ہوم << شان یکتائی: وہی اول وہی آخر - آصف رندھاوا

شان یکتائی: وہی اول وہی آخر - آصف رندھاوا

توحید کی تعریف
توحید عربی زبان کا لفظ ہے، جو "وحد" سے نکلا ہے، جس کے معنی ہیں "ایک ماننا"۔ اصطلاح میں توحید سے مراد اللہ تعالیٰ کو اس کی ذات، صفات، افعال، اور حقوق میں یکتا اور منفرد ماننا ہے۔ یہ عقیدہ اسلام کا بنیادی ستون ہے اور تمام اسلامی تعلیمات کی اساس ہے۔ اسلام میں توحید کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی ذات میں کوئی شریک نہیں، اس کی عبادت میں کوئی دوسرا مستحق نہیں، اور اس کی صفات کسی اور میں نہیں پائی جاتیں۔ قرآن و حدیث میں توحید کی بہت تاکید کی گئی ہے، اور اسی کے برعکس اگر کوئی اللہ کے ساتھ کسی کو شریک کرے تو وہ شرک کہلاتا ہے، جو سب سے بڑا گناہ ہے۔

توحید کی اہمیت
توحید کا تصور نہ صرف عقیدے کی بنیاد ہے بلکہ ایک مسلمان کی عملی زندگی پر بھی گہرا اثر ڈالتا ہے۔

اسلام کی بنیاد
تمام انبیاء علیہم السلام کی بعثت کا مقصد توحید کی دعوت دینا تھا . نبی اکرم ﷺ کی بعثت کا سب سے بڑا مقصد بھی لوگوں کو خالص توحید کی طرف بلانا تھا۔ کلمہ طیبہ "لَا إِلٰهَ إِلَّا اللَّهُ مُحَمَّدٌ رَّسُولُ اللَّهِ" کا پہلا جزو توحید کی بنیاد ہے۔

نجات کا ذریعہ
جو شخص سچے دل سے توحید کو قبول کرتا ہے، اس کے لیے جنت کی ضمانت ہے۔ نبی ﷺ نے فرمایا: "جس کا آخری کلام لَا إِلٰهَ إِلَّا اللَّهُ ہوگا، وہ جنت میں داخل ہوگا۔" (ابو داؤد)

3. شرک سے اجتناب کی ضرورت
اللہ تعالیٰ نے قرآن میں واضح فرمایا: بے شک اللہ اسے معاف نہیں کریں گے کہ اس کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہرایا جائے، اور اس کے سوا جو کچھ ہو، جس کے لیے چاہے گا معاف کر دے گا۔ (النساء: 48)

عبادات میں خلوص پیدا ہوتا ہے
جب انسان اللہ کو واحد معبود مان لیتا ہے تو اس کی عبادات صرف اللہ کے لیے خالص ہو جاتیں ہیں وہ ریاکاری، دکھاوا اور غیر اللہ کی عبادت سے اجتناب کرنے لگ جاتا ہے.

انسانی فطرت کے مطابق ہے
ہر انسان فطرتاً توحید پر پیدا ہوتا ہے، جیسا کہ نبی ﷺ نے فرمایا: ہر بچہ فطرت (توحید) پر پیدا ہوتا ہے، پھر اس کے والدین اسے یہودی، نصرانی یا مجوسی بنا دیتے ہیں۔ (بخاری، مسلم) اللہ تعالیٰ نے انسان کی فطرت میں توحید رکھ دی ہے، یہی وجہ ہے کہ جب کوئی شخص مشکل میں ہوتا ہے تو وہ فطری طور پر اللہ کو پکارتا ہے، چاہے وہ عام حالات میں دہریہ (ملحد) ہی کیوں نہ ہو۔ قرآن میں اس فطری توحید کا ذکر یوں کیا گیا ہے: پھر جب وہ کشتی میں سوار ہوتے ہیں تو اللہ کو پکارتے ہیں، اس کے لیے دین کو خالص کرتے ہوئے، پھر جب وہ انہیں خشکی تک پہنچا دیتا ہے تو وہ پھر شرک کرنے لگتے ہیں۔ (العنکبوت: 65). یہی وجہ ہے کہ جب کوئی شخص توحید کی معرفت حاصل کر لیتا ہے، تو اس کا دل مطمئن ہو جاتا ہے، اور وہ ہر خوف و وسوسے سے آزاد ہو جاتا ہے۔

توحید کی وضاحت اور تفہیم کے لیے علمائے کرام نے اسے تین بنیادی اقسام میں تقسیم کیا ہے:
1. توحید الربوبیہ (اللہ کی ربوبیت)
2. توحید الألوہیہ (عبادت میں وحدانیت)
3. توحید الاسماء والصفات (اللہ کے ناموں اور صفات میں یکتائی)

یہ تقسیم محض وضاحت کے لیے ہے، ورنہ اللہ کی توحید ایک ہی حقیقت ہے، جسے مختلف پہلوؤں سے سمجھا جاتا ہے۔

توحید الربوبیہ (اللہ کی ربوبیت)
توحید الربوبیہ کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ہی ہر چیز کا خالق، مالک اور مدبر ہے۔ وہی کائنات کو وجود میں لانے والا، چلانے والا، اور ہر چیز پر مکمل قدرت رکھنے والا ہے۔

قرآن و حدیث میں ثبوت:
1. قرآن میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: اللہ ہر چیز کا خالق ہے اور وہی ہر چیز کا نگران ہے۔ (الزمر: 62)
2. ایک اور آیت میں فرمایا: سنو! پیدا کرنا اور حکم دینا اللہ ہی کے لیے ہے۔ (الأعراف: 54)
3. نبی کریم ﷺ نے فرمایا: سب سے بڑا گناہ یہ ہے کہ تم اللہ کے ساتھ کسی کو شریک کرو، حالانکہ وہی تمہیں پیدا کرنے والا ہے۔ (بخاری، مسلم)

ربوبیت میں اللہ کی یکتائی کا مفہوم:
صرف اللہ ہی پیدا کرنے والا (خالق) ہے۔ وہی رزق دینے والا (رازق) ہے۔ وہی زندگی اور موت دینے والا ہے۔ وہی بارش برسانے، زمین و آسمان کو چلانے، اور ہر چیز کا نظام بنانے والا ہے۔

کفار بھی ربوبیت کو تسلیم کرتے تھے
عرب کے مشرکین بھی یہ مانتے تھے کہ اللہ ہی خالق و مالک ہے، مگر پھر بھی شرک کرتے تھے، جیسا کہ قرآن میں ذکر ہے: اور اگر تم ان سے پوچھو کہ انہیں کس نے پیدا کیا ہے، تو وہ ضرور کہیں گے: اللہ۔ پھر وہ کہاں بہکائے جا رہے ہیں؟ (الزخرف: 87)

شرک فی الربوبیہ کیا ہے؟
ربوبیت میں شرک یہ ہے کہ کسی اور کو اللہ کی تخلیق، ملکیت، یا قدرت میں شریک مان لیا جائے۔ جیسے یہ عقیدہ رکھنا کہ کائنات کسی اور نے پیدا کی ہے۔ کسی نبی، ولی یا بزرگ کو یہ سمجھنا کہ وہ خود کسی کو نفع یا نقصان پہنچا سکتا ہے۔ جادوگروں اور نجومیوں کے بارے میں یہ ماننا کہ وہ علم غیب رکھتے ہیں یا کسی کی تقدیر بدل سکتے ہیں۔ اگرچہ مشرکین ربوبیت کو مانتے تھے، لیکن وہ اللہ کے ساتھ دوسروں کو بھی شریک ٹھہراتے تھے۔ حقیقی توحید یہ ہے کہ اللہ کی ربوبیت پر مکمل ایمان رکھا جائے اور اسے کسی کے ساتھ شریک نہ کیا جائے۔

--- توحید الألوہیہ (عبادت میں وحدانیت)
توحید الألوہیہ کا مطلب یہ ہے کہ عبادت صرف اور صرف اللہ کے لیے مخصوص ہو، کسی اور کو عبادت کا حق نہ دیا جائے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: اور میں نے جنوں اور انسانوں کو صرف اپنی عبادت کے لیے پیدا کیا ہے۔ (الذاریات: 56) ایک اور آیت میں فرمایا: بے شک میں ہی اللہ ہوں، میرے سوا کوئی معبود نہیں، پس میری عبادت کرو اور میری یاد کے لیے نماز قائم کرو۔ (طہٰ: 14) نبی کریم ﷺ نے فرمایا: جس نے لا الہ الا اللہ کہا اور شرک سے بچا، وہ جنت میں داخل ہوگا۔ (مسلم)

عبادت میں اللہ کی یکتائی کا مفہوم:
صرف اللہ کے لیے نماز، روزہ، زکوٰۃ اور حج ادا کرنا۔ صرف اللہ سے دعا مانگنا اور اسی پر بھروسہ کرنا۔ کسی ولی، نبی، یا بزرگ کی عبادت نہ کرنا۔ غیر اللہ کے نام پر نذر و نیاز نہ دینا۔ کسی اور کے نام پر سجدہ یا رکوع نہ کرنا۔

شرک فی الألوہیہ کیا ہے؟
عبادت میں شرک یہ ہے کہ اللہ کے ساتھ کسی اور کی عبادت کی جائے، جیسے قبروں پر سجدہ کرنا۔ کسی ولی، پیر یا بزرگ کو حاجت روا اور مشکل کشا سمجھنا۔ تعویذ، گنڈے اور جادو پر یقین رکھنا۔ غیر اللہ کے نام پر جانور ذبح کرنا۔ اللہ تعالیٰ صرف اسی عبادت کو قبول کرتے ہیں جو خالص اسی کے لیے ہو۔ اگر کوئی شخص اللہ کے ساتھ کسی اور کو بھی عبادت میں شریک کرتا ہے، تو وہ توحید الألوہیہ سے انحراف کر رہا ہے۔

---توحید الاسماء والصفات (اللہ کے ناموں اور صفات میں یکتائی)
توحید الاسماء والصفات کا مطلب یہ ہے کہ اللہ کے تمام نام اور صفات منفرد اور بے مثال ہیں، نہ کوئی ان جیسا ہے، نہ کوئی ان میں شریک ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: اور اللہ ہی کے لیے اچھے نام ہیں، پس انہیں لے کر پکارو۔ (الاعراف: 180) ایک اور آیت میں فرمایا: اس جیسی کوئی چیز نہیں، اور وہ سننے والا، دیکھنے والا ہے۔ (الشوریٰ: 11)

صفات میں اللہ کی یکتائی کا مفہوم:
اللہ کے تمام نام اور صفات بے مثال اور منفرد ہیں۔ ان صفات کو کسی مخلوق پر لاگو نہیں کیا جا سکتا۔ کسی انسان کو "عالم الغیب"، "رحمٰن"، یا "رازق" نہیں کہا جا سکتا۔ اللہ تعالیٰ کی صفات میں کسی کو شریک کرنا شرک ہے۔ ہمیں چاہیے کہ اللہ کے ناموں اور صفات کو ویسے ہی مانیں جیسے قرآن و حدیث میں آئے ہیں، بغیر کسی تحریف، تعطیل، تشبیہ یا تکییف کے۔