بھارت میں مردانہ حقوق کا شوربڑھنا شروع ہوگیا۔ لبرل ازم کی ہولناک شاخوں میں ایک فیمن ازم ہے۔ اس غلیظ فیمن ازم اور خواتین کے تحفظ کے نام پر چلائی گئی تحریکوں کے بارے میں اب سماجی ماہرین کہتے ہیں کہ یہ تحریکیں خواتین کو مزید غیر محفوظ کررہی ہیں۔ معاملہ یہ ہے کہ خواتین کے حقوق کے جواب میں اب ’مَردانہ حقوق‘ لانچ ہوگئے ہیں۔ بھارت ڈیڑھ ارب آبادی والا اہم ملک ہے۔ وہاں ہونے والا کوئی واقعہ معمولی نہیں۔ ہمارے ملک میں تو شادی بیاہ، خوشی غمی، سیاسی و مذہبی سمیت تہذیبی مظاہر بھارت سے ہی نقل شدہ نظر آتے ہیں، اس لیے اثرات کی منتقلی کی اہمیت کا انکار کوئی نہیں کرسکتا۔
بھارت سے ایک اور خودکشی سے قبل کی وڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی ہے۔ یہ وڈیو بھارت کے صوبے اترپردیش کے مشہور شہر آگرہ میں ایک 30 سالہ آئی ٹی کمپنی کے منیجر مانو شرما کی ہے ۔ 24 فروری کو و ہ اپنے گھر میں پھندا لگا کر موت کی آغوش میں چلا گیا۔اپنی زندگی ختم کرنے سے پہلے مانو شرما نے روتے ہوئے اور گلے میں پھندا ڈالتے ہوئے ایک ویڈیو ریکارڈ کی۔ویڈیو بیان سے معلوم ہوتا ہے کہ شرما نے اپنی بیوی کی بدکرداری اور بیوی کو حاصل قانونی تحفظ کی وجہ سے بے بسی ظاہر کی۔اس نے بے غیرتی کے ساتھ جینے کے بجائے خود کشی کا رستہ چُنا۔ مانو شرما کے باپ نے تھانے میں اپنی بہو کے خلاف رپورٹ بھی کرائی ہے مگر کوئی گرفتاری نہیں ہوئی ۔مرتے مرتے اُس نے ریاستی حکام سے "مردوں کے بارے میں سوچنے" کی التجا کی۔ اس نے کہاکہ کوئی مرد نہیں بچے گا۔ شرما کی بیوی نے تمام الزامات کی تردید کی اور شوہر پر شراب کی لت کا آسان الزام لگا دیا ۔بدکرداری کے بارے میں اُس کی بیوی نے کہا کہ یہ معاملہ شادی سے پہلے کا تھا۔لیکن اب کیا فائدہ ،چڑیا چگ گئیں کھیت۔بھارت میں ہر مہینے ، جی ہرمہینے شوہروں کی خودکشی کے دو سے تین بڑے کیسز سامنے آنا شروع ہوگئے ہیں۔مردوں کے نہیں شوہروں کے ۔
آئی آئی پی ایس International Institute for Population Sciences کے تجزیہ سے پتہ چلتا ہے کہ ہندوستانی مردوں میں خودکشی کی شرح ہندوستانی خواتین کے مقابلے 2.5 گنا زیادہ ہے۔9 دسمبر 2024ء کو بنگلورو کے 34 سالہ انجینئر اتُل سبھاش نے خودکشی کرلی تھی۔ وہ بھی بیوی کی بلیک میلنگ کا ڈسا ہوا تھا۔اس کے بعد بھی یہ شوہروں کی خودکشیاں مستقل جاری ہیں۔
اہم بات یہ ہے کہ یہ سب مرتے ہوئے بیان دیتے ہیں ۔ عالمی قانون کے مطابق مرنے والی کی بات سچ تسلیم کی جاتی ہے۔ >بھارت میں خواتین حقوق کی تنظیموں کا کہنا ہے کہ ’’قوانین کا غلط استعمال ہوتا ہے، لیکن اصل میں تو قوانین خواتین کے تحفظ کے لیے ہیں‘‘۔ دیپکا نارائن بھردواج ایک خاتون صحافی اور فلم میکر ہیں۔ یہ بھارت میں مردانہ حقوق کی نمایاں آواز جانی جاتی ہیں۔ انہوں نے بھارتی جہیز کے قانون 498Aپر 8 سال قبل ایک دستاویزی فلم بنائی ’’martyrs of marriage‘‘۔ اس فلم نے بھارتی مردوں پر جہیز کے قانون کی آڑ میں ہونے والے مظالم کے راز کھول دیے۔ اُنہوں نے مغرب سے درآمد شدہ ’’می ٹو‘‘ موومنٹ کے بھی راز فاش کیے اور جواب میں ’’مین ٹوMentoo‘‘ مہم چلائی۔ دیپکا نے بھارتی معاشرت میں میڈیا کے ذریعے پھیلتی لبرل اقدار کی وہ داستانیں بیان کیں جنہیں آپ اِن صفحات پر برداشت ہی نہیں کرسکتے۔ بس یہ جان لیں کہ اُن کے مطابق بھارتی خواتین اپنی 1: مستقل بڑھتی ہوئی لامحدود خواہشات، 2: مرضی کی ہروقت خریداری، 3: محنت کے بغیر پُرتعیش زندگی کی خاطر ہر حد پار کررہی ہیں۔
یہ ہے وہ مسئلہ جو ہم save the family کے نام پر مستقل بتا رہے ہیں۔یہ ہے وہ سرمایہ دارانہ لبرل نظام کی گندگی ۔ رشتوں کی تقدیس، ان کا اخلاقی وجود مستقل بے معنی ہورہا ہے۔ آپ چیک کرلیں دُنیا کے جس خطے میں اِن زہریلے غلیظ مغربی عقائد کو کسی بہانے جگہ دی گئی، وہاں خاندانوں کی تباہی بھی ہولناک حد پر پہنچ گئی۔بھارت میں بھی اُن کی ہزاروں سال کی روایات کی برخلاف ریاستی عمل داری ، قوانین کے نام پر میاں بیوی، والدین اولاد سمیت ہر جگہ داخل ہو رہی ہے اور نتیجہ موت ، خاندان کا خاتمہ۔ ہندو مذہب میں میاں بیوی کا رشتہ جسمانی، معاشرتی اور روحانی مانا جاتا ہے۔ ’’اردھ ناریشور‘‘ (آدھا مرد آدھی عورت) کہا جاتا ہے، یعنی دونوں ایک دوسرے کے بغیر مکمل نہیں۔ ہندو دھرم کی کتاب ’’منوسمرتی‘‘ کے مطابق میاں بیوی کا رشتہ زندگی بھر کے لیے ہے۔ شوہر کو گھر کا سربراہ اور خاندان کی ذمہ داری اٹھانے والا قرار دیا جاتا ہے۔ بیوی کو ’’گھر کی دیوی‘‘کے طور پر شوہر کی معاون، وفادار، اور خاندان کی دیکھ بھال کرنے والی کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔ دینِ اسلام میں بھی میاں بیوی کے حوالے سے جو احکامات ملتے ہیں وہ ’مجازی خدا، قوام، سجدے کی اجازت‘ جیسے اشاروں سے کافی ہیں سمجھانے و تذکیر کے لیے۔ جب مذہب کی ایسی تعلیمات ہیں، تو پھر وہ کون ہے جو اپنے عقیدے پر عمل سے یکسر روک دیتا ہے؟ ایسے کہ کسی رشتے کی کوئی قدر باقی نہیں رہتی۔ نہ ماں، نہ باپ، نہ بیٹا، نہ شوہر، کوئی نہیں۔ جیسی صورتحال اب مغرب میں ہوچکی ہے۔ تو ذرا شعور کوبیدار کیجیے اور ان واقعات سے عبرت لیجیے۔
تبصرہ لکھیے