ہوم << تین یمنی بھائی (8)- ڈاکٹر اعجاز فاروق اکرم

تین یمنی بھائی (8)- ڈاکٹر اعجاز فاروق اکرم

یاسر صحن کعبہ میں سردارانِ قریش کی جھڑکیاں اور دھمکیاں سُن کر گھر پلٹے،راستے بھر وہ ان باتوں اور ان کے نتائج و اثرات پر غور کرتے رہے۔پہلے غیر معمولی اور خوفناک خواب کا معاملہ حل طلب تھا،اوپر سے سردارانِ قریش کی باتوں اور رویے نے انہیں دوہرے مخمصے،بلکہ صدمے سے دوچار کردیا۔

کفر،شرک ،بت پرستی اور جہالت کے فکری مخمصے سے تو وہ تب ہی سے دوچار تھے،جب سے وہ یمن سے نکلے، سارے عرب کی خاک چھانی اور مکہ میں آکر پناہ لی،پھر یہاں کے عجیب،غیر منطقی اور غیر فطری مراسمِ عبودیت نے انہیں فکری و عملی انتشار و پراگندگیٔ ذہن سے نصف صدی تک شکار کیئے رکھا ،اب جب کہ وہ عمر کے آخری حصے میں اس کا کوئی حل نہ پاکر اس کے عادی ہو چکے تھے،تو ایک ہی دن کے ابتدائی نصف حصے میں انہیں دو بڑے انہونے اور غیر متوقع و غیر معمولی حالات و سوالات کا سامنا کرنا پڑا۔۔مگر انہیں کیا خبر تھی ایک تیسرا مخمصہ اور معاملہ ان کے گھر میں ان کی راہ تک رہا ہے ۔

یاسر نے جوں ہی گھر کی دہلیز پر قدم رکھا ،انہیں یہاں کا منظر بھی صحنِ کعبہ کے منظر کی طرح یکسر بدلا بدلا لگا،یاسر کا چہرہ تو لٹکا ہوا تھا،مگر بیٹے عمار اور اس کی والدہ کے چہرے انجانی خوشی سے دمک رہے تھے اور جسم کی زبان بھی مسرتوں کی عکاس تھی۔ سمیہ کا چہرہ اپنی سیاہ رنگت کے باوجود چمک دمک رہا تھا۔خوشی ان کے چہرے سے ٹپک رہی تھی،اور آنکھوں میں ایک عجیب سا اطمینان تھا۔وہ شوہر کو دیکھ کر اس کی طرف لپکیں اور شدت جذبات و وفورِ شوق میں ان سے لپٹ لپٹ گئیں۔

یاسر اس نئی افتاد کے لیئے کیا تیار ہوتے،وہ تو صبح کے خوفناک خواب اور صحنِ کعبہ کی اذیتناک باتوں اور رویوں کے صدمے سے دو چار تھے۔ اس سے پہلے کہ یاسر کچھ بولتے۔۔سمیّہ نے پُرجوش آواز اور فخریہ لہجے میں کہا۔۔
"ابشر یاسر،فقد جاءنا عمار بخیر الدنیا والآخرۃ "
یاسر ۔۔خوش ہوجائیے کہ ہمارا بیٹا عمار ہمارے لئے دنیا و آخرت کی بھلائیاں لے کر آیا ہے ۔

آخرت۔۔اخرت۔۔!!
یاسر اس نئے لفظ پر چونکے۔۔۔گویا کہہ رہے ہوں کہ یہ کیا ہے ۔یہ کیسی اصطلاح ہے،یہ کون سا فلسفہ ہے اور یہ کونسا تصور ہے۔۔دنیا میں تو اس کا وجود نہیں یہ لفظ پہلے کبھی نہیں سُنا۔ساٹھ ستر سال پہلے نہ یمن میں،نہ سارے عرب میں،اور نہ ہی کبھی مکہ میں جہاں رہتے یاسر کو پچاس سال ہوچکے تھے۔ یاسر کو لگا ۔۔یہ تصوّر کہیں اس کی فطرتِ سلیمہ میں پہلے سے موجود تھا،مگر اسے لفظی شکل آج ملی ہے۔اسے توقع ہوئی شائد معنوی اور عملی شکل بھی جلد ہی ملنے والی ہے۔

یہ وہ پہلا فلسفۂ حیات ہے جو آنے والے فکری عہد کا بنیادی نکتہ تھا۔دنیا فانی ہے۔۔سب جانتے تھے،دیکھتے تھے،اور منوں مٹی تلے دفن ہوجاتے تھے۔ دوبارہ زندگی اور لافانی حیات اور جزا و سزا کا تصور یقیناً نیا اور ناقابل یقین ،بلکہ۔ناقابل قبول تھا۔۔اِسی لیئے مکہ کے چند لوگ ہی ابھی خفیہ طور پر اس فلسفے پر ایمان لائے تھے۔وبالآخرۃ ھم یوقنون۔ایمان سے بھی اگلی منزل ۔۔بِن دیکھے۔۔یقینِ کامل۔اگرچہ عقل نہیں مانتی تھی ۔۔مگر عقل سے ماوراء حِسّوں نے اس لیئے اس خبر کو مان لیا کہ بتانے والا کائنات کا سب سے معتبر و وقیع تھا۔

آلِ یاسر میں سے عمار اور اس کی والدہ نے سبقت لیتے ہوئے اسے مان لیا،قبول کرلیا اور خود کو اس دعوت اور داعی کے سپرد کردیا۔یاسرکو فوری طور پر تو کچھ سمجھ نہ آیا کہ ہو کیا رہا ہے اس کے ساتھ،اور آج کون سا دن طلوع ہوا ہے۔اس کی زندگی کا سب سے منفرد اور مؤثر دن۔کہنے لگے۔
"انی لأعیش عیشۃ مُنکِرۃ منذ الیوم،تروّعنی أحلام اللیل،ولا آفھم ما یُقال لی أثناء النھار۔"

آج میری زندگی کا عجیب اور ناقابل فہم دن ہے۔۔رات کو مجھے عجیب خواب خوفزدہ کرتے ہیں اور دن میں ہونے والی باتیں میری سمجھ سے باہر ہیں ۔ یہ دن شائد نہ چڑھتا،اگر تاریخ حسبِ سابق عرب بدوؤں سے تعصب برتتی رہتی،یا حقارت سے ہی دیکھتی رہتی،یا نفرت ہی کرتی رہتی۔مگر کچھ ایسا ہو رہا تھا،مکے میں ،چُپکے چُپکے کہ تاریخ کو یہاں ڈیرے ڈالنے ہی پڑے ۔ تاریخ نے ایک اُچٹتی سی نظر سے دیکھا تھا کہ سارے عرب میں جوانِ رعنا اپنے کردار ،اخلاق اور حسنِ عمل کے ساتھ خاندانی شرافت و نجابت سمیت ،حُسن و جمال ،صدق و صفا،امانت و دیانت،وفا وحیاء کے بے مِثل و بے نظیر شاہ کار کے طور پر پروان چڑھ چکا ہے۔

وہ یتیموں کا والی اور مسکینوں کا ملجا و مأویٰ اور سہارا بن رہا ہے،اس کے رُخِ روشن کی قسم کھا کر اور واسطے دے کر مکے والے کسی ان دیکھے مختار و مقتدر خدا سے بادل ،بارش اور خوشحالی مانگنے لگے ہیں ۔ وہ بلند و بالا غار حراء میں خلوت نشین ہونے لگا ہے ۔ وہ اس قدر مہربان،رحیم و شفیق ہستی ہے کہ لوگ اپنی جان ،مال ،آبرو کی پروا کیئے بغیر اس کے گرد جمع ہو رہے ہیں،وہ جو کہتا ہے،سنتے ہیں۔سَمِعنا۔۔..وہ اس سے جو سنتے ہیں ,اس پر صدق دل سے یقین کرتے ہیں اور سرِ تسلیم خم کرکے اطاعت و وفا کا راستہ اور طرز عمل اختیار کرتے ہیں، اَطَعنا۔اس کے گرد مکہ کے سردار، غلام،کمزور ،اور غیر مکیّوں کی تعداد روز بروز بڑھنے لگی ہے۔

اس کی دعوت و پکار سینہ بہ سینہ مکہ کے ہر گھر تک پہنچ رہی ہے،اور دلوں کی اواز اور فطرت کی پکار بن کر قبولیت پا رہی ہے۔ اس عہدِ ظلمات و جہل میں،اور باطل و طاغوت کی سرکشیوں اور ظلم و جبر کی سختیوں میں ،اور فکری و عملی فسادِ برّ و بَحر کی انتہاؤں میں،اور بے بندگیٔ رب اور ابدی خسران کی آگ کے گڑھوں میں بھڑکتے شعلوں میں ایک پکارنے والے کی صدا پر لبیک کہنا جان جوکھوں کا کام تھا،اور یہ بلند نصیب اور مراتب ہر کسی کے مقدر میں کہاں تھے۔یہ تو امتیاز اور فخر تھا۔السابِقون الاوّلون ۔۔۔کا۔

تاریخ نے یہ سب دیکھا تو مکہ کی ہر گلی،ہر نُکّڑ،ہر مجلس اور ہر محفل بلکہ ہر گھر ۔۔جہاں جہاں ایمان و رفاقتِ رسول کی مدھم سی کرن بھی چمک رہی تھی،گھات لگا کر بیٹھ گئی۔ تاریخ کی کفر و جہل کے حق میں جانبداری تو دیکھیئےکہ اس نے مکہ میں رونما ہونے والے ان غیر معمولی واقعات بالخصوص آل یاسر کے قبول اسلام کی خبر گھر کے سربراہ یاسر کو دینے کی بجائے اپنے شریک فکر ابو جہل کو ہی کرنا ضروری سمجھا۔ یاسر نے گھر میں اردگرد دیکھا،تو عمّار کا منور و معطر چہرہ بھی دکھائی دیا۔انہیں صبح کی مجلس میں ابو جہل کا طعنہ یاد آگیا کہ تمہارا بیٹا تو بے دین ہوگیا ہے ۔وہ کچھ بولنے اور اس بابت جاننے کے لیے منہ کھولا ہی چاہتے تھے،کہ عمار بول اٹھے ۔

"اباجان خوشخبری قبول کیجیئے کہ میں آپ کے لیئے دنیا و آخرت کی بھلائیاں سمیٹ کر لایا ہوں "
یہی بات عمار کی والدہ سمیہ نے بھی کہی تھی،مگر یاسر کچھ سمجھ نہ پائے تھے۔اب بیٹے نے بھی یہی بات کہ دی تو سوچنے پر مجبور ہوگئے اور بولے۔
بیٹا ۔۔۔ذرا وضاحت سے بتاؤ معاملہ کیا ہے ۔میں نے تو سنا ہے،تم بے دین ہوگئے ہو۔اگر یہ درست ہے تو تمہارا برا ہو۔
"ماذا جَنَیتَ علی آبویک"تم نے اپنے ماں باپ کے لیئے کیا بدبختی اور بدنامی کمائی ہے!!

بیٹا ہنستے ہوئے بہت ںرمی کے ساتھ باپ سے کہنے لگا ۔نہیں بابا۔۔بلکہ کہیئے۔۔بیٹا ۔۔
واہ ! تم نے تو ہمارے لیئے کیا نیک نامی اور بھلائی کا کام کردیا ہے۔۔ماذا جَنیت لابَویک۔!
عمار نے بات جاری رکھی ۔ لوگوں نے جو کہا کہنے دیجیئے ۔میں بے دین ہوا یا نہیں ۔چھوڑیئے اس بحث کو اور خوش ہوجائیے کہ میں نے اپنے لیئے،امی کے لیئے اور آپ کے لیئے دنیا و آخرت کی ہر ابدی بھلائی کا سامان کرلیا ہے۔میں نے زمین و آسمان ،ستاروں اور شمس و قمر کے خالق و مالک اور مدبّر و متصرّف و منتظم کی بندگی اختیار کی ہے،اور اس کے سامنے سرِ تسلیم خَم کر دیا ہے ۔

" ارسل الینا محمدا ،یھدینا سُبلنا و یُبصرنا بأمرنا و یُخرجنا من الظلمات الی النور"
اسی ذات والا و بالا نے ہماری طرف محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو بھیجا ہے ،جو ہمیں راہِ ہدایت دکھاتے ہیں،ہمارے دینی و دنیاوی معاملات میں بصیرت سے نوازتے ہیں،ہمیں جہالت کی تاریکیوں سے نکال کر ہدایت و ندگی رب کے نور سے فیضیاب کرتے ہیں ۔

"ومن الجھالۃ والضلالۃ و من الغیّ الی الحکمۃ والھُدی والرُشد۔ "
اور یہی پیامبر محترم ہمیں جہالت و ضلالت،اور سرکشی و نافرمانی سے نکال کر حکمت و یدایت اور عقل و شعور اشنا کرتے ہیں۔

عمار نےباپ کو متوجہ پاکر مذید کہا۔
"وہ ہمیں بشارت دیتے ہیں کہ اگر ہم ایمان لائے اللہ پر،اس کا تقویٰ اختیار کیا تو جیتے جی اس کی رضا اور مرنے کے بعد ابدی اور دائمی اجر و فلاح کے حق دار ہوں گے۔وہ فرستادۂ خدا ہمیں خبردار کرتے ہیں. اگر ہم نے رسول کی تکذیب اور اللہ کی نافرمانی اور بے بندگی کا راستہ اور طرز عمل اپنایا تو دنیا میں لعنت و پھٹکار کے سزاوار ہوں گے اور آخرت کی لامتناہی زندگی میں جہنم کے عذاب سے دوچار رہیں گے۔"

یاسر خاموشی اور پوری توجہ سے یہ باتیں سنتے رہے۔یوں لگ رہا تھا کہ یہ باتیں ان کی سماعتوں سے ٹکرانے سے پہلے ہی دل تک پہنچ رہی تھیں اور اس میں گھر کرتے ہوئے انہیں گھائل کیئے جارہی تھیں۔یاسر کا چہرہ لحظہ بہ لحظہ سرخ اور روشن و چمکدار ہو رہا تھا،یکلخت انہوں نے اپنے حواس کھو دیئے اور ایک عجیب تأثراتی حملے سے چکر کھا کر گرنے ہی والے تھے،اگر ماں اور بیٹا انہیں تھام نہ لیتے۔

انہوں نے یاسر کو سہارا دے کر بٹھایا،ان کے ساتھ نرم اور مہربان لہجے میں حرفِ تسلی کہے،عمار ان کے سر پر ہاتھ پھیرتے رہے اور سمیہ ان کے چہرے کو سہلاتی اور پسینہ صاف کرتی رہیں . بزرگ یاسر مُہر بہ لب،بے حس و حرکت، ساکت و جامد پڑے رہے ۔کچھ دیر بعد اسی کیفیت میں گزارنے کے بعد بس اتنا ہی کہہ سکے۔

فھو ذاک اِذن
فھو ذاک اِذن۔۔!!
تو یہ بات تھی۔۔تو یہ تھا معاملہ، وہ بھی جو رات کو خواب میں دیکھا،اور دن میں سُنا اور جو اب معلوم ہوا ۔ عمار یہ جملہ جسے یاسر بار بار دوہرا رہے تھے۔سُن کر بہت حیران ہوئے اور پوچھ بیٹھے، بابا یہ آپ کیا کہہ رہے ہیں۔۔؟؟
ماذا تقول یا اَبتِ؟!

( نابینا مصری ادیب،دانشور،نقاد اور ناول نگار اور دوہری پی ایچ ڈی کے حامل بیسیوں متنوع کتب کے مصنف ڈاکٹر طٰٰہ حسین کے عربی ناول "الوعد الحق" سے مأخوذ)
(جاری ہے)

Comments

Avatar photo

ڈاکٹر اعجاز فاروق اکرم

ڈاکٹر اعجاز فاروق اکرم سابق چیئرمین تعلیمی بورڈ فیصل آباد ہیں۔ ڈائریکٹر کالجز، گورنمنٹ کالج سمن آباد کے ریٹائرڈ پرنسل اور جی سی یونیورسٹی فیصل آباد کے سابق چیئرمین شعبہ عربی ہیں۔ ریڈیو پاکستان سے 30 سال کا تعلق ہے۔ بطور مقرر قومی پروگرام ۔۔حی علی الفلاح۔ سلسلہ "قر ان حکیم اور ہماری زندگی۔ نشری تقاریر پر مشتمل چھ کتب ''قول حسن، قول سدید، قول مبین، قول مجید، قول کریم اور قول حکیم شائع ہو چکی ہیں۔ دو کتب قول فصل اور قول کریم زیر ترتیب ہیں۔ ترکی جو میں نے دیکھا کے نام سے سفرنامہ شائع ہو چکا ہے۔ خود نوشت ''یادوں کا دریچہ'' زیرقلم ہے

Click here to post a comment