ہوم << لسانی قوم پرست اور الحاد- ڈاکٹر حسیب احمد خان

لسانی قوم پرست اور الحاد- ڈاکٹر حسیب احمد خان

گزشتہ پندرہ سال سے رد الحاد کی محنت سے منسلک ہوں اور اس میدان کو مختلف زاویوں سے دیکھنے کا موقع ملا ہے اپنی بنیاد میں الحاد و دہریت کے دو دائرے ہیں ایک بڑا دائرہ ہے کہ جو تہذیبی سطح پر ہے اور دوسرا چھوٹا دائرہ ہے جو پہلے دائرے سے منسلک ہے اس دائرے میں مذہب اور خدا کے وجود پر الحادی اعتراضات کا سامنا ہوتا ہے گو کہ ہمارے معاشرے میں زیادہ شور اسی کا ہے لیکن اگر مغربیت کا فسوں توڑ دیا جائے تو معروف الحادی اعتراضات کی بھی کوئی وقعت باقی نہیں رہتی۔

مغربیت اپنی ذات میں کیا ہے، یہ ایک طویل موضوع ہے اور اس کے اپنے بہت سے ضمنی دائرے ہیں بظاہر موجودہ عالمگیری دنیا میں یہی ایک چلتا ہوا نظام ہے اور اس سے چھٹکارا حاصل کرنا ممکن دکھائی نہیں دیتا بلکہ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ مستقبل میں مغربیت ہی دجالیت کی شکل اختیار کرلے گی یا آج ہی کرچکی ہے۔

لیکن آج ہماری گفتگو ایک خاص عنوان سے متعلق ہے اور وہ عنوان ہے " لسانی قوم پرست اور الحاد " میں نے یہ عنوان کیوں چنا ؟

دراصل الحاد کے خلاف کام کرتے ہوئے ایک عجیب ادراک مجھ پر یہ ہوا کہ پاکستانی ملحدوں کی اکثریت لسانی قوم پرستوں کی ہے مزید تحقیق اور مطالعے سے معلوم ہوا کہ یہ کوئی نئی بات نہیں ہے ماضی قریب میں یہ لسانی قوم پرست اشتراکیت کے سائے میں اپنے الحادی افکار کے ساتھ ابھرے ان کے اندر کی لسانی عصبیت نے انہیں ایک طویل عرصہ اشتراکی یا کمیونسٹ الحاد کے سحر میں مبتلاء رکھا اور یہ اسی بنیاد پر پاکستانی معاشرے اور نظام کو تبدیل کرنے کے خواہاں تھے ، حیران کن معاملہ یہ ہوا کہ اشتراکی الحاد کے مقابل اسلامی اشتراکیت یا اسلامک سوشلزم کی آواز بلند ہوئی اور اشتراکیت اپنی بنیادوں میں دب کر رہ گئی دوسری جانب اسلامی سوشلزم کا تصور بھی معاشرے میں کوئی خاص جڑ نہ پکڑ سکا۔

بعد ازاں لسانی قوم پرستوں نے جدید لبرل سیکولرزم کا پردہ اوڑھ لیا لسانی قوم پرستوں کا یہ الحاد ہمیں کراچی کے ساحل سے بلوچستان کی آخری حدوں تک سندھ کے ریگستانوں سے پنجاب کے کھیت کھلیانوں تک اور سرحد کے انچے پہاڑوں کی چوٹیوں تک پھیلا ہوا دکھائی دیتا ہے۔ آخر ایسا کیوں ہے کہ لسانی قوم پرست ہر رنگ ہر نسل اور ہر زبان کے پردے میں مذہب کے مقابل نبرد آزام ہیں ؟

سب سے پہلے تو یہ سمجھ لیجیے کہ قوم پرستی دو طرح کی ہے۔
اول وطنی قوم پرستی
دوم لسانی قوم پرستی
وطنی قوم پرستی کی بابت علامہ اقبالؒ نے فرمایا تھا

اس دور ميں مے اور ہے ، جام اور ہے جم اور
ساقي نے بنا کي روش لطف و ستم اور

مسلم نے بھي تعمير کيا اپنا حرم اور
تہذيب کے آزر نے ترشوائے صنم اور

ان تازہ خداؤں ميں بڑا سب سے وطن ہے
جو پيرہن اس کا ہے ، وہ مذہب کا کفن ہے

بانگ درا

جدید سیکولر ریاست نے چونکہ مذہب کا لبادہ اتار پھینکا تھا اور عوام کو کسی ایک نظریے یا فکر پر جمع کرنے کیلئے ان کے پاس ایسی کوئی عصبیت موجود نہیں تھی کہ جو افراد کے ایک بڑے مجموعے کو جوڑ سکے۔ یاد رہے کہ عوام انسانی تاریخ میں دو ہی بنیادوں پر اکھٹے ہوا کرتے ہیں
اول مذہب
دوم لسانیت یا قبائلیت

انسانی فطرت اس بات کا تقاضا کرتی ہے کہ اسے جڑنے کے لیے کسی عصبیت کا سہارا ملے، اس کے بغیر انسانوں کا کوئی مجموعہ اکھٹا نہیں ہو سکتا۔ جدید ریاست چونکہ لسانی یا مذہبی ہر دو طرح کی عصبیت سے دوری کی مدعی تھی، اس لیے اس نے وطنی قومیت یا قومی عصبیت کا تصور ایجاد کیا تاکہ اس کی بنیاد پر ایک پرفیکٹ سیکولر ریاست تخلیق کی جا سکے۔ مغرب میں سیکولر نیشنلزم کا تجربہ انتہائی کامیاب رہا اور جدید مغرب بحیثیت مجموعی ایک سیکولر ریاست تخلیق کرنے میں کامیاب ہوگیا لیکن مشرق میں یہ تجربہ کامیاب نہ ہو سکتا ہمارے یہاں نیم مذہبی اور نیم وطنی ریاستیں وجود میں آئیں کہ جو نہ تو اپنی ذات میں مکمل سیکولر تھیں نہ ہی مذہبی تھیں اور نہ ہی وہ وطن پرست تھیں۔

ایسی کیفیت میں عوامی سطح پر دو طرح کی عصبیت فطری طور پر ابھر کر سامنے آئی ایک لسانی عصبیت اور دوسری مذہبی عصبیت۔ پاکستان کی سطح پر بھی یہ دو عصبیتیں مقابل دکھائی دیتی ہیں ہیں گو کہ پاکستان کے مذبی بحیثیت مجموعی وطن پرست ہیں جبکہ پاکستان کے لسانی بحیثیت مجموعی وطن گریز ہیں۔لسانی قوم پرستوں کا الحاد کی جانب متوجہ ہونا ایک بدیہی امر تھا کیونکہ مذہب کی حقیقی تعلیمات میں لسانیت پرستی کی کوئی گنجائش موجود نہیں بلکہ مذہب نے باقاعدہ طور پر لسانیت پرستی کو رد کیا ہے اور یہ بات اتنی صاف اور واضح ہے کہ جس پر دینی مصادر سے کوئی حوالہ دینے کی ضرورت بھی نہیں۔ اب ایک لسانی قوم پرست اپنی سیاسی تحریک تو لسانی عصبیت کی بنیاد پر چلا لے گا لیکن اس کے ساتھ ساتھ وہ مذہب کو کیسے چلا پائے گا ، یہ تو ممکن ہے کہ وہ مذہب کی کسی ثقافتی تعبیر کی پیروی کرے لیکن یہ کیسے ممکن ہو گا کہ وہ مذہب کو بطور تہذیب اور تصور حیات اپنائے اسی لیے لسانی قوم پرستوں کے اندر مذہب کے خلاف ایک شدید تعصب پیدا ہوا۔

جیساکہ مضمون کی ابتداء میں عرض کی ، پہلے کے لسانی قوم پرست اشتراکیت سے متاثر تھے لیکن اب یہ معاملہ تبدیل ہو چکا ہے۔
ایک لسانی قوم پرست کیا کچھ ہوگا ؟
ایک لسانی قوم پرست معاشرتی سطح پر لبرل ہوگا۔
ایک لسانی قوم پرست صنفی افکار میں فیمینسٹ ہوگا۔
ایک لسانی قوم پرست اعتقادی دائرے میں ہیومنسٹ ہوگا۔
ایک لسانی قوم پرست سیاسی دائرے میں سیکولر ہوگا۔

اب جب یہ چار ازم اس کے اندر سرائیت کر جائیں گے تو لامحالہ وہ آخری درجے میں مذہب کی مابعد الطبیعیاتی تعبیرات سے دور جا پڑے گا یعنی ایمانیات سے دور جا پڑے گا اور ایک مکمل دہریہ یعنی اتھیسٹ بن کر ابھرے گا۔

عصبیت ایک بنیادی انسانی وصف ہے اس بات کا انکار نہیں کیا جا سکتا کہ انسانی تعلقات میں ایک بنیادی کردار عصبیت کا بھی ہے ابن خلدون اسے نظرية العصبية کے نام سے موسوم کرتے ہیں جس پر ہم اگلی اقساط میں تفصیل سے روشنی ڈالیں گے۔
عصبیت کی ایک قسم تو وہ ہے کہ جس کی حدیث میں شدت سے ممانعت ہے: " ليس منا من دعا إلى عصبية، وليس منا من قاتل على عصبية، وليس منا من مات على عصبية". ”وہ شخص ہم میں سے نہیں جو کسی عصبیت کی طرف بلائے، وہ شخص بھی ہم میں سے نہیں جو عصبیت کی بنیاد پر لڑائی لڑے، اور وہ شخص بھی ہم میں سے نہیں جو تعصب کا تصور لیے ہوئے مرے“۔

لیکن عصبیت کا ایک جوہر وہ ہے کہ جو فطری طور پر انسان کے اندر موجود ہے مثال کے طور پر ایک جگہ فرمایا: المسلم اخو المسلم "مسلمان دوسرے مسلمان کا بھائی ہے، نہ اس پر ظلم کرتا ہے، نہ اسے (ظالموں کے) سپرد کرتا ہے۔
اسی طرح ایک اور اصولی نکتہ ہے اَلْکُفْرُ مِلَّۃٌ وَّاحِدۃٌ‘ یعنی کفار ایک قوم ہیں جس کی تائید اس آیت قرآنی سے ہوتی ہے: [arabic]يَآ اَيُّـهَا الَّـذِيْنَ اٰمَنُـوْا لَا تَتَّخِذُوا الْيَـهُوْدَ وَالنَّصَارٰٓى اَوْلِيَآءَ ۘ بَعْضُهُـمْ اَوْلِيَآءُ بَعْضٍ ۚ وَمَنْ يَّتَوَلَّـهُـمْ مِّنْكُمْ فَاِنَّهٝ مِنْـهُـمْ ۗ اِنَّ اللّـٰهَ لَا يَـهْدِى الْقَوْمَ الظَّالِمِيْنَ (51) اے ایمان والو! یہود اور نصاریٰ کو دوست نہ بناؤ وہ آپس میں ایک دوسرے کے دوست ہیں، اور جو کوئی تم میں سے ان کے ساتھ دوستی کرے تو وہ انہیں سے ہے، اللہ ظالموں کو ہدایت نہیں کرتا۔

یہی بات نیورو سائنس بھی کرتی ہے. بطور حوالہ tribalism refers to humans forming social groups and identifying with them, driven by shared identity, values, and goals. The neuroscience of tribalism investigates the neural mechanisms underlying our social behavior. Jay Van Bavel's research has revealed that perceiving others as part of our group activates the brain's reward system, fostering loyalty and preference. Tania Singer's research has demonstrated that perceiving others as part of our group activates the brain's empathy circuit, promoting compassion and cooperation. These findings highlight how our brains naturally seek social connections, contributing to tribalism (Van Bavel et al., Science; Singer et al., Proceedings of the National Academy of Sciences).
ایک اور ریسرچ کے مطابق: The Evolutionary Roots of Tribalism
Our tribal nature can be traced back to the early days of human existence. For over 150,000 years, humans lived in small, close-knit groups. Survival in such environments requires strong social cohesion, trust, and cooperation within the group. Those who were more loyal to their tribe and more suspicious of outsiders had a better chance of surviving and passing their genes to the next generation. As a result, tribalism became ingrained in our DNA, manifesting today in our tendency to form bonds with those who share our values, beliefs, and backgrounds.
یعنی عصبیت کسی نہ کسی درجے میں اپنی ایک نفسیاتی اور ارتقائی شکل رکھتی ہے اور اس سے یکسر انکار ایک غیر عقلی معاملہ ہے۔
اس بنیادی نکتے کو سمجھنے کے بعد ہم اس تقسیم کو سمجھتے ہیں کہ جو عصبیت کی بنیاد ہوا کرتی ہے۔
انسانی دنیا میں عصبیت کی دو بنیادی اقسام ہیں
اول مذہبی عصبیت
دوم لامذہبی عصبیت
مذبی عصبیت کی بنیاد بہت صاف اور واضح ہے یہ وہ عصبیت ہے کہ جو اعتقادی بنیادوں پر کسی ایک مذہب کے ماننے والوں کو جوڑتی ہے۔

لامذہبی عصبیت کی مزید اقسام ہیں۔
اول خاندانی عصبیت : یہ عصبیت کی بہت ابتدائی سادہ اور واضح قسم ہے کہ جس کی بنیاد خونی رشتوں پر وجود میں آتی ہے انسانی زندگی میں سب سے مضبوط عصبیت یہی ہوتی ہے جس کی وجہ سے وہ بعض اوقات ظلم پر بھی آمادہ ہو جاتا ہے اسی جانب قرآن کریم نے اس آیت میں اشارہ کیا ہے: وَ اعْلَمُوْۤا اَنَّمَاۤ اَمْوَالُكُمْ وَ اَوْلَادُكُمْ فِتْنَةٌۙ ''اور جان لوکہ تمہارے مال اور تمہاری اولادایک فتنہ ہے۔''
دوم قبائلی عصبیت : عصبیت کی یہ قسم خاندانی عصبیت سے کچھ کم لیکن اسی کی طرح شدید ہوتی ہے اور اکثر انسان کو ظلم پر ابھارتی ہے۔
سوم لسانی عصبیت : عصبیت کی یہ قسم خاندانی اور قبائلی عصبیت سے کچھ کم شدید ہوتی ہے اس عصبیت میں بہت سے خاندان اور قبیلے سما سکتے ہیں بس زبان کا یکساں ہونا ضروری ہے۔
چہارم وطنی عصبیت : وطنی عصبیت ایک غیر حقیقی اور بناوٹی عصبیت ہے اسلیے سب سے کمزور یہی ہوا کرتی ہے اس کیلیے ایک دکھاوے کا وطنی تعلق قائم کیا جاتا ہے کہ جس کی کوئی لسانی ، خاندانی ، علاقائی یا نظریاتی بنیاد نہیں ہوتی خاص کر جدید نیشنلزم کے تناظر میں اسی لیے عصبیت کی یہ قسم سب سے کمزور ہے۔
پنجم گروہی عصبیت : عصبیت کی یہ قسم طبقاتی بھی ہو سکتی ہے اور پیشہ ورانہ بھی ہو سکتی ہے کسی ایک شعبے یا ایک طبقے سے منسلک لوگوں میں یہ پیدا ہو جاتی ہے اس کا تعلق مشترکہ مفادات سے ہوتا ہے۔
ششم نظریاتی عصبیت : غیر مذہبی عصبیت میں ایک قسم نظریاتی عصبیت کی ہوتی ہے اور مذہبی عصبیت کی طرح یہ بہت مضبوط ہو سکتی ہے یہ عصبیت نظریاتی بنیادوں پر یکساں فکر رکھنے والے افراد کے درمیان پیدا ہوتی ہے اور اکثر اوقات کی سیاسی شکلیں بھی سامنے آتی ہیں جیسے کمیونزم وغیرہ۔

لامذہبی عصبیت اور دور جدید
دور جدید میں لامذہبی عصبیت علاقائی ، خاندانی ، قبائلی ، گروہی ہر ہر انداز کی ہو سکتی ہے ہاں اس کے اندر نظریاتی بنیادیں اسلیے پیدا کی جاتی ہیں تاکہ لوگوں کی فکری دائرے میں کچھ مضبوط بنیادیں فراہم کی کا سکیں اسی لیے لامذہبی عصبیت اکثر سیکولرزم سے ہوتی ہوئی الحاد و دہریت پر ختم ہوتی ہے۔

قوم پرستی کوئی فکری یا اعتقادی پوزیشن نہیں عصبیت انسان کا ایک فطری وصف ضرور ہے لیکن اس کی بھی کوئی نظریاتی یا اعتقادی بنیادیں نہیں ہیں اب چاہے وہ لسانی عصبیت ہو ، علاقائی عصبیت ہو ، قبائلی عصبیت ہو یا پھر خاندانی عصبیت ہو یہ تصورات اپنے بل بوتے پر ایک خاص حد تک ہی زندہ رہ سکتے ہیں کیونکہ ان کی زندگی بھی علاقائی اور مخصوص ادوار سے منسلک ہوتی ہے۔

عصبیت کا جذبہ انسانی بھی ہے اور حیوانی بھی ہے اب جب کسی انسان کے اندر عصبیت پیدا ہوتی ہے تو وہ اس کا کوئی نہ کوئی اخلاقی جواز تلاش کرتا ہے یہ انسانی فکر اور شعور کی مجبوری ہے کہ کسی بھی دائرے میں جب وہ متحرک ہو تو اس کا کوئی اخلاقی اور نظریاتی جواز تلاش کرے یہی معاملہ لسانی قوم پرستوں کا بھی ہے ان کے پاس کوئی فکری ، نظریاتی ، اخلاقی یا اعتقادی جواز موجود نہیں ہوتا۔

اپنے نظریاتی وجود کو برقرار رکھنے کیلیے ایک لسانی قوم پرست اس بات کو ضروری سمجھتا ہے کہ وہ مذہب سے دوری اختیار کرے یا پھر مذہب کا انکار کرے اس کے بغیر وہ اپنی فکر پر عمل پیرا نہیں ہو سکتا کیونکہ بہرحال مذہب اس سے ایک مخصوص مذہبی عصبیت کا مطالبہ کرے گا اور مذہبی اور لسانی یا قومی عصبیت ایک ساتھ جمع نہیں ہو سکتیں یا تو ایک شخص اپنی قوم ، اپنے قبیلے اور اپنے طبقے سے جڑا ہوگا یا پھر وہ مذہب سے جڑا ہوگا ایک وقت میں اس کے قلب میں ایک ہی عصبیت سما سکتی ہے۔

اب جب ایک لسانی قوم پرست مذہب سے چھٹکارا حاصل کرتا ہے تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ وہ کس طرف جائے گا تو وہ ایسے نظریات تلاش کرتا ہے کہ جو اس کی قوم پرستی کے ساتھ چل سکیں پاکستان کی سطح پر ہمیں لسانی قوم پرستوں کے دو بڑے طبقات دکھائی دیتے ہیں۔
اول کمیونسٹ لسانی قوم پرست طبقہ
دوم سیکولر لسانی قوم پرست طبقہ

دراصل ایک لسانی قوم پرست حقیقی سیکولر یا حقیقی کمیونسٹ بھی نہیں ہو سکتا کیونکہ اس کی حقیقی وفاداری تو اس کی قوم و قبیلے کے ساتھ ہے لیکن وہ اپنی نظریاتی تسکین کیلیے ان دو فلسفوں کی آڑ لیتا دکھائی دیتا ہے اور یہ دو فلسفے انسان کو بتدریج الحاد و دہریت کی طرف لیجاتے ہیں ، یہ ضروری نہیں کہ ہر ملحد اور دہریہ کمیونسٹ یا سیکولر ہو یا ہر ہر کمیونسٹ و سیکولر دہریہ بھی ہو لیکن اکثر یہ نظریات ساتھ پائے جاتے ہیں۔

یہی وہ بنیادی وجہ ہے کہ ہمارے یہاں کے لسانی قوم پرست کبھی کمیونزم کے راستے سے اور کبھی سیکولرزم کے راستے سے الحاد و دہریت کی طرف جاتے ہیں۔ مزے کی بات یہ کہ پاکستان کے لسانی قوم پرست کمیونسٹ یا سیکولر ہونے کے باوجود بھی بحیثیت مجموعی ایک نہیں ہو سکتے کیونکہ اگر وہ ایک بڑی جماعت اختیار کریں گے تو انہیں مختلف لسانی اکائیوں کے ساتھ بیٹھنا پڑے گا اور یہ ان کے لسانی تعصبات کے خلاف ہوگا۔ دوسری جانب لسانی قوم پرست موجودہ دور میں صرف قبائلی عصبیت کی بنیاد پر زندہ نہیں رہ سکتے عصر حاضر کے تقاضوں کو دیکھتے ہوئے انہیں پارٹی بازی اور ایک سیاسی وجود اختیار کرنے کی ضرورت بھی پیش آتی ہے تاکہ سیاسی و قانونی دائروں میں اپنے قبائلی و لسانی حقوق کا تحفظ کر سکیں.

لسانی قوم پرست جب سیاسی دائرے میں آتے ہیں تو ان کا جماعتی منشور ڈھیلا ڈھالا لبرل یا سیکولر ہوگا کیونکہ عصر حاضر کی فکر شدت پسند لسانی قوم پرستی کو برداشت نہیں کر سکتی ان کے مغربی آقا بھی اپنے معاشروں میں اسے ممنوع قرار دے چکے ہیں تو ان کے پاس جو آڑ ہوتی ہے وہ
سیکولر اور لبرل نظریات کی ہوا کرتی ہے۔

پاکستان کی سطح پر جب آپ اس طبقے کا جائزہ لیں گے تو یہ بات واضح ہو جائے گی کہ کس طرح ان قوموں میں کہ جن کے اندر قبائلی عصبیت سب سے زیادہ ہے وہ الحاد کی جانب سب سے زیادہ جا رہے ہیں جب ہم یہ خبریں سنتے ہیں کہ فلاں گاؤں یا فلاں دور دراز علاقے کا آدمی خاص کر ان علاقوں کا آدمی الحاد و دہریت کی جانب چلا گیا کہ جو روایت پسند مذہبی ہونے کی شناخت رکھتے ہیں تو ہمیں حیرت ہوتی ہے اور اس کی حقیقی وجہ سمجھ میں نہیں آتی۔

ایک روایت پسند پسماندہ علاقے کا آدمی الحاد و دہریت کی طرف اسی لیے جاتا ہے کہ وہ لسانی قوم پرست ہوتا ہے اس کی یہ شدت پسندانہ قوم پرستی اس کو مذہب سے دور کرتی ہے پھر وہ اجتماعی مفادات حاصل کرنے کیلیے کسی جماعت سے منسلک ہوتا ہے اور وہ جماعت اپنا نظریاتی وجود قائم کرنے کیلیے اسے کمیونزم یا سیکولرزم کی جانب مائل کرتی ہے اور آہستہ آہستہ وہ شخص الحاد کی راہ سے ہوتا ہوا دہریت کے گڑھے میں جا گرتا ہے۔

Comments

Avatar photo

ڈاکٹر حسیب احمد خان

ڈاکٹر حسیب احمد خان ہمدرد یونیورسٹی کراچی میں اسسٹنٹ پروفیسر ہیں۔ کراچی یونیورسٹی کے شعبہ قرآن و سنت سے پی ایچ ڈی کی ہے۔ گزشتہ ایک دہائی سے الحاد، دہریت، مغربیت اور تجدد پسندی کے موضوعات پر لکھ رہے ہیں۔ شاعری کا شغف رکھتے ہیں، معروف شاعر اعجاز رحمانی مرحوم سے اصلاح لی ہے

Click here to post a comment