ہم لوگ بھی عجیب ہیں۔ یاروں دوستوں کے ساتھ ہوٹلوں میں کھانے اڑاتے ہیں تو اتنا منگوا لیتے ہیں کہ کھایا نہیں جاتا۔ جلسوں میں نعت خوانوں پر اور شادیوں میں ڈانس کرنے والی رقاصاؤں پر نوٹوں کی بارش کر دیتے ہیں۔ نجومیوں اور جعلی عاملوں کے آستانوں پر ساری کی ساری جمع پونجی لٹا آتے ہیں. سیر و تفریح پر جانا ہو یا دوستوں کو ٹریٹ کھلانی ہو تو حاتم طائی بن بیٹھتے ہیں۔ پیشہ ور بھکاریوں پر مہربان ہو جائیں تو نوٹوں کی لائن لگا دیتے ہیں، جبکہ شرطیں لگانے میں تو کوئی ہماراثانی نہیں. لیکن جب باری ان لوگوں کی آتی ہے، جو بے چارے دیہاڑی لگنے کی لالچ میں سارا سارا دن سڑکوں کے کنارے بیٹھ کر ہماری راہ تکتے رہتے ہیں۔ یہ اکثر وہ لوگ ہوتے ہیں جن کا پیٹ کمر سے لگ رہا ہوتا ہے، کئی کئی وقت ان کے گھروں کا چولہا نہیں جلتا. یہ غیور اتنے ہوتے ہیں کہ ہاتھوں کی کمائی سے زہر بھی کھا لیں لیکن مانگ کر کھانا اپنی شان کے خلاف سمجھتے ہیں۔ ہماری کوئی ادا انہیں اچھی لگ جائے تو یہ جان چھڑکنے سے بھی گریز نہ کریں، جبکہ دوسری طرف ہمیں ان سے کام پڑ جائے تو ہماری پوری کوشش ہوتی ہے کہ یہ پانچ سو روپے مزدوری والا کام صرف سو روپے میں جبکہ سو روپے مزدوری والا کام فری میں کر دیں۔ یہ بھی ایسی مٹی کے بنے ہوتے ہیں کہ بھوک کی خاطر فوراً سستا کام کرنے پر رضامند ہو جاتے ہیں۔ ان کی اسی رضامندی پر ہم خوشی سے پھولے نہیں سماتے اور سستا سودا طے پا جانے پر اپنے آپ کو افلاطون سمجھتے ہوئے دل ہی دل میں اس غریب کی سادگی پر ہنس رہے ہوتے ہیں۔
میں اور آپ اگر جان جائیں کہ یہ مزدور کون ہیں تو ہم دنیا کے سارے پیروں، فقیروں اور ملنگوں کو چھوڑ چھاڑ کے ان کے پاس دعائیں کروانے آ جائیں۔ کیوں کہ یہ وہ خمیر ہے جس سے رسول ِکریم ﷺ بہت زیادہ پیار کرتے تھے۔ ایک موقع پر ایک مزدور صحابی نے حضور ﷺ کو سلام کیا تو آپ ﷺ کو ایسے لگا جیسے ان کے ہاتھ زخمی سے ہوں۔ آپ ﷺ نے فوراً ان کے ہاتھوں پر اپنا ہاتھ مبارک پھیرا اور ان سے پوچھا کہ یہ کیا ہے؟ وہ صحابی کہنے لگے کہ اے اللہ کے رسول ﷺ! یہ ہاتھوں سے کام کرنے کی وجہ سے ان پر چھالے بن گئے ہیں. جانتے ہیں اس پر آپﷺ کا رد عمل کیا تھا؟ آپﷺ نے اس محنت کش کے ہاتھوں کو بوسہ دیا اور تین مرتبہ فرمایا ’’ھذہ یدلا تمسہ النار‘‘ کہ یہ وہ ہاتھ ہیں جنھیں جہنم کی آگ نہیں چھوئے گی۔ ان مزدوروں اور محنت کشوں سے ہمارے آقا ﷺ کو اتنی محبت تھی کہ ایک موقع پر ان کے لیے سفارش فرمائی کہ ان لوگوں کو تنگ نہ کیا کرو اور انہیں ان کی مزدوری ان کا پسینہ خشک ہونے سے پہلے پہلے ادا کر دیا کرو۔ انہی کی روکھی سوکھی روٹی کے بارے میں یہ فرمان بھی جاری ہوا کہ ’’دنیا کا کوئی کھانا اپنے ہاتھوں کی کمائی سے کھائے ہوئے کھانے سے بہتر نہیں‘‘۔ مسجد نبوی کی تعمیر ہو رہی ہے۔ نبی اکرم ﷺ نے دیکھا کہ حضرموت سے تعلق رکھنے والے ایک صحابی کمال صفائی سے اپنے فن کا مظاہرہ فرما رہے ہیں۔ تو آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا ’’خدا اس پر رحم فرمائے جو کسی صنعت میں کمال پیدا کرے‘‘. پھر ان صحابی سے فرمانے لگے ’’تم یہ کام مت چھوڑنا، بلکہ محنت سے اس کام پہ لگے رہو کیوں کہ مجھے نظر آ رہا ہے کہ تم اس کام کو عمدگی سے کرتے ہو۔‘‘
بہت سے درمیانے یا ذرا اچھے گھروں کے لوگ برا وقت آجانے پر ہاتھ سے کمانے میں جھجھک محسوس کرتے ہیں۔ یہاں تک کہ بہت سے تو حرام کھانا گوارا کر لیتے ہیں لیکن کام کرنا اپنے لیے عار سمجھتے ہیں۔ میں نے خود یونیورسٹی لائف میں ایک طالب علم کو صرف اس بات پہ رسوا ہوتے دیکھا کہ اس کا باپ اتوار بازار میں ٹھیلا لگاتا تھا۔ بخدا! یہ ہاتھوں سے کما کر کھانے والا عمل اگر معیوب ہوتا تو کبھی داود علیہ السلام لوہے کا کام نہ کرتے، کبھی نوح علیہ السلام لکڑیوں پر آرے نہ چلاتے، کبھی بھی ادریس علیہ السلام لوگوں کے کپڑوں کی سلائی نہ کرتے، ہود علیہ السلام اور صالح علیہ السلام کا نام بھی آج تاجروں کی فہرست میں نہ ہوتا، ابراہیم علیہ السلام اور لوط علیہ السلام یوں کھیتوں میں ہل چلاتے نظر نہ آتے، نہ ہی موسیٰ علیہ السلام کو گلہ بانی کی ضرورت پیش آتی، یوں ہی سلیمان علیہ السلام ٹوکریاں اور زنبیلیں بنا بنا کر فروخت نہ کرتے اور نہ ہی تھوڑی سی اجرت کے عوض میرے اور آپ کے آقاﷺ دوسروں کی بکریاں چراتے. جب انبیائے کرام محنت کرنے سے نہیں گھبرائے تو ہمارا سٹیٹس ہی کیوں ہماری حلال کمائی میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے؟؟؟ سوچیے ذرا سوچیے
تبصرہ لکھیے