِنَ الرِّجَالِ وَالنِّسَاءِ وَالْوِلْدَانِ الَّذِينَ يَقُولُونَ رَبَّنَا أَخْرِجْنَا مِنْ هَٰذِهِ الْقَرْيَةِ الظَّالِمِ أَهْلُهَا وَاجْعَل لَّنَا مِن لَّدُنكَ وَلِيًّا وَاجْعَل لَّنَا مِن لَّدُنكَ نَصِيرًا (نساء 75) (ایمان والو)، تمھیں کیا ہو گیا ہے کہ تم اللہ کی راہ میں اور اُن بے بس مردوں، عورتوں اور بچوں کے لیے نہیں لڑتے جو فریاد کر رہے ہیں کہ پروردگار، ہمیں اِس بستی سے نکال کہ جس کے لوگ ظالم ہیں اور ہمارے لیے اپنے پاس سے ہم درد پیدا کر دے اور اپنے پاس سے حامی اور مددگار پیدا کر دے۔

کم زور مظلوموں کی مدد کرنا مسلمانوں کی ریاستوں کافرض ہے۔مسلم ریاستیں اگر اپنا فرض نبھانے کی جرات یا طاقت نہیں رکھتیں تو اب یہ کم زور مظلوموں کا کام نہیں اور نہ یہ اُن کے لیے مناسب ہے کہ وہ اپنے حقوق کے لیے خود ہتھیار اٹھا لیں۔ اِس سے اُن کے مصائب میں اضافہ ہی ہوتا ہے۔ مظلوم کا ہتھیار دعا ہے، اسے تلوار اٹھانے کا مشورہ یا حکم خدا نے نہیں دیا۔
موجودہ صورت حال میں اہلِ فلسطین کے پاس تین ہی راستے ہیں:
1۔ اگر اُنھیں جنگ سے احتراز کی صورت میں جان، مال اور آبرو کا تحفظ حاصل ہے، تو اُنھیں جو میسر ہے اُس پر قناعت کریں اور اپنے حقوق کی جدوجہد کو پر امن طریقوں سے جاری رکھیں اور اپنی تعمیر پر توجہ دیں۔
2۔ اگر اُنھیں پر امن رہنے کے باجود یہ تحفظ حاصل نہیں تو وہ ہجرت کر جائیں۔
3۔ اگر ہجرت کرنے پر پابندی ہے یا ہمسایہ ریاستیں اُنھیں پناہ دینے پر تیار نہیں، تو اب اُنھیں صبر سے عدم تشد کی پالیسی پر عمل پیرا رہنا ہے، یہاں تک کہ کوئی بیرونی طاقت اُن کی مدد کو آ جائے۔
تاہم، اگر اُن کی نسل کشی کی جاتی ہے تو اب یہ اضطراری حالت ہے۔ اِس صورت میں اپنے دفاع میں وہ چاہیں تو لڑتے ہوے موت کو گلے لگا لیں۔ لیکن یہ صورتِ حال، درحقیقت اہلِ فلسطین کو درپیش نہیں۔

یہ بھی ملحوظ رہے کہ اُن کی جنگجو جماعت، حماس، فقط دفاعی جنگ نہیں لڑتی، بلکہ وہ آگے بڑھ کر اقدام کرتی ہے۔او ر یہ وہ اُس وقت کرتی ہے جب جنگ نہیں ہو رہی ہوتی۔ یہ دفاع نہیں، دعوتِ مبارزت ہے، جسے دے کر وہ دفاع کرنے کی بجائے زیرِِ زمین چھپ جاتی اور عام لوگوں کو بے رحم میزائلوں او ر بموں کا نشانہ بننے کے لیے کھلے آسمان تلے چھوڑ جاتی ہے۔

صرف یہی نہیں کہ کم زور مظلوم کے لیے جوابی طور پر لڑنا دینی فریضہ ہے اور نہ عقل س کی تائید کرتی ہے، بلکہ اگر مسلمانوں کی منظم جمعیت بھی موجود ہو تو اُس کے لیے بھی حکم یہ ہے کہ وہ دشمن کی طاقت سے اپنی طاقت کی نسبت کا لحاظ رکھ کر مقاومت کا فیصلہ کریں۔ دوسرے یہ کہ اُن میں استقامت کا ہونا ضرروری ہے، تب وہ یہ امید کر سکتے ہیں کہ وہ کامیاب ہوں گے۔ سورہ انفال کی آیت 65 میں صحابہ کرام کی جماعت کے لیے اُن کے دشمنوں سے جنگ کے لیے یہ نسبت ایک اور دس رکھی گئی تھی۔ کچھ مدت بعد اِسے بھی تبدیل کر کے ایک اور دو کی نسبت قائم کی گئی اور وجہ یہ بتائی گئی کہ اُن میں کچھ کم زوری در آئی تھی۔ یہ کم زوری نئے مسلمان ہونے والوں کی وجہ سے پیدا ہوئی تھی۔ ارشاد ہوا ہے:
الْآنَ خَفَّفَ اللَّهُ عَنكُمْ وَعَلِمَ أَنَّ فِيكُمْ ضَعْفًا ۚ فَإِن يَكُن مِّنكُم مِّائَةٌ صَابِرَةٌ يَغْلِبُوا مِائَتَيْنِ ۚ وَإِن يَكُن مِّنكُمْ أَلْفٌ يَغْلِبُوا أَلْفَيْنِ بِإِذْنِ اللَّهِ ۗ وَاللَّهُ مَعَ الصَّابِرِينَ (انفال، 8: 65) اِس وقت، البتہ اللہ نے تمھارا بوجھ ہلکا کر دیا ہے، اِس لیے کہ اُس نے جان لیا کہ تم میں کچھ کمزوری ہے۔ سو تمھارے سو ثابت قدم ہوں گے تو دو سو پر غالب آئیں گے اور اگر تمھارے ہزار ایسے ہوں گے تو اللہ کے حکم سے دو ہزار پر بھاری رہیں گے۔ اور اللہ اُن لوگوں کے ساتھ ہے جو (اُس کی راہ میں ) ثابت قدم رہیں۔

یہ وہ جماعت تھی جسے خدا کی نصرت حاصل تھی۔ فرشتے اُن کی مدد کو قطار اندر قطار اترنے کے منتظر رہتے تھے۔ اُن کے لیے بھی اُن کی طاقت اور کم زوری کے تناظر میں معیار میں تبدیلی کی دی گئی تھی۔ اِس سے یہ تعلیم ملتی ہے طاقت کی نسبت میں یہ رعایت بعد والوں کو بدرجہ اولی ملحوظ رکھنی چاہیے۔

نتائج سے بے پروا ہو کر لڑتے چلے جانا، یہ انیسویں اور بیسویں صدی میں نظریہءِ قومیت کے متاثرین کا ایجاد کردہ جنون ہے، جو زمین اور اقتدار کے حصول کو انسانی جان پر فوقیت دیتا ہے، جو غیر قومی اور غیر مقامی انسانوں کی حکومت کو حرام اور ہم قومی اور مقامی حکومت ہی کو جائز تصور کرتا ہے اور اِن چیزوں کے لیے انسانی جانوں کے بے دریغ ضیاع کو قربانی اور شہادت کا نام دیتا ہے۔ نظریہءِ قومیت کا اپنا دین اور اپنی شریعت ہے۔

اِس کے برعکس، خدا کی نظر میں سب سے قیمتی چیز خود انسان ہے، جسے یہ بھی اجازت ہے کہ وہ کلمہءِ کفر کہ کر اپنی جان بچا لے۔ اُس پر مکہ کی مقدس زمین بھی اگر تنگ ہو جائے تو وہ وہاں سے بھی ہجرت کر جائے، مگر بے فائدہ لڑ مر کر 'امر' ہونے کی ضرورت نہیں۔اندھا دھند شہادتیں دین کا تقاضا نہیں۔

جہاد کا حکم بھی خدا تب دیتا ہے جب مسلمانوں اپنا نظمِ اجتماعی قائم کر لیتے ہیں۔ پھر اُنھیں جنگ کرنے کا حکم دیتا ہے تو دشمن کی طاقت کی نسبت کی رعایت ملحوظ رکھتا ہے، حالاں کہ خدا کو یہ سب کرنے کی ضرورت نہیں تھی۔ ساری طاقتیں رکھتے ہوئے بھی خدا نے جو رعایتیں جماعتِ صحابہ کے لیے ملحوظ رکھیں، اُنھیں آج کے مسلمان اور اُن کے جذباتی دانش ور اور علما غیروں سے سیکھی طرزِِ مقاومت کے زور پر تسلیم کرنے کو تیار نہیں۔ اِس کا نتیجہ مسلسل ہزیمت کی صورت میں سامنے ہے۔ یہ ایسا ہی چلتا رہے گا جب تک وہ ہوش کے ناخن لینے پر تیا ر نہیں ہو جاتے، کیوں کہ خدا اپنے طریقے بدلنے والا نہیں۔

Comments

Avatar photo

ڈاکٹر عرفان شہزاد

ڈاکٹر عرفان شہزاد مذہبی اور سماجی مسائل پر لکھتے ہیں۔ ورچوئل یونیورسٹی میں اسسٹنٹ پروفیسر ہیں۔ غامدی سنٹر آف اسلامک لرننگ سے وابستہ ہیں۔ ماہنامہ اشراق کی مجلس تحریر میں شامل ہیں۔ نمل یونیورسٹی اسلام آباد سے اسلامیات میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری مکمل کی، پنجاب یونیورسٹی سے ایم اے انگریزی ادب کیا، جبکہ وفاق المدارس کے تحت درس نظامی درجہ چہارم تک تعلیم حاصل کی ہے۔

Click here to post a comment