ہوم << پاکستان میں انقلاب، اردگان کیوں نہیں آتا؟ زبیرمنصوری

پاکستان میں انقلاب، اردگان کیوں نہیں آتا؟ زبیرمنصوری

زبیر منصوری میں نے اردگان میرا ہیرو لکھ کر پوسٹ لگائی اور مچھلی کے نشئی شکاری کی طرح کانٹا ڈال کر لائکس اور کمنٹس کے انتظار میں بیٹھ گیا۔
پھر دیکھا، پھر گنا، پھر نظر ڈالی
کچھ دوستوں نے خیرات دے دی، میں خوش اور بس
میں نے کوئٹہ ہوٹل پر بیٹھ کر کہا یار
’’یہ پاکستان میں کیوں انقلاب نہیں آتا؟‘‘
’’یہاں کوئی اردگان کیوں نہیں پیدا ہوتا؟‘‘
اور پھرگھر جا کر سو گیا
میں دانشور ہوں، میں نے اردگان کی کامیابی پر ایک فلسفہ جھاڑا
اخبار کے چند بےکار سے قارئین نے (جو تین میں نہ تیرہ میں) نے پڑھا
اور سر دھن کر رہ گئے
میں اردگان اور حلب سے زیادہ کشمیر کا چاہنے والا ہوں، میں نے غصہ کا اظہار کیا.
’’لوگوں کو کیا ہوگیا ہے، کشمیر کو چھوڑ کر دوسری طرف متوجہ ہیں‘‘
اب مجھے یہی دکھ کھائے جا رہا ہے
میں ذرا زیادہ جذباتی ہوں، کشمیر کے لیے ایک جلوس نکالا، جب تک ایشو زندہ ہے اس کے ساتھ چلنا، پھر نئے رہرو ایشو کے ساتھ چل پڑنا میری عادت ہے. سمت کی خبر نہ پلان، اسٹریٹیجی نہ اس کی فکر اور پھر یہ یقین کہ انقلاب ڈیڑھ دو گھنٹے کے فاصلے پر ہے، بس آیا ہی چاہتا ہے، یہ الیکشن نہیں تو اگلے والے تو بس یقینی، خوشبو بتا رہی ہے کہ وہ راستے میں ہے۔
خالی خولی امیدیں، دن میں خواب، تبصرے، طعنے
بے سمت باتیں، انفرادی اصلاح کے منصوبے
تربیت کے نام پر قران کی تلاوت، تجوید ترجمہ کا کام برائے کام
سب جائے تو جائے، اپنی چودھراہٹ اور آدھی اینٹ کی مسجد نہ جائے
بےسمت دائرہ کے سفر ہیں اور ہم ہیں دوستو!
یقین کرو ہمارا حال آ کر ہمارا اردگان دیکھ لے تو ہنس دے، چپ رہے اس لیے کہ منظور تھا پردہ ترا
ہمارا معاملہ اگر سید علی گیلانی قریب سے دیکھ لے تو چند لمحوں کو ہی سہی امید کھو بیٹھے
حلب میں لڑنے والے ہماری منہ کی فائرنگ دیکھ اور سن لیں تو سوچیں کہ یہ کس بےعمل قوم اور کون سی احمقوں کی ریاست کے باسی ہیں.
ہے شوق سفر ایسا کہ اک عمر سے ہم نے
منزل بھی نہیں پائی رستہ بھی نہیں بدلا
ذرا یاد کرو کہ اردگان خود تم سے سیکھنے آیاتھا، حکمتیار اور قاضی کے قدموں میں بیٹھا تھا، مگر واپس لوٹ کر اس نے فلسفہ و دانشوری کے جوہر نہیں دکھائے تھے
مینار پاکستان کی تفصیل اور تحریک اسلامی و پاکستان کے اعداد و شمار نہیں لکھے تھے، نہ ہی ان شورائوں کے سرکل میں بیٹھ کر فلسفہ عروج و زوال کے اسرار و رموز پر بحث کی تھی
وہ تو ایک دیہاتی اور پھر فٹبالر تھا جو یا جیتتا یا ہارتا ہے اور بس!
اس نے ایک بار سوچ سمجھ کر سمت طے کی، دستیاب زاد راہ باندھا اور موجود ساتھیوں کو لے کر فتح کے عزم کے ساتھ نکل کھڑا ہوا، نظریاتی منزل کے راستے میں استاد رکاوٹ لگا، احترام سے اسے چھوڑ دیا اور پلٹ کر نہ دیکھا
اٹھارہ اٹھارہ گھنٹے کام کیا، غلطیوں کو پیر و مرشد بنایا، ان سے سیکھا اور سفر جاری رکھا
خود دانش ور نہیں تھا، اس کمی کو پورا کرنے کے لیے اپنے اردگرد سمجھدار لوگ جمع کیے، ان کودھیان سے سنا، رہنمائی لی اور آگے بڑھتا رہا
خود کو کبھی خوشامدیوں کا قیدی نہیں بننے دیا
کسی لمبی چوڑی منصوبہ بندی اور تنظیمی جکڑ بندیوں میں نہیں پڑا، بروقت فیصلے کیے، سخت فیصلے کیے،
بس منزل پر نظر رکھی اور بڑھتا چلا گیا
اردگان نے بہت پہلے سیکھ لیا تھا کہ کامیابی کے سب ساتھی ہوتے ہیں اور ناکامی کا کوئی باپ نہیں ہوتا
اس نے کہا بس کامیابی کامیابی کا یقین، مستقل مزاجی سے سفر اور سخت محنت۔
اس نے نبض شناس بننے کافیصلہ کیا وہ مئیر بنا تو عوام کے دو بڑے بلدیاتی مسئلے معلوم کیے اور ان کو اپنے سیشن میں حل کر کے دکھا دیا اور اگلی بار 26 بلدیات اس کی پارٹی کی جھولی میں تھیں
لوگ آئے، بولے ہم اسلامسٹ ہیں، اسرائیل سے لڑیں، اس نے معذرت کی کہ ابھی وقت نہیں آیا، آپ ازاد ہیں چاہیں تو لڑ لیں
ساتھی آئے، بولے فوج سیکولر ہے، اس سے پھڈا کریں، سیدھا کر دیں، وہ مسکرایا اور بولا وقت آنے پر
ساتھیوں نے کہا یہ جج یہ میڈیا ؟اس نے کہا وقت آنے پر، ہاں جسے جلدی ہے، وہ جائے اور کر لے
وہ ایک ماہر فٹبالر کی طرح بال لے کر بڑھتا رہا، جہاں پاس دینا تھا وہاں پاس دیا، جہاں ڈاج دینا تھا وہاں ڈاج دیا، جہاں سر سے بال روکنی تھی وہاں دلیری اور مہارت سے سر آگے کیا، اور بال چھن گئی تو تھک کر بیٹھا نہیں، راستہ تلاش کرنا اس کا اصل ہنر تھا
اور سنگل لائن ایجنڈا
’’عوامی قوت سے کامیابی‘‘
وہ لڑکیوں کے جینز پہننے پر غصہ میں آیا نہ فحاشی روکنے پر توانائی لگائی، وہ جانتا تھا اور اچھی طرح جانتا تھا کہ سارے اور ہر طرح کے فساد کی اصل جڑ اقتدار ہے، نظام اور اسے ٹھیک کرنے کے لیے اقتدار کا حصول ہی واحد راستہ ہے. وہ جان چکا تھا کہ وقت، وسائل، توانائی اور صلاحیت محدود اور چیلنج لامحدود ہیں، اس لیے ساری توانائی کو بس اقتدار کے حصول میں کھپانا ہے اور اس منزل کی طرف جاتے ہوئے کسی بھی کام پر محنت اور وسائل نہیں لگانے. اس نے ساتھیوں اور اپنے تمام اداروں اور برادر قوتوں کو بس ایک نکتے پر مرتکز کیا اور عدسہ اپنے ہاتھ میں رکھا، چنانچہ سورج کی بکھری بےضرر کرنیں بھی آگ بھڑکانے کا ذریعہ بن گئیں اور وہ اپنے ہی ووٹوں کے ریکارڈ توڑتا آگے بڑھ گیا.
اور ہاں اس راستہ میں امیر ہونا ضروری نہیں کہ وہ ایک کوسٹ گارڈ کا بیٹا تھا
ذہین ہونا ضروری نہیں کہ اردگان اوسط ذہانت کا انسان ہے
طاقتور پس منظر ضروری نہیں
غیرمعمولی صلاحیت ضروری نہیں
بس ضروری ہے تو
اپنی ملک وملت سے وفاداری
واضح ہدف
مستقل مزاجی سے محنت
شکستوں سے سبق
اور
بڑا خواب، بہت بڑا خواب
خدا کی قسم
مجھے اردگان جیسے سینکڑوں ادھر ادھر پھرتے، دھکے کھاتے اور ہیرے پتھروں کی طرح رلتے نظر آتے ہیں
ضرورت ہے ایک جوہری کی
ضرورت ہے ایک اربکان کی

Comments

Click here to post a comment