جتنا مجھ حقیر کا مطالعہ ہے .میں سمجھتا ہوں کہ نبی کریم بہت آسان دین دیکر دنیا سے رخصت ہوئے۔ انبیاء کا کام ایجادات کرنا نہیں ہوتا، وہ کچھ بنیادی چیزوں کی طرف لوگوں کی توجہ دلا کر دنیا سے چلے جاتے ہیں۔ دین میں تنوع اور پیچیدگیاں بعد کے انسان پیدا کرتے ہیں۔ انبیاء
جو دعوت لاتے ہیں ان میں انسانیت کی توحید کی طرف توجہ مبذول کروانا، قیامت کی خبر دینا اور تزکیہ نفس کی تعلیم دینا شامل ہوتا ہے۔
یہ انسانوں سے اس عہد و پیمان کو طلب کرتے ہیں جو اس نے روز الست خدا سے کیا ہوتا ہے۔ دوسرے لفظوں میں یہ توجہ دلاتے ہیں کہ اے انسان تیرا مقام بہت بلند ہے، تو کہاں ان مٹی اور ہاتھوں سے بنائے ہوئے دیوی دیوتاؤں کو پوجنے میں لگا ہے۔ تیرے ہر عمل کا ایک ریکارڈ مرتب ہوتا ہے، اسی بنیاد پر تجھ سے سوال وجواب کیا جائے گا۔
رسول اکرم کے پاس لوگ سوالات لیکر آتے تھے، آپ قران کی آیات پڑھ دیا کرتے تھے۔ ایک عربی بدو آیا اس نے ایمان کے حوالے سے کچھ سوال کیے۔ آپ نے صرف ایک آیت پڑھ دی: لَیْسَ الْبِرَّ اَنْ تُوَلُّوْا وُجُوْهَكُمْ قِبَلَ الْمَشْرِقِ وَ الْمَغْرِبِ وَ لٰـكِنَّ الْبِرَّ مَنْ اٰمَنَ بِاللّٰهِ وَ الْیَوْمِ الْاٰخِرِ وَ الْمَلٰٓىٕكَةِ وَ الْكِتٰبِ وَ النَّبِیّٖنَۚ-وَ اٰتَى الْمَالَ عَلٰى حُبِّهٖ ذَوِی الْقُرْبٰى وَ الْیَتٰمٰى وَ الْمَسٰكِیْنَ وَ ابْنَ السَّبِیْلِۙ-وَ السَّآىٕلِیْنَ وَ فِی الرِّقَابِۚ-وَ اَقَامَ الصَّلٰوةَ وَ اٰتَى الزَّكٰوةَۚ-وَ الْمُوْفُوْنَ بِعَهْدِهِمْ اِذَا عٰهَدُوْاۚ-وَ الصّٰبِرِیْنَ فِی الْبَاْسَآءِ وَ الضَّرَّآءِ وَ حِیْنَ الْبَاْسِؕ-اُولٰٓىٕكَ الَّذِیْنَ صَدَقُوْاؕ-وَ اُولٰٓىٕكَ هُمُ الْمُتَّقُوْنَ ( البقرہ آیت 177) اصل نیکی یہ نہیں کہ تم اپنے منہ مشرق یا مغرب کی طرف کرلو بلکہ اصلی نیک وہ ہے جو اللہ اور قیامت اور فرشتوں اور کتاب اور پیغمبروں پرایمان لائے اور اللہ کی محبت میں عزیز مال رشتہ داروں اور یتیموں اور مسکینوں اورمسافروں اور سائلوں کو اور (غلام لونڈیوں کی) گردنیں آزاد کرانے میں خرچ کرے اور نماز قائم رکھے اور زکوٰۃ دے اوروہ لوگ جو عہد کرکے اپنا عہد پورا کرنے والے ہیں اور مصیبت اور سختی میں اور جہاد کے وقت صبرکرنے والے ہیں ، یہی لوگ سچے ہیں اور یہی پرہیزگار ہیں۔
اس آیت کو غور سے دیکھیے، پورا دین اسی میں چھپا ہوا ہے۔
رسول اکرم سے سوال ہوا کہ اگر ہم ہر سال حج کریں کیا بہتر نہیں ہوگا؟ آپ ناراض ہوئے، آپ نے فرمایا کہ اگر میں کہہ دوں گا تو واجب ہوجائے گا۔
مسلمانوں کے ساتھ آپ نے حج کیا، پہلا حج تھا، لوگ پریشان ہوکر آپ کے پاس آتے تھے اور پوچھتے تھے کہ یا رسول اللہ ! ہمارے ساتھ طواف کرتے ہوئے فلاں مسئلہ ہوگیا، ہمارے ساتھ یہ پرابلم ہوگئی۔ آپ مسکرا کر بشارت دیتے تھے کہ تمہارا حج ہوگیا۔ یعنی کوئی گھبرانے والی بات نہیں ہے۔ آپ نے ساری زندگی کبھی درس قرآن نہیں دیا، کبھی اپنی باتوں کو لکھنے پر زور نہیں دیا، کبھی کوئی تفسیر قرآن نہیں لکھوائی۔ آپ قران پڑھتے تھے، پڑھاتے تھے، سنتے تھے، سناتے تھے۔
آپ ﷺ جانتے تھے کہ ارتقائی طور پر انسانیت آگے کی طرف بڑھے گی، عقل انسانی نئے نئے امکانات کی طرف جائے گی۔ قانون سازی ہوگی ، انسان آگے بڑھتا چلا جائے گا۔ لیکن تین باتیں اپنی جگہ موجود رہیں گی۔
ایک توحید
دوسرے تزکیہ نفس
تیسرے آخرت
ان میں کسی بھی صورت تبدیلی نہیں آئے گی۔
نماز کا ڈھانچہ بن گیا ہے، روزہ کا مہینہ مقرر ہوگیا ہے، حج کی جگہ بتا دی گئی ہے، زکوٰۃ کا حکم دے دیا ہے۔ ان میں بھی تبدیلیاں نہیں آئیں گی۔ مگر مریض، سفر ، حضر میں انسان فقہی حوالے سے تبدیلی کرے گا۔ یہ کوئی اچنبھے کی بات نہیں ہے
نبی کریم نے ایک عربی بدو قوم کو ایسا ٹرینڈ کیا کہ جنگ کے میدان میں ایک صحابی نے جو پیاسے تھے اور مرنے کے قریب تھے، انہوں نے اپنی پیاس بجھانے سے پہلے ایک اور زخمی صحابی کو خود پر ترجیح دی۔ ان زخمی صحابی نے دوسرے صحابی کو خود پر ترجیح دی۔ ایسا کوئی فلسفی کرسکتا ہے؟ کسی عقل والے اور بلند ترین سوچ کے حامل انسان کے اندر اتنا دم نہیں ہے کہ وہ ایسی قوم تیار کردے جس کے سامنے egoism ہیچ ہے۔
ایک مسلم فلسفی کے حوالے سے قصہ ملتا ہے کہ ان کا شاگرد اکثر ان سے کہتا تھا کہ آپ فی زمانہ اگر نبوت کا دعوی کریں تو لوگ ایمان لے آئیں گے۔ فلسفی صاحب مسکرا کر چپ ہوجاتے تھے ۔ ایک دفعہ یہ دونوں استاد شاگرد سفر میں تھے، راستے میں ایک مسجد میں ٹھہر گئے۔ سخت سردی تھی، فجر سے ذرا پہلے استاد نے شاگرد کو آواز دی کہ مجھے پانی پلا دو۔ شاگرد کمبل میں دبکا پڑا تھا۔ کمبل کے اندر سے کہنے لگا کہ اس وقت پانی پینا مضر صحت ہے، آپ کو پتا ہے کہ رات کا خالی معدہ ہے، اس وقت یخ پانی پیٹ میں انڈیلیں گے تو فلاں مسئلہ ہوسکتا ہے، ڈھماکا مسئلہ ہوسکتا ہے۔ فلسفی صاحب جو طبیب بھی تھے ، ہنس کر کہنے لگے کہ مجھے یہ سب باتیں معلوم ہیں۔ تم مجھے کہتے ہو کہ میں نبوت کا دعوی کروں تو لوگ ایمان لے آئیں گے؟ جبکہ مجھے سخت سردی میں پانی پلاتے ہوئے تمھاری جان نکل رہی ہے۔ تم بہانے بازی کررہے ہو۔
لیکن ابھی دیکھو گلدستہ اذان کی طرف کوئی بڑھ رہا ہے۔
وہ موذن تھا اور فورا ہی اذان کی آواز چہار دیواری میں گونجنے لگی۔
یہ انبیاء ہیں جن کا اثر لوگوں کے ذہنوں پر صدیوں قائم رہتا ہے.
ان کے نبوت کے دعویٰ کو کاپی کرتے ہوئے دوسرے لوگ بھی اپنی دکان سجا لیتے ہیں مگر ان جیسا کردار ، ان جیسی عقل و اخلاق پیدا نہیں کرپاتے۔
(جاری ہے)
تبصرہ لکھیے