۷/اکتوبر سنہ ۲۰۲۳ء کے بعد اہلِ غزہ کے ساتھ جو کچھ ہوا عالمی انسانی ضمیر نے اس کی غیرمشروط حمایت کی ہے۔ اس میں وہ اقوام یقیناً شامل نہیں تھیں جنھوں نے اس نسل کشی کو براہ راست یا بالواسطہ ممکن بنایا۔ انسانی بنیادوں پر اس حوالے سے کوئی دو آرا نہیں ہو سکتیں۔ یہ نسل کشی آبادکار استعماریت (settler colonialism) کا معمول کا تاریخی مظہر ہے، کیونکہ جدید تاریخ ایسے مظاہر نہایت باقاعدگی سے سامنے لاتی رہی ہے۔ کسی فلسفے، کسی قانون، کسی اخلاقیات، کسی مسلک، کسی مذہب، کسی روحانیت وغیرہ کی بنیاد پر اس نسل کشی کو عام انسانیت کے لیے قابل قبول نہیں بنایا جا سکتا، اور نہ سرمائے اور سیاست کی اُس طاقت کو جواز دیا جا سکتا ہے جو اس کو ممکن بناتی ہے۔
ہمارے اہلِ نگارش دنیا کے حالات کو ایک مربوط تاریخ کی بجائے واقعہ تا واقعہ دیکھنے کے عادی ہیں کیونکہ اس کے لیے ایک فکری اور تہذیبی تناظر کی ضرورت ہے جو ہمیں فی الوقت فراہم نہیں ہے۔ واقعہ تا واقعہ معلومات جمع کرنے کا نام تاریخ نہیں ہے، بلکہ سرمائے اور سیاسی طاقت کی جو حرکیات تاریخ کے انجن کے طور پر کام کر رہی ہے، اسے جاننے سے ہی تاریخ اپنی پوری حشر سامانی کے ساتھ متعین ہو پاتی ہے۔ تاریخ کے اس انجن کا ایندھن افکار و تصورات ہیں جو تاریخ میں کارفرما انسانی ایجنسی کو جواز اور مقاصد فراہم کرتے ہیں۔ افکار و تصورات شعور اور علم کی جدلیات کے اجزائے اعظم ہیں اور وہیں سے اجتماعی انسانی عمل کے ذریعے تاریخ میں داخل ہو جاتے ہیں۔ قدسیوں کی جدوجہد اور قربانیاں نرے ناسوتی مغرب کے افکار اور ان کی پیدا کردہ تاریخ کے خلاف بے مثال مزاحمت ہے۔ تاریخ کی حرکیات کو نظر انداز کر کے اسے صرف واقعات کے تسلسل کے طور پر دیکھنا خالص فکری دیوثی ہے، کیونکہ اس طرح واقعے کی اخلاقی ذمہ داری کا سوال کھڑا کر کے مظلومین ہی کو مورد الزام ٹھہرا کر ظالم کی بریت کا علم لہرایا جا سکتا ہے۔
ہمارے اہل نگارش بالعموم ایسے واقعات کی ذمہ داری مظلومین پر ہی عائد کرتے ہیں، اور اس طرح اہل نگارش اپنی قساوت قلبی کو ایک اخلاقی اور مذہبی جواز دینے میں بھی کامیاب ہو جاتے ہیں۔ ہماری خانہ زاد تاریخ اس پر گواہ ہے کہ جب بھی عامۃ الپاکستانیان کو سر دوز اور گرہ گیر ظلم کا سامنا ہوا، ہمارے اہل دانش، اور ہر قسم کے ملائی دانشور اہل حشم کے ساتھ شاداں و فرحاں رہے۔ یہ چیز ہم میں اہل استعمار سے آئی ہے کہ وہ عیسائی مشنریوں کو ساتھ لائے تھے تاکہ حاضر باش پادری صاحبان ان کے انسانیت سوز مظالم اور نسل کشیوں کو ساتھ ساتھ اخلاقی اور مذہبی جواز دیتے چلے جائیں۔ یہ کہ اہل دانش ظلم کے لیے مظلوم کو مورد الزام ٹھہرائیں، اور علم میں قاتلوں کا عَلم بلند رکھیں، مغرب سے ہی سیکھا ہوا ایک سبق ہے۔
اگر غزہ پر ٹوٹنے والی قیامت کو فلسطینیوں کی جدید تاریخ میں رکھ کر دیکھا جائے تو وہ ایک صدی پر پھیلی ہوئی مسلسل نسل کشی ہی کی تاریخ ہے۔ اس وقت فلسطین میں جو کچھ سامنے آ رہا ہے، وہ استعمار اور آبادکار استعماریت کا ہی تاریخی مظہر ہے جو پہلے عالمگیر تھا اور اب مشرق وسطیٰ میں سمٹ آیا ہے۔ یہ کہ اس نسل کشی میں بچوں کی اموات زیادہ ہوئی ہیں نہایت دل فگار ہے، لیکن ان اموات پر اگر فلسطینیوں کو جذباتی بلیک میل نہیں کیا جا سکا تو عامۃ المسلمین پر بھی یہ دلیل نہیں داغی جا سکتی۔ جب ایک سابقہ امریکی وزیر خارجہ میڈلن البرائٹ سے پوچھا گیا کہ عراق کو مطلوب ادویات پر امریکی پابندیوں کی وجہ سے پانچ لاکھ بچے ہلاک ہو جائیں گے تو کیا یہ قیمت آپ کو قابل قبول ہے، تو اس نے کہا بخوشی قبول ہے۔ تو کیا ہم شام کے ننھے ایلان کردی کی ساحل پر پٹکی ہوئی لاش کو بھول گئے ہیں؟ ایلان کردی، عراق کے پانچ لاکھ بچے اور غزہ میں مرنے والے بچوں کی اموات کا سبب طاقت اور سرمائے کا وہ قبضہ ہے جو استعمار نے مشرق وسطیٰ میں قائم کر رکھا ہے۔ ہم اصل میں قاتلوں اور ان کے بہی خواہوں کو بہت جلد بھول جاتے ہیں، اس لیے فکری الجھنوں میں سرگرداں رہتے ہیں۔ اگر مسلم معاشروں میں بچوں کے قتل عام کی تاریخ ہمیں یاد ہوتی تو حماس پر الزام بازی کا موقع نکالنا ممکن نہ تھا۔
اصل بات یہ ہے کہ قدسیوں کی بے مثال مزاحمت نے پوری دنیا کا سیاسی منظر نامہ ہی بدل دیا ہے، اور مشرق وسطیٰ اب سنبھالے نہیں سنبھل رہا۔ اس سیاسی بھونچال کا سبب سات اکتوبر کا اقدام ہے، اور جو سلطنت عثمانیہ کے خاتمے کے بعد تاریخ میں عرب ایجنسی کے ظہور کی علامت ہے۔ مستقبل قریب کی تاریخ غزہ جنگ کے مضمرات کھلنے ہی کی تاریخ ہو گی۔ یقیناً اس بات کا امکان بہت کم ہے کہ عربوں اور مسلمانوں کے لیے حالات میں کچھ بہتری آئے۔ لیکن اس میں شک نہیں کہ عرب دنیا پر حکمران استعماری گماشتوں کے لیے اپنے حکومتوں کو باقی رکھنا بتدریج مشکل ہوتا چلا جائے گا، اور ایسے اہل نگارش کی دانش بھی بے وقعت ہوتی چلی جائے گی جو مسلم شعور پر صدیوں سے کھانچے لگاتے چلے آئے ہیں۔
تبصرہ لکھیے