میں بھرپور نیند کرکے رات کے دس بجے جاگا، فریش ہو کر استقبالیہ کاؤنٹر پر چلا آیا، دوپہر والی رشین لڑکی موجود تھی، اسے کھانے کا پوچھا تو بولی "اس وقت کچن بند ہے، ناشتے کا وقت صبح سات سے گیارہ بجے تک ہوتا ہے،" کورا جواب سن کر میں خاموشی سے باہر کی راہ لی.
باہر سورج مکمل غروب اور ہر طرف اندھیرا چھایا ہوا تھا، سنسان گلی میں سے گذرتے مین سڑک کی طرف بڑھا، برقی قمقموں سے پوری سڑک روشن تھی، گاڑیوں کی آمدورفت کم تھی، دائیں بائیں چوڑے فٹ پاتھ پر چند لوگ پیدل چل رہے تھے، اس مرتبہ میں دائیں جانب ہولیا، آگے ٹرکش ریسٹورنٹس کی بھرمار تھی، فارمیسی، کھلونوں کی دکانیں، فٹ پاتھ سے کچھ اونچائی پر واقع تھیں، میٹریل اور بلڈنگ سٹائل ایک جیسا، یہ رشین دور کی نشانیاں ہیں، کچھ عمارتوں کا فرنٹ جدید سٹائل سے بنا نظر آیا، میں تقریباً آدھ کیلومیٹر واک کرتا سڑک کے آخر تک جا پہنچا، یہاں چوراہا تھا، سڑک کے پار رہائشی و کمرشل عمارتوں کی قطار، ماسوائے ریسٹورنٹس اور فارمیسی باقی تمام دکانیں بند تھیں، یہاں سٹریٹ لائٹس کی مدھم روشنی فٹ پاتھ پر بکھر رہی تھی، تاشقند میں شام چھ بجے تک تمام کاروبار زندگی بند ہو جاتا ہے، عمارتوں کے آخر پر میکڈونلڈ کا نیون سائن جگمگا رہا تھا لیکن باہر کوئی گاہک نظر نہ آیا، ابھی بھوک اتنی خاص نہ تھی، سوچا ایک واک کرتا ہوں، واپس چور سُو بازار کی طرف پیدل ہولیا، سڑک کے آخر تک پہنچتے ایک کیلومیٹر واک ہو چکی تھی، چوراہے پر تین افراد پیدل چلتے نظر آئے، دن کے وقت یہاں تل دھرنے کو جگہ نہ تھی اور اب ہُو کا عالم تھا، میں یہاں سے پھر واپس میکڈونلڈ کی طرف ہو لیا.
تاشقند، ازبکستان کا متحرک دارالحکومت، اکثر سورج کی روشنی میں نہا جاتا ہے، گلیاں روزمرہ کی زندگی کے رنگوں سے بھری رہتی ہیں لیکن جب شام ڈھلتی ہے تو ایک الگ داستان سامنے آتی ہے. رات کے ساڑھے دس بج چکے تھے، ہر طرف سرد سناٹا تھا، ہوا میں خنکی بدستور بڑھ رہی تھی، واپسی کے راستے پر اب تک کوئی نظر نہ آیا تھا. سرد ہوا کا جھونکا آیا تو میں سردی سے ٹھرٹھرایا، دونوں ہاتھ جینز کی جیب میں ڈال لئے، سڑک کی دوسری طرف جانے کیلئے میکڈونلڈ کے سامنے واقع انڈر گراؤنڈ راستے کی سیڑھیاں نیچے جاتی نظر آئیں، میں سیڑھیوں کے عین سامنے پہنچ چکا تھا، جی میں آئی کہ دوسری طرف جا کر وہاں کا منظر دیکھنا چاہیے. پہلا قدم بڑھایا ہی تھا کہ اچانک نظر نیچے راستے پر پڑی، لمبا توانا دیوہیکل سایہ نظر آیا، دھیرے دھیرے یہ سایہ بڑھ رہا تھا، میں ڈر کے مارے وہیں ساکت ہو گیا. سایہ بڑھتے بڑھتے پوری دیوار پر محیط ہوگیا، جیسے جیسے سایہ اپنے بھاری بھرکم وجود کی چادر پھیلا رہا تھا، میں اپنے سینے میں خوف کی شدید گرہ کو مضبوط ہوتا محسوس کر رہا تھا. یوں محسوس ہوا کہ یہ دیوہیکل سایہ دن کی روشنی کے آخری نشانات کو نگل کر زیر زمین راستے پر اپنا جابرانہ تسلط جمائے ہوئے ہے. انڈر گراؤنڈ راستوں کی سب ہولناک یاد آ گئیں، مدھم ہوتی روشنی نامانوس ماحول کو ایک مکمل اجنبی منظر میں بدل چکی تھی، پتوں کی سرسراہٹ بے چینی کے احساس کو بڑھا رہی تھی. شام کی خوفناک خاموشی صرف دور دراز قدموں کی گونج یا کبھی کبھار نادیدہ مخلوق کی ہنگامہ آرائی سے واقف ہوتی ہے، تنہائی اور کمزوری کے احساس کو بڑھاتی ہے، اطراف سے ٹھنڈی ہوا ہڈیوں میں گھس رہی تھی، شدید خوف کی لہر روح کی نامعلوم گہرائیوں کو چیرتی پورے جسم میں سرایت کر چکی تھی. دماغ کے کینوس پر پردیس کے خطرات اور سائے میں چھپے ہوئے خوفناک اعداد و شمار کی تصویریں نمودار ہونے لگیں، جسمانی سردی اور نفسیاتی گھبراہٹ کا امتزاج ایک وسیع خوف پیدا کرتا ہے، جو عقلیت اور بنیادی خوف کے درمیان جدوجہد کو آگے بڑھانے یا پیچھے ہٹنے کا فیصلہ کرتا ہے. ہر سانس بھاری محسوس ہو رہی تھی، دل کی ہر دھڑکن میں سرپٹ بھاگنے کی خواہش گونجی، اندھیری سرد رات، اجنبی سرزمین، نہ آدم نہ آدم زاد، میں اٹینشن ہو گیا.
استاد محترم حافظ مبشر ملک کا فرمان یاد آیا "اکیلے جا رہے ہو، اللہ نہ کرے کہ کسی پرابلم کا سامنا ہو، اگر کوئی مشکل ہوئی تو فون کردینا"، کانپتی انگلیوں سے جینز کی جیب میں رکھے موبائل فون کو ٹٹول کر محسوس کرنا چاہا لیکن موبائل چارجنگ پر چھوڑ آیا تھا، "دوستوں کو کیسے معلوم ہوگا کہ میں اس وقت کہاں ہوں،" ان کو بس اتنا معلوم تھا کہ میں ہزاروں میل دور تاشقند پہنچ چکا ہوں، زیرزمین راستے میں سایہ اب بہت گھنا ہو چکا تھا، کسی بھی لمحے وہ موڑ کاٹ کر میری طرف بڑھ سکتا تھا، ڈر کے مارے گلا خشک ہوتا محسوس ہوا، جی میں آیا کہ کسی مصیبت کو دعوت دینے کی بجائے واپس دوڑ لگا دوں.
بہادری اور بیوقوفی میں انیس بیس کا فرق ہوتا ہے، رشین لوگ فرینڈلی اور جولی ٹائپ ہوتے ہیں لیکن ازبک سفاکیت بارے کہانیان بھی سن چکا تھا، مجھے اس بات پر ناز ہے کہ حالات کتنے بھی برے ہوں میں سامنا کر سکتا ہوں، رشین زبان بول سکتا ہوں، دل بڑا کرکے بھاگنا منسوخ کیا، جو ہوگا دیکھا جائے گا، وہیں کھڑا نیچے جاتی سیڑھیوں پر نظریں جما دیں، سایہ اب بہت بڑا ہو چکا تھا، یکدم سائے نے اپنے دائیں جانب موڑ مڑا، مجھے اپنے کانوں میں دل کی دھڑکن سنائی دی، روشنی میں سائے کو دیکھ کر آنکھیں سششدر رہ گئیں.
کھودا پہاڑ اور .. ایک خاتون بھاری جیکٹ پہنے پوری نسوانی شان کے ساتھ آرام سے سیڑھیاں چڑھتی اوپر آ رہی تھی، خدوخال واضح ہوئے تو اس کی موجودگی مدھم راستے کو روشن کرتی محسوس ہوئی، ایک نرم، آسمانی چمک جو آس پاس کے سرد اداس ماحول سے بالکل متصادم تھی. پُرسکون انداز میں ہر قدم جان بوجھ کر گِن کر رکھتی ہوئی گویا وہ جسمانی اور استعاراتی سفر دونوں کو آرام سے طے کر رہی ہو، جس کی دلکش ظاہری شکل خوبصورتی اور اسرار کا تاثر چھوڑتی ہے.
میرے منہ سے اطمینان کا سانس خارج ہوا اور میں یکبارگی دل پر ہاتھ رکھ کر لمبے سانس لیتا بائیں منڈیر سے پشت کی ٹیک لگا کر زمین پر بیٹھ گیا، اسکی نظر مجھ پر پڑی تو گھبرائی ہوئی فوراً میری طرف لپکی "کیا تم ٹھیک ہو؟"، میں اپنے اوسان بحال کرتے ہوئے ہاتھ سے اشارہ کیا کہ میں ٹھیک ہوں، قریب ہونے پر اپنے سامنے ایک غیر ملکی کو دیکھ کر پوچھتی "کیا میں آپ کی مدد کر سکتی ہوں؟"، میں لمبے سانس لیتا بولا "بہت شکریہ، دراصل میں ڈر گیا تھا"، وہ حیران ہو کر بولی "کیسا ڈر؟"، میں لمبا سانس لیتے نظریں اٹھا کر اسے دیکھا، تیس بتیس سال عمر، سفید بے داغ رنگت، لمبا ناک، آنکھوں میں مسکارے کی دم آنکھوں کے کناروں سے باہر چھو رہی تھی، باریک ہونٹوں پر دبیز سرخ لپ اسٹک، بھاری جیکٹ کے کالر اوپر کئے، جینز اور سپورٹس شوز پہنے ازبک خاتون مجھ سے مخاطب تھی، میں ہارٹ اٹیک سے بچ گیا تھا، اسے مختصر بتایا تو بچوں کی طرح کھلکھلا کر ہنسی، میں بھی ہنسی میں شامل ہوگیا، ہنستے ہنستے آنکھوں میں ابھرا پانی صاف کرتی بولی "یہ ملاقات مجھے ساری زندگی یاد رہے گی"، میں سینے پر ہاتھ رکھ کر سر کو تعظیم دی "مجھے بھی"۔
تبصرہ لکھیے