آپ نے کچے کے ڈاکو تو سنیں ہوں گے .ان کے بھیانک اور لرزہ خیز ویڈیوز بھی ملاحظہ کیے ہوں گے، اب شاید آپ ان کا نام سن کر ہی ڈر جاتے ہوں. یہ بات کسی حد تک درست بھی ہے کہ انہوں نے اپنی کارستانیوں سے پورے معاشرے کو کچے کے لفظ سے خائف اور متنفر کردیا ہے.
اب جب "کچہ" ہمارے ذہنوں میں آتا ہے تو اس کے اگینسٹ میں ہم امن کو لا کھڑا کرتے ہیں، مطلب دو متضاد چیزیں شمار کرلیتے ہیں،کہ کچہ بھی ہو اور امن بھی یہ ناممکن ہے۔ میں اب ان کی وہ تصویر دیکھ آیا ہوں جو حقیقت میں ان کی ثقافت کی عکاسی کرتی ہے۔ چنانچہ ہم سوموار کی دوپہر اپنے میزبان کے ہمراہ سوئے "کچہ" چلے اب جو اس کا ڈر جو دل میں تھا اس کا اظہار ہر دوسرے موڑ پر کررہے تھے، راستے میں جہاں موٹر سائیکلوں کا ہجوم دیکھا سندھی ٹوپی سے چھپی پیشانی سے لوگوں کا جھرمٹ دیکھا ہم خود بخود "السلام علیکم ورحمۃ اللّٰہ و برکاتہ" سے خوف کی کرنیں بھجانے کی کوشش کررہے تھے.
پہلے پہل تو ہم نے ان سا حلیہ بھی اپنایا لیکن یہ حلیہ بھی ہمارے خوف کو ختم نہ کرسکا۔ اب ہم تھوڑے سی پکی سڑکوں سے چیکی مٹی کے راستوں پر موٹر سائیکلوں کے ذریعے مقابلہ آرائی کی کوشش کرنے لگے تھے. تھوڑی سی اسپیڈ ہمارے اور قبر کے درمیان فاصلے سمیٹ سکتی تھی، اس لیے ہم شرافت سے آہستہ آہستہ چلتے رہے. چار بجے سے نکلے راہی اب تقریباً پانج سوا پانچ ہم اندر کچے کے اس علاقے میں اترے جہاں کے مناظر بسا اوقات ہم ویڈیوز میں دیکھتے ہیں۔ ارد گرد مختلف جھاڑیوں اور جزیرہ نما نیم مردہ زمینوں پر اگے مٹر اور اور چنوں کے کھیت میں کسی کو چھپا لینا کوئی مشکل کام نہیں، پھر چاہے ڈرون آئے یا جہاز، بہر حال ان تک رسائی ناممکن سے ناممکن ہوسکتی ہے۔
یہ الگ بات ہے ہمارا میزبان گھرانہ خاندانی تھا جدی پشتی سے علماء سے محبت کرتا تھا، اس کا اندازہ مجھے ان کی ملنساری اور میرے آباء و اجداد کا مزے لے لے کر تذکرے کرنے سے ہوا، ان کی ایک دوسرے کو نویدوں سے ہوا جو وہ ہمارے آنے کی سنا سنا کر دور سے اپنے متعلقین کو بلا رہے تھے، ان کچے کے لوگوں کو اپنے والد صاحب اور چچا کے ہاں آتے تو دیکھا تھا. لیکن ان کی دلوں میں ہماری محبت کا اندازہ مجھے ابھی ہورہا تھا، مجھے سمجھ نہیں آرہا تھا کہ کیا واقعی یہ وہی لوگ ہیں جن کے بارے میں لوگوں نے غلط باتیں پھیلا رکھی ہیں؟
کیا واقعی لوگ کچے اور ڈاکوؤں کے بیچ بھی مہذب اور دیندار ہوسکتے ہیں؟ بلا تکلف بیٹھنا اپنا سمجھ کر باربار گلے لگا کر اپنے آپ کو یقین دلانا کہ واقعی ہمارے محبوب خانوادے کا فرد آیا ہے۔ اس طرح کے غیر متوقع مناظر میری آنکھوں نے اس سے پہلے نہیں دیکھے تھے۔ اب ہم مغرب کے لیے صفیں باندھ چکے تھے، لیکن امام صاحب ندادر، بعد میں معلوم ہوا کہ سب مقتدی ہمارے منتظر ہیں، ہم بھی ان کے اس احترام ضیافت کے قدردان تھے، سو آگے بڑھ دیے، اور دل سے ان کے حکم کی تعمیل کی اور تکبیر باندھ کر کھڑے ہوئے.
مغرب سے عشاء تک وہ پکی محبتوں والے اپنی بے لوث محبتوں سے گرویدہ کر چکے تھے، مچھلی سے ضیافت کے ساتھ ساتھ وہ اپنی دلی چاہتوں سے بھی مہمان نوازی کررہے تھے۔ بہت سے چہرے ایسے تھے جو اس سے قبل نہ دیکھے تھے مگر وہ مصِرّ تھے کہ ہم ان کے بچپن کے دوست ہیں۔ ہم ہی ان کے سوتے ہوئے منہ میں مرچیوں کے چٹکیاں ڈال کر جاتے تھے، اور کھڑکیوں سے پتھر پھینک کر ان کو ڈرانے کی ناکام کوشش کرتے تھے، اپنی یہ بچپن شریف کی شریفانہ حرکات کا تذکرہ سن کر محظوظ بھی ہورہےتھے، تو شرمندہ بھی کہ کیا تھے ہم اور دعویٰ دیکھ! ہم اپنے تئیں طرم خان نہ صحیح سعید خان تو ضرور ہیں۔
عشاء کے بعد ایک بابا تشریف لائے اور بڑی لجاجت سے بولے آپ ہم سب گاؤں والوں کے لاڈلے ہیں، کیا ہی اچھا ہو کہ آپ ہمارے ساتھ ہماری اوطاق چلیں، جہاں سب آپ کی زیارت کرسکیں گے، آپ سے باتیں کر سکیں گے۔ اوطاق ایک جنگل میں، یا گاؤں میں وہ جگہ ہوتی ہے جہاں سے سب کی محبتوں کا بندھن مضبوط سے مضبوط تر ہوجاتا ہے دنیا جہاں کے سب کام مکمل کرکے سورج ڈھلتے جب وہ آکر اس کمزور تنکوں اور لکڑیوں سے بنی اوطاق میں مضبوط ترین اور پکی محبت کا مزا چکھنے میں مشغول ہوجاتے ہیں، تب ہم جیسے پکے کے لوگ آنکھوں سے اسکرین لگا کر اسکرول میں مگن ہوتے ہیں.
وہ حقیقی محبت ہم سے چھو کر بھی نہیں گزری جب سے اس موبائل فون نے ہمارے جینے کا طریقہ ہی بدل دیا ہے۔ خیر اس اوطاق میں قہوہ ہو یا چائے سب کا دور چلتے چلتے وقت بیت جاتا ہے پھر صبح وہی کام وہ پھوڑا اور کودال اور کھیتوں سے دوبارہ سے دوستی۔ ہم جب اوطاق میں داخل ہوئے، تو وہاں دس بارہ نفر ہمارے انتظار میں بیٹھے تھے، ہمارے آتے ہی سب نے ہمیں بازوؤں میں لیا، پھر جو محبت بھری کچہری کا سلسلہ شروع ہوا، تو بارہ بج گئے،اندازہ بھی نہ ہوا۔ یہ وقت دیہات میں نیند کا ایک دور پورا کرکے دوسرا شروع کرنے کا ہوتا ہے، جبکہ ہم ابھی تک پہلے دور سے بھی کوسوں دور تھے۔
اگلی صبح نماز اور درس قرآن جیسے مبارک عمل سے جو آغاز ہوا، تو روح کو اور ہی تازگی مل چکی تھی، ایک طرف فطری زندگی کے مزے تو دوسرا اس دوران خدا سے غفلت سے بھی اجتناب، تفریح اور حقوق خدا کا حسن امتزاج کا مظہر تھا۔ خالص دودھ میں چینی پتی ملا کر چائے کے نام پر ہمیں ایک مشروب پیش کیاگیا جس سے ہم بچپن سے مانوس تھے، اب یہ محبت کے جام کون ہے جو ٹھکرائے ہم تو ایسی محبتوں کے مدتوں پیاسے تھے سو دو کپ کے بعد بھی دل "ھل من مزید" پکار رہا تھا۔
شبنم کچھ تھمی تو کشتی کا سیر کرنے پر دل بضد ہوا، ان "کچے والوں "کے شان کے خلاف تھا کہ وہ مہمانوں کا کہا نہ مانیں، سو کھلے دل سے وہ بھی ہمیں کشتی کے ذریعے دریا کے اس پار لے چلے، کچھ وہاں کی ہریالی کو جی بھر کے دیکھنے کی کوشش کی، تو کچھ ان غیر معمولی محبتوں گننے میں وقت گزرا، رفیق سفر سے کچھ خاص رفاقت تھی تو اس کے ساتھ گھومنے کا چس بھی الگ تھا۔ قاتل خاموشی، اجنبی مگر محبوب چہرے، اسلحہ مگر بے خوف سے ہم، کا عالم تھا، وہاں جو حُکمرانی تھی تو فقط پرندوں کے چہچہانی کی، محبتیں بانٹنے والوں کی، دل سے دل ملانے والوں کی تھی، ہم شہر کے لوگ پورے بیس گھنٹے اسی سلطنت میں گم تھے.
جس سے باہر کی دنیا خائف اور اندر سے یہ پر امن، باہر کی لوگوں کی نظر میں یہ مجرم تو ان کے نظر میں وہ منفی ذہن محترم تھے۔ حقیقت پوچھیں تو ہمیں وہاں کی محبتوں سے احترام اور اپنائیت سے جو سمجھ آیا، تو فقط یہی تھا، ظاہر میں اگرچہ یہ "کچہ" ہے مگر اس کی محبتیں پکی سے پکی تر ہیں۔ یقین نہ آئے تو وقت نکالیں اور ان علاقوں کی سیر کریں میں دعویٰ سے کہہ سکتا ہوں، آپ میری ہر ہر بات سے اتفاق کریں گے اور بے ساختہ کہہ دیں گے واقعی کچے کی پکی محبتیں ہیں۔
بس انہیں سمجھنے کی ضرورت ہے. جس طرح ہر جانور جو ایک ہی لاٹھی سے ہانکنا بے انصافی ہے بالکل اسی طرح صرف کچے کا نام سن کر وہاں کے سب باشندوں پر ڈاکوؤں کا لیبل لگانا بھی ناانصافی ہے.
آپ ذرا ان کا مشاہدہ کریں ان کی محبتیں دیکھیں خود پرکھیں ان میں مجرم کون اور مظلوم کون ہے پھر کوئی فیصلہ کرلیں۔سب سلامت رہیں، اللہ تعالیٰ میرے پیارے دوست مولانا غلام محی الدین چاچڑ صاحب اور اس کے تمام رفقاء کو جزائے خیر عطا فرمائے آمین۔
تبصرہ لکھیے