ہوم << جماعت اسلامی کیوں ناکام ہے؟ معظم معین

جماعت اسلامی کیوں ناکام ہے؟ معظم معین

معظم معین ا اکثر قلم کار اور احباب گاہے بگاہے جماعت اسلامی کی اب تک کی کارکردگی اور اس کے مستقبل کے متعلق اظہار خیال کرتے رہتے ہیں ۔ کچھ اس کی ناکامیوں پر بمشکل اپنی خوشی چھپا پاتے ہیں تو کچھ خاصے فکر مند نظر آتے ہیں۔ خود جماعت اسلامی کے اپنے اندرونی حلقوں میں یہ بحث زور پکڑ رہی ہے کہ کیا واقعی جماعت ناکام ہو چکی ہے یا اب تک کی کارکردگی کو اس راہ کی منازل ہی سمجھا جائے؟ جماعت اسلامی، جو ایک بہت بڑے دعوے اور عالی شان مقصد کو لے کر اٹھی تھی اور جس کے روح رواں گزشتہ صدی کے ایک بہت بڑے عالم دین اور نابغہ روزگار ہستی تھے، یہ ایک حقیقت ہے کہ انتخابی میدان میں کوئی خاص تیر چلانے میں کامیاب نہیں ہو سکی۔ 1970ء کے عام انتخابات میں یہ جماعت پورے پاکستان میں 4 نشستیں حاصل کر پائی تھی اور 43 برس بعد 2013ء میں بھی یہ تعداد 4 سے آگے نہیں بڑھی۔ اس دوران اگر آبادی کی تعداد کے تناسب سے دیکھا جائے تو یہ ترقی معکوس ہے۔ ایسی صورت میں یہ سوچنا اور فکرمند ہونا بجا ہے کہ کیا وجہ ہے کہ علم اور خدمت کے میدان کی شہسوار یہ جماعت عام عوام کی حمایت حاصل کرنے میں ناکام ہے۔ ملک کی ایک اہم جماعت ہونے اور معاشرے اور سیاست میں اہم کردار کی وجہ سے جماعت اسلامی کی سیاسی کارکردگی اور حیثیت اس بات کی متقاضی ہے کہ اس کی کامیابیوں اور ناکامیوں کا بے لاگ جائزہ لیا جائےاور اس کی روشنی میں مستقبل کی پیش بینی کی جائے۔ دائیں اور بائیں بازو کی کشمکش میں یہ دائیں بازو کی صف اول کی کھلاڑی ہے جس کی کارکردگی مستقبل کے منظرنامے میں اہم کردار ادا کر سکتی ہے۔
ہمارے نزدیک جماعت اسلامی کا صحیح تجزیہ کرنے کے لیے اسے قریب سے دیکھنا اور جاننا ضروری ہے۔ جماعت اسلامی کو جاننے والوں کو یہ بات بخوبی معلوم ہے کہ یہ ملک کی دیگر جماعتوں کی طرح کی عام سیاسی جماعت نہیں ہے۔ اگر یہ عام سیاسی جماعتوں کی طرح ہوتی تو جو کارکردگی یہ انتخابات میں دکھاتی آئی ہے، کبھی کی نسیاً منسیا ہو چکی ہوتی۔ کتنی ہی سیاسی پارٹیاں بڑے طمطراق سے آئیں مگر انتخابات میں ناکامی کے بعد آج ان کا نام صرف تاریخ کی کتابوں میں ملتا ہے۔ یہ دیکھنے کے لیے کہ کوئی جماعت کامیاب ہے یا نہیں؟ سب سے پہلے یہ دیکھنا ضروری ہے کہ اس جماعت کے قیام کا مقصد کیا بتایا گیا تھا اور وہ اپنے اس مقصد میں کس قدر کامیاب ہوئی ہے۔ جماعت اسلامی کے بنانے والوں نے اسے ایک نظریاتی تحریک کے طور پر بنایا تھا جس کا مقصد اصلاً اقامت دین کی جدوجہد بتایا گیا تھا۔ انتخابات جیتنا اصل مقصد نہیں تھا بلکہ یہ اصل مقصد تک پہنچنے کا ذریعہ تھا۔ اس جدوجہد میں اسے کتنی کامیابی ہوئی؟ یہ دیکھنا زیادہ ضروری ہے۔ اس سوال کا جواب گو کہ مکمل ہاں میں نہیں مگر مایوس کن بھی نہیں۔ اگر اس باب میں یہ ناکام ٹھہرتی تو آج کی سیکولر قوتیں اس سے اتنی خائف نہ ہوتیں۔ آخر کیا وجہ ہے کہ کبھی اقتدار حاصل نہ کر سکنے کے باوجود یہ کہا جاتا ہے کہ اس ملک اور معاشرے پر اس کی گہری چھاپ ہے اور اسی وجہ سے پاکستانی معاشرے میں کھل کر اسلام کے خلاف بات کہنا سیکولر قوتوں اور دین بےزار طبقات کے لیے ممکن نہیں، اس کے لیے انہیں مولوی اور ملا کے لبادے میں چھپ کر بات کرنی پڑتی ہے۔
اس کامیابی کے باوجود یہ سوال اپنی جگہ اہم اور بجا ہے کہ کیا وجہ ہے کہ ترکی اور مصر میں تو عوام نے اسلام پسند قوتوں کے حق میں اپنا وزن ڈالا ہے مگر پاکستان کی عوام نے اس طرح دینی طبقے کو پذیرائی نہیں دی جیسا ان دو ملکوں میں دی۔ اس کا جواب دو طرح سے دیا جا سکتا ہے۔ اول تو یہ کہ ابھی تک ہمارے ملک میں دین اور لادینیت کی اس طرح سے دو قطبی تقسیم نہیں ہو پائی جیسا ان ملکوں میں رہی ہے۔ ہمارے ہاں کی سیکولر اور لبرل جماعتیں بھی اپنی سیاست کے لیے کسی نہ کسی طور مذہب کا نام استعمال کرتی آئی ہیں۔ بھٹو جیسے مقبول سیاستدان نے بھی اسلام ہمارا دین، جمہوریت ہماری سیاست، اور سوشلزم ہماری معیشت کا نعرہ لگایا تھا اور آج بھی پیپلز پارٹی ہو، مسلم لیگ ہو، یا ایاک نعبد وایاک نستعین والے صاحب ہوں، گدی نشینوں اور مخدوموں کی صورت میں وہ سیاست کے لیے مذہب کا استعمال کرتے ہیں۔ اور ہمارے ہاں کے عوام جیسا مذہب کو جانتے ہیں ویسا وہ قبول بھی کرتے آئے ہیں۔ دوسرا یہ کہ جماعت اسلامی کی مذہبی تشریح اس تشریح سے بالکل مختلف ہے جو ہمارے عوام کو بتائی گئی ہے۔ عوام کی اکثریت میلادوں، آستانوں پر حاضریوں اور پیروں کی مریدی کو ہی دین سمجھتی ہے جبکہ مولانا مودودی نے اپنے لٹریچر میں دین کی جو تشریحات کی ہیں وہ بالکل دوسرے زاویے پر ہیں۔ وہ دین کو ایک نظام زندگی اورمعاشرے میں نافذ ہونے والی ایک قوت کے طور پر پیش کرتے ہیں۔ اس ضمن میں ان کے سب سے بڑے مخالف خود منبر و محراب کے والی وارث ہی ثابت ہوئے۔ اکابرین کی تقلید جامد اور آئین نو سے ڈرنے کی روش ہی تھی جس کی وجہ سے مذہبی حلقے ماضی میں سیاسی ضروریات کے تحت ناگزیر ایک دو مواقع کے سوا کبھی یکجا نہ ہو سکے۔ ایسی صورت میں عوام نے انہیں مایوس بھی نہیں کیا۔
علمی قحط اور تحقیقی بانجھ پن کے اس دور میں کسی نے عوام کو اس قابل بنانے کی ذرا بھی کوشش نہیں کی کہ وہ خود جانچ اور پرکھ کر صحیح اور غلط کا فیصلہ کرنے لگیں۔ اس تناظر میں بدقسمتی سے ہمارے ہاں سیاست کا جو طرزعمل رواج پاگیا ہے، اس میں نظریاتی تحریکوں کے لیے خاطرخواہ کامیابی حاصل کرنا بہت مشکل ہو گیا ہے۔ برادری، دولت، اور طاقت کی سیاست کے اس ماحول میں کون نظریے کے بارے میں سوچنے کو تیار ہو۔ لوگوں کے لیے ان کی گلی کے گٹر کا ڈھکن ملکی سطح پر ہونے والے سودوں میں اربوں کی کرپشن سے زیادہ اہم ہے۔ معاشی اور معاشرتی طور پر پسے ہوئے لوگوں کو جب جائز حقوق حاصل کرنے کے لیے بھی ایم این اے اور وزیر کا ٹیلی فون درکار ہو توایسے میں ’’اقامت دین کی جدوجہد‘‘ اور ’’حکومت الہیہ کا قیام‘‘ جیسی اصطلاحات کسے یاد رہتی ہیں۔ کہتے ہیں کہ جب غربت دروازے پر دستک دے تو عشق کھڑکی کے راستے اڑن چھو جاتا ہے۔ اسی طرح جب غریب آدمی کے لیے تھانے میں تھانیدار کی گن گھرج کے سامنے اپنی اور اپنی بیٹی کی عزت بچانا مشکل ہو رہا ہو تو ضمیر کی نسبت علاقہ چیئرمین کی آواز پر دھیان دینا زیادہ قرین صواب نظر آتا ہے۔
اس کے بعد خود جماعت اسلامی کی پالیسیوں میں غلطیاں اور کمزوریاں اس کی راہ میں ایک رکاوٹ کے طور پر موجود ہیں. قیادت اور کارکنان کو ابھی تک ان کا صحیح معنوں میں جائزہ لینے اور متبادل پیش کرنے میں ناکام رہے ہیں. کوئی فرد یا گروہ کمزوریوں سے مبرا نہیں۔ جماعت اسلامی کو جائزہ لینا چاہیے کہ اس نے وقت کے ساتھ اپنے آپ کو کتنا اپ ڈیٹ کیا ہے۔ دو ویب سائٹس بنا لینا یا سوشل میڈیا کے چار پیجز چلا لینا کوئی ترقی نہیں ہے۔اس ضمن میں تو منہاج القرآن کی میڈیا مینجمنٹ زیادہ موثر نظر آتی ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا جماعت کبھی حکومت کی دعویدار ہو کر میدان میں اتری ہے اور اس نے طرح کی کمپین چلائی ہے؟ کیااس نے اپنے لوگوں کو حکومت کرنے کے لیے تیار کیا ہے؟ حکومت میں آ کر ادارے چلانے اور سڑکوں پر احتجاجی مظاہرے کرنے میں بڑا فرق ہے۔ جماعت نے اپنے کارکن کو صرف احتجاج کا ایکسپرٹ بنایا ہے اور یہ کام اتنا اچھا کرلیتا ہے کہ اس سے سے بہتر کسی دوسری جماعت کا کارکن نہیں کر سکتا۔ مگر حکومت کا دعویدار بننے اور کرنے کے لیے، ادارے چلانے، سائنس اور ٹیکنالوجی سے مسلح اس جدید دنیا کا سامنا کرنے کے لیے احتجاجی صلاحیت کی نہیں، انتظامی اور قائدانہ صلاحیت کی ضرورت ہے۔
جماعت کے کتنے ارکان ڈاکٹر یا انجینئرز ہیں؟ کتنے پی ایچ ڈی ہیں؟ کتنے مصنف یا محقق ہیں؟ نیا خون کہاں ہے؟ نوجوان قیادت کا جماعت کے ماحول میں ابھرنا اتنا مشکل کیوں ہے؟ پروفیسر خورشید احمد اور خرم مراد کے متبادل کیوں نہیں سامنے آ رہے؟ اور سو سوالوں کا ایک سوال کہ دعوت اور سیاست کا جو تناسب ہونا چاہیے کیا وہ قائم ہے؟ جماعت کی قیادت کو اس پر بھی سوچنا چاہیے۔ یہ دور علم کا ہے۔ اس میں احتجاج اور جذباتی تقاریر نہیں علم اور ٹیکنالوجی سکہ ہائے رائج الوقت ہیں۔ اور چونکہ آپ دین کے علمبردار بھی ہیں تو آپ کو دین بھی ساتھ لے کر چلنا ہے۔ تحریکیں علم اور قائدانہ صلاحیت کی بنیاد پر آگے بڑھتی ہیں محض نعروں اور مظاہروں کی بنیاد پر نہیں۔
بانی جماعت اسلامی کے خطاب کا انداز سراسر غیر جذباتی اور منطقی تھا۔ جذبات کا اس میں اتنا ہی دخل تھا جتنا کھانے میں نمک کا ہونا چاہیے۔ اسلامی جمعیت طلبہ جو جماعت اسلامی کے لیے نرسری کا کام کر رہی ہے اس کی اٹھان میں بھی جذباتیت کی مقدار کم کرنے اور دلیل کی مقدار بڑھانے کی ضرورت ہے، گو کہ گزشتہ کچھ برسوں میں اس ضمن میں بہتری آئی ہے مگر ابھی بھی جذباتیت کا پلڑا بھاری نظر آتا ہے۔ جب تک جدید تعلیم اور جدید چیلنجز کو سمجھنے کی طرف توجہ نہیں دی جائے گی کامیابی کا امکان کم رہے گا۔
اگر جماعت اسلامی کے تین مضبوط اور تین کمزور پہلوؤں کی فہرست بنائی جائے تو اس کے مضبوط پہلو زرخیز لٹریچر، مضبوط تنظیم، اور مخلص کارکن ہیں جبکہ کمزور پہلو وقت کے ساتھ اپنے آپ کو اپ ڈیٹ نہ کرنا، دلیل سے زیادہ جذبات پر انحصار، اور متبادل قیادت کی منصوبہ بندی نہ کرنا ہے۔ ہمادی دانست میں اگر اپنے مضبوط پہلوؤں سے درست سمت میں فائدہ اٹھایا گیا اور کمزور پہلوؤں پر قابو پا لیا گیا تو مستقبل میں جماعت اسلامی نمایاں کامیابی حاصل کر سکتی ہے۔

Comments

Click here to post a comment

  • جامع اور متوازن.....تین روشن اور تین کمزور پہلو.....کوئی ہے جو آگے بڑهے اور جو روشن پہلوؤں کو بروئے کار لانے آور کمزور پہلوؤں میں جوہری تبدیلی کے راستے دکھائے

  • جماعت اسلامی کے راستے میں ایک بڑی رکاوٹ سترفیصد جاہل عوام کا تصور اسلامی ہے۔ جب ان کے سامنے اسلام کی بات کی جاتی ہے تو ان کے ذہن میں اس روایتی مولوی کا تصور آتا ہے جو ایک مخصوص وضع قطع کے ساتھ نکاح و جنازوں کی رسوم انجام دیتا ہے اور گزر اوقات کے لئے با اثر لوگوں کے ہاتھوں کی طرف دیکھتا رہتا ہے ۔ وہ سمجھتے ہیں کہ کیا یہ مولوی ہم پر حکومت کرے گا۔ دیہی علاقوں میں جماعت اسلامی کا وجود نہ ہونے کے برابر ہے۔

  • مجھے تین مضبوط پہلوؤں سے تو اتفاق ہے مگر تین کمزوریاں میرے نزدیک کوئی اور ہیں جن کو تبصرے میں بیان نہی کیا جاسکتا. بلکہ وہ الگ سے مضمون کی متقاضی ہیں.
    مصنف نے جماعت کو احتجاج کا ایکسپڑٹ قرار دیا یے، میرے مشاہدے کے مطابق یہ وصف بھی اب، قصہ پارینہ بن چکا یے. اب تو نوخیز جماعتوں کے احتجاج سر چڑھ کر بولتے نظر آتے ہیں.
    میرے خیال کے مطابق جماعت کی ناکامی کو عالمی تناظر میں بھی دیکھنے کی ضرورت ہے. صرف مصر یا ترکی کے ادھورے انقلاب نشان منزل نہیں ہو سکتے. عالمی طاقتیں یقینا جانتی ہوں گی کہ اصولی طور پر پاکستان کی جماعت اسلامی، سب اسلامی تحریکوں کے لیے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے. اس لیے اس کو تجربہ کے طور پر بھی حکومت قائم کرنے دینے کا رسک نہیں لیا جاتا.