بچوں کی تربیت ماں باپ کے علاوہ ماحول، سوشل میڈیا، سکول اور دوست بھی کر رہے ہوتے ہیں، اس لیے والدین کو بہت محتاط رہنا چاہیے۔
سب سے پہلے تو بچوں کو سکھایا جائے کہ دوستوں کہ ساتھ عزت سے پیش آئیں، کھیلیں، اچھا وقت بیتائیں، مگر آنکھیں بند کر کے اعتماد نہ کریں بلکہ اپنی عقل اور سمجھ بوجھ کا استعمال ضرور کریں۔ اس کے لئے میں بچوں کو بتاتی رہتی ہوں کہ "use your brain"-
بچوں کو پر اعتماد بنائیں کہ وہ والدین سے اپنی تمام باتیں کھل کر بیان کریں، اس طرح کی بات چیت سے ایک تو والدین اور بچوں کا آپس کا تعلق مظبوط ہوتا ہے اور دوسرا، بچے اپنی پریشانی کھل کر والدین کے سامنے بیان کر سکتے ہیں۔
والدین کو اکثر و بیشتر بچوں کے سلسلے میں نئے مسائل درپیش رہتے ہیں، ان میں ایک اہم مسئلہ دوستوں کی گھر رات کو قیام کرنا یا sleep over بھی ہے۔ والدین ساتھ ہوں تو کسی بھی رشتہ دار یا عزیز کی گھر رات کو قیام کیا جا سکتا ہے مگر اکیلے قیام کرنے کی منطق عجیب ہے۔ بچوں کا ہم عمر یا ہم جماعت بچوں سے ملنا جُلنا، بات چیت کرنا، کھیلنا اور پڑھنا ضروری ہے مگر اس کے لئے رات کا قیام کسی بھی طریقے سے مناسب نہیں۔ فتنوں کے اس دور میں جہاں بچوں کو قدم قدم پہ والدین کی رہنمائی اور حفاظت کی ضرورت ہے، وہاں ایسی سرگرمی خطرے سے خالی نہیں۔ بچوں کی حفاظت والدین کی اوّلین ذمہ داری ہے۔ بچوں اور ان کے دوستوں کو اپنی موجودگی میں پارک، گھر، لائبریری، یا شاپنگ جہاں چاہے لے جائیں، مگر رات کا قیام مناسب نہیں۔
اگر بچے دوسروں کی دیکھا دیکھی اپنے دوستوں یا کزنز کے ہاں رات کے قیام کی ضد کریں تو انھیں دلیل سے قائل کریں اور اپنے تحفظات اور متوقع خطرات سے آگاہ کریں۔ دوسرے بچے کے گھر کے افراد میں کوئی منفی سوچ کا فرد ہو سکتا ہے، یا ان کے گھر کا ماحول، رہن سہن بھی مختلف ہو سکتا ہے۔ اور یہ بھی ممکن ہے کہ بچوں کے دوست سوشل میڈیا کا استعمال بلا روک ٹوک یا بنا پیرنٹل کنڑول کے کرتے ہوں۔ مغربی ممالک سے آئے اکثر فتنے بنا سوچے سمجھے اپنائے جا رہے ہیں۔ بہت سے علماء اس امر کی مخالفت کرتے ہیں کہ بچے والدین کی غیر موجودگی میں کہیں رات بسر کریں۔ حدیث میں آتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”اپنے بچوں کو جب وہ سات سال کے ہو جائیں تو نماز کا حکم دو اور جب دس سال کے ہو جائیں (اور نہ پڑھیں) تو انھیں اس پر مارو اور ان کے بستر جدا جدا کر دو۔“(سنن ابو داؤد: 495)
دین اسلام میں دس سال کی عمر کو پہنچنے پہ ازراہِ احتیاط اور حیا کی پاسداری کے لئے بچوں کے بستر الگ کردینے کا حکم ہے تو یہ کیونکر ممکن ہے کہ بچوں کا کسی عزیز یا دوست کے گھر رات کو قیام کرنا کسی قسم کے فتنے یا خطرے سے خالی ہو گا۔ اللہ کریم تمام بچوں کی حفاظت فرمائے۔ آمین
تبصرہ لکھیے