ایک ڈاکٹر صاحب کی فیس بک پوسٹ کے مطابق سرل Searle فارماسیوٹیکل کمپنی کی جانب سے تقریبا 35 سے 40 ڈاکٹروں کو مدینہ شریف لے جایا گیا، جہاں ان معزز طبیب حضرات کے لیے کمپنی نے Continued Medical Education (CME) کا انعقاد کر رکھا تھا.
سرل فارماسوٹیکل کمپنی نے معزز ڈاکٹر حضرات کے ٹریول اور رہائش کے تمام انتظامات کر رکھے تھے اور اس سیشن کے بعد معزز ڈاکٹر حضرات کو مکہ مکرمہ بھی لے جایا گیا، جہاں انہوں نے "طبی و ادویاتی عمرہ شریف" کرنے کا شرف حاصل کیا۔ ان تمام ڈاکٹر حضرات کی عمرہ کرتے ہوئے اور مسجد نبوی شریف میں دعائیں اور عبادات کرتے ہوئے تصاویر سوشل میڈیا پر موجود ہیں۔
بس آپ لوگوں کو یہ بتانا مقصود ہے کہ اگر دل کی بیماری یا بلڈ پریشر کے حوالے سے کوئی ڈاکٹر صاحب آپ کو سرل فارماسیوٹیکل کمپنی کی دوا لکھیں تو اسے ضرور خریدیے گا کیونکہ اس کمپنی نے ڈاکٹروں کو 'لہو و لعب' میں مبتلا کرنے کے بجائے انہیں عبادات کی طرف راغب کیا ہے۔
برسبیل تذکرہ، چند روز قبل ایک کولیگ نے ایک اینٹی بائیوٹک انجیکشن کے لیے مدد کی درخواست کی، کہنے لگے بیٹے کو ڈاکٹر نے یہ انجیکشن لگوانے کا کہا ہے۔ انجیکشن جس فارماسوٹیکل کمپنی کا تھا میں نے کبھی اس کا نام ہی نہیں سنا تھا۔ میں نے اسلام آباد کے اکثر بڑے اور چھوٹے میڈیکل اسٹورز چھان مارے لیکن وہ انجیکشن کہیں دستیاب نہیں تھا۔
تھوڑی سی تحقیق کی تو پتہ چلا کہ وہ انجیکشن صرف ڈاکٹر صاحب کے کلینک کے سامنے والے میڈیکل اسٹور پر ہی دستیاب ہوتا ہے۔ لیکن چونکہ ہمارے کولیگ کی بیگم صاحبہ اپنے بچے کی صحت کے لیے کافی پریشان تھیں، اور ان کا خیال تھا کہ چونکہ ڈاکٹر نے وہ خاص انجیکشن لکھ کر دیا ہے، اس لیے بچے کو اس غیر معروف کمپنی کی اینٹی بائوٹک دوا کا انجیکشن لگوانا ہی صحت یابی کی ضمانت ہے۔
اب انہیں کیا معلوم کہ ہو سکتا ہے ان ڈاکٹر صاحب نے بھی اس غیر معروف کمپنی کے خرچے پر حج یا عمرہ شریف، یا کوئی اور مقدس مقامات کی زیارات کر رکھی ہوں؟
میں کوئی عالم یا مفتی نہیں اس لیے مجھے نہیں پتہ کہ فارماسیوٹیکل کمپنی کے خرچے پر کیے جانے والے حج یا عمر کی شرعی حیثیت کیا ہے؟ لیکن چند روز قبل جب ایک ڈاکٹر صاحب عمرہ شریف کر کے واپس آئے، اور شاید وہ عمرہ بھی فارماسیوٹیکل کمپنی اسپانسرڈ تھا، تو مجھے کہنے لگے کہ آپ نے مجھے مبارکباد نہیں دی۔ میں نے عرض کیا ڈاکٹر صاحب میرا خیال ہے کہ اس عمرے کے بجائے اگر وہ پیسے فلسطینی مجاہدین کی اعانت پر خرچ کر دیے جاتے تو زیادہ بہتر ہوتا تو ناراض ہو گئے۔ فرمانے لگے "حرمین وہی جاتا ہے جسے بلایا جاتا ہے."
اس پر مجھے مولانا اسحاق مدنی رحمت اللہ علیہ مرحوم کا ایک ویڈیو کلپ یاد آگیا جس میں وہ فرماتے ہیں کہ ان لوگوں نے بلاوے کی کہانیاں بنا رکھی ہیں، اگر وہاں جانا صرف بلاوے پر منحصر ہوتا تو ابوجہل تو رہتا ہی حرم کے اندر تھا۔
بہرحال یہاں بحث حج اور عمرہ کرنے کی نہیں بلکہ فارماسوٹیکل کمپنیوں کی جانب سے اسپانسرڈ عبادات کی ہو رہی ہے۔ پاکستان میں فارماسوٹیکل کمپنیوں کی جانب سے ڈاکٹروں کو نوازنے اور اس کے بدلے اپنی دوائیاں لکھوانے کا سلسلہ دراز ہوتا جا رہا ہے، بدقسمتی سے نہ ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی آف پاکستان اور نہ ہی پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل اس حوالے سے کوئی کردار ادا کرنے کو تیار ہیں۔
ویسے ان حرکتوں کا نوٹس وفاقی اور صوبائی ہیلتھ کیئر کمیشنز اور اتھارٹی بھی لے سکتے ہیں لیکن ان اداروں کو وفاقی اور صوبائی حکومتوں نے فتح کر رکھا ہے اور وہاں پر اپنے puppet یعنی کٹھ پتلی اہلکار بٹھا رکھے ہیں جو صرف پرائیویٹ اسپتالوں اور عطائیوں سے منتھلیاں وصول کرکے اپنی روزی روٹی حلال کر رہے ہیں۔
ایک عام شخص کے لیے یہ فیصلہ کرنا نہایت ہی دشوار ہے کہ ڈاکٹر صاحب نے نسخے میں جو ادویات لکھی ہیں کیا وہ واقعی مریض کو درکار ہیں یا نہیں، اس لیے 99 فیصد مریض ڈاکٹری نسخے پر ادویات خریدنے کی کوشش کرتے ہیں یہ جانے اور سوچے بغیر کے ہو سکتا ہے اس نسخے کی بدولت ڈاکٹر صاحب اپنی دنیا کے ساتھ اخرت بھی سنوارنے کی کوشش کر رہے ہوں۔
تبصرہ لکھیے