خونی رشتوں کی انسان زندگی میں بہت اہمیت ہوتی ہے۔والدین کے بعد ایسے رشتوں میں ایک بڑا رشتہ ”بڑے بھائی“ کا ہے۔ تاریخ بھری پڑی ہے کہ جب کہیں کسی کے والد کی بے وقت فوتگی ہوئی تو اس گھر میں بڑے بھائی نے اپنی ساری خوشیوں کی قربانی دیتے ہوئے گھر کو ایسا سہارا دیا کہ والد کی کمی کو پورا کر دکھایا۔ یہی وجہ ہے کہ مذہب اور معاشرے دونوں میں بڑے بھائی کو والد جیسا درجہ ہی دیا گیا ہے۔حدیث پاک ہے: "بڑا بھائی باپ کی طرح ہے". (شعب الایمان)
بڑے بھائی کو یہ درجہ اس لیے ملا کہ چھوٹے بہن بھائیوں پر شفقت اور وقار کے حوالے سے اس کا انداز باپ ہی کی طرح ہوتا ہے. وقت پڑنے پر وہ ان کے سکون اور ہر خوشی کا خیال کرتا ہے، ان کی چھوٹی سے چھوٹی تکالیف پر تڑپ اٹھتا ہے، ان کے اچھے مستقبل کے خواب دیکھتا ہے اور ان کی راہ کے کانٹے دور کرنے کی کوشش میں مصروف رہتا ہے۔اکثر بڑے بھائی کی جوانی اپنے سے چھوٹے بہن بھائیوں کا مستقبل بنانے اور گھر کو قائم رکھنے میں قربان ہو جاتی ہے۔ کسی نے کیا خوب کہا ہے: "بڑا بھائی وہ دایاں بازو ہوتا ہے جو جوانی میں والدین کا سہارا بن کے چھوٹے بہن بھائیوں کی ضروریات٫ خواہشات اور دلچسپیوں کی تکمیل کے لیے اپنا خون پسینہ ایک کر دیتا ہے."
جس طرح باپ اور بیٹی کا رشتہ انمول ہے بالکل اسی طرح بھائی بہن کا رشتہ بھی اٹوٹ انگ ہے۔ بڑے بھائی اور بہن بچپن میں ایک دوسرے کے لڑتے لڑتے اک دم ایسے گھل مل جاتے ہیں کہ اس رشتے سے گھر میں ایک کمال رونق بن جاتی ہے۔ یہی چھوٹی چھوٹی جھڑپیں محبت کی نشانیاں بن کر گھر کی فضاؤں کو محبت و خلوص سے لبریز کر دیتی ہیں۔ اللہ تعالی نے ماں کے بعد بھائی کے رشتے کو بہت اہمیت دی ہے اور مسلمانوں کو بھائی بھائی بن کر رہنے کی تلقین بھی کی ہے۔ قرآن پاک میں اللہ کا ارشاد ہے: "بے شک مسلمان آپس میں بھائی بھائی ہیں، تو اپنے بھائیوں کے درمیان مصالحت کراؤ اور اللہ سے ڈرتے رہو تاکہ تم پر رحم کیا جائے۔" (الحجرات)
اس سے یہ معلوم ہوا بھائی کا رشتہ اتنا عظیم ہے کہ اللہ نے بھی مسلمانوں کو آپس میں بھائی بندی کی ہی تلقین کی ہے۔ جس طرح گھروں میں بھائی آپس میں لاکھ مخالفتوں کے باوجود خون کے ایک اٹوٹ رشتے میں بندھے ہوتے ہیں اور زمانے کی لاکھ آندھیاں ان کو جدا نہیں کر پاتیں بالکل اسی طرح اللہ تعالی تمام مسلمانوں کی بھی آپس میں محبت کو پسند کرتے ہیں۔ کبھی کبھی سگے اور خونی رشتوں کی آپس میں دوری کی وجہ کسی تیسرے فریق کی پھیلائی گئی بدگمانیاں اور غلط فہمیاں بن جاتی ہیں لیکن بالآخر یہ رشتے پھر ایک ہوجاتے ہیں۔ عموماً ایسا بھی ہوتا ہے کہ جب بچے بڑے ہوتے ہیں تو بھائیوں کے درمیان بدگمانیاں اور دوریاں پیدا ہونے لگتی ہیں لہذا ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم اپنے رشتوں کی قدر کریں تاکہ یہ انمول محبتیں انمٹ ہوکر دھرتی کو جنت بنائیں اور ہمیں قیامت والے دن شرمندہ نہ ہونا پڑے۔
میں خود ایک بڑا بھائی ہوں۔ ہمارے والد محترم شوگر اور بلڈ پریشر کا شکار ہوکر میری کم عمری میں ہی بیروزگار و کمزور ہوگئے تھے۔ ایسے کڑے وقت میں اپنی والدہ کے ساتھ مل کر میں نے اپنی تعلیم ادھوری چھوڑتے ہوئے زندگی سے جو جنگ کی اس تجربے کا نچوڑ میں نے اپنے کالم میں اوپر بیان کر دیا ہے۔ اپنے سے چھوٹے بہن بھائی مجھے اپنی اولاد جیسے تھے اور انکی کامیابیاں میرا سیروں خون بڑھاتی تھیں۔ہمارے والد محترم کی جلد موت سے ہونے والی محرومی کا ازالہ کبھی نہیں ہو سکتا۔ اگر آج وہ زندہ ہوتے تو ہماری خوشیاں دیکھ دیکھ کر پھولے نا سماتے۔ اللہ میرے بھائی بہن اور ہماری اولادوں کو سدا پرسکون و صحت مند رکھے اور ہم اپنی والدہ کے خدمت گزار ہونے کے ساتھ ساتھ اپنے والد محترم مرحوم کی آخرت کے لیے صدقہ جاریہ بنیں۔ آمین ثم آمین۔
یوں تو رشتے ہیں بہت دنیا میں محبت والے
بھائی بہنوں سا نہیں کوئی بھی رشتہ پیارا
تبصرہ لکھیے