ہوم << روتا کیوں نہیں؟ - ڈاکٹر فہد چوہدری

روتا کیوں نہیں؟ - ڈاکٹر فہد چوہدری

سب پوچھ رہے ہیں میں روتا کیوں نہیں؟
کیسا سوال ہے روتا کیوں نہیں؟

رات بارہ کے قریب کا عمل ہو گا کہ ورزش کرنے کے بعد ابھی بیٹھا ہی تھا کہ پرسنل موبائل کی گھنٹی بجی۔ بیگم ہسپتال ہی ڈیوٹی پر تھیں اس لیے خیال ہوا انھیں کوئی کام نہ ہو۔ فون اٹھایا تو عجب دہشت زدہ سی آواز میں انھوں نے کچھ بتایا۔ کچھ ان کی آواز میں موجود تناو ، کچھ ورزش کی تھکان اور کچھ بے یقینی۔ سمجھ ہی نہیں سکا کہ کیا کہاانھوں نے؟

پھر آہستہ آہستہ جیسے سوکھی لکڑی پانی جذب کئے جاتی ہے ٹھیک اسی طرح کانوں نے ان کے کہے الفاظ جذب کیے پھر آہستہ آہستہ سمجھ آنے لگی کہ کیا کہا بیگم نے۔ ہونے والا اب نہیں رہا ! اور ڈاکٹر صاحبہ بیٹے کی قبل از پیدائش ہی وفات کی اطلاع دے رہی تھیں۔ بعد کے حالات معلوم نہیں کہ کیسے کٹے ۔ ایک بے نام سی یاسیت ، ایک اتھاہ غم نے جیسے کائنات کو اپنی جکڑ میں لے لیا ہو، کسی ترنم، کسی جھنار سے گویا کان کبھی آشنا ہی نہ ہوئے ہوں۔ گہری دھند سی چھائی رہی ایسی ہر سو کہ سوائے اس روتی ماں کے کچھ دکھائی نہ دیتا تھا،تین دن اس کے سرہانے اس کے روتےآنسو سنبھالتے اور ڈھارس بندھاتے ہی گزر ے۔

صرف ماں ہی کیوں سب کا ہی تو سامنا تھا. دادی، دادا، نانا ، خالہ، پھوپھو تو پھر وقت کہاں تھا؟ دل ہی تو تھا تسلی دے بیٹھا کہ کون سا ابھی دنیا میں آیا تھا مگر پھر دل ہی تو تھا کہ آنے والے وقت کے سپنے فٹافٹ بن لیتا ہے بے شک بعد میں وہ تکلیف دیتے رہیں۔ یہاں بھی کچھ ایسا ہی معاملہ تھا۔ امیدوں کے بکھر جانے کا غم، کسی اپنے کے جانے کی تکلیف۔ غم تھا کہ پور پور میں اتر گیا تھا، بند بند آنسو میں ڈوبا تھا مگر آنکھ ؟

آنکھ سونی ہی رہی۔ بہنیں، بیوی، ماں ، بہنوئی، دوست سب یہی زور ڈالتے رہے کہ بھائی رو لو، کچھ دل ہلکا ہو جائے گا۔ مگر کیا بتاتا انھیں کہ یہاں سر تا پا آنسو ہوں بےشک چہرہ میرے دل کی ترجمانی نہیں کرتا رہا۔ کرتا تو بھی کیسے، اس ماں کو کیسے سنبھالتا اگر میں ہی بکھر جاتا؟ میں رو پڑتا تو سب رو پڑتے ارے اس لیے تو چپ رہا۔ چپ کیا، بس مسکراتا رہا کہ وہ جو مجھے دیکھ دیکھ کر حوصلہ کئے بیٹھی ہے، ٹوٹ نہ جائے۔ وہ جو مشکل سے اپنے آپ کو سمیٹ کر ، سنبھال کر خزاں کے کسی درخت کے سوکھے پتے کی مانند لرزاں بیٹھی ہے اس کے لیے میں کہیں ہوا کا سرد جھونکا نہ بن جاوں۔

ہاں مگر اس ننھی سی جان کو جب ماں سے جدا کر کے سفید چھوٹے سے کفن میں لپیٹا تھا تو یقین جانو کائنات تھم گئی تھی میرے لیے۔ قدم تھے کہ اٹھائے نہ اٹھتے تھے۔ایک ہاتھ میں سما گئی تھی وہ چھوٹی سی سفید کپڑے میں لپٹی ماں باپ کی دنیا۔ قریب تھا کہ میرے ضبط کے بندھن ٹوٹ جاتے کہ اولاد کو اپنے ہاتھ سے قبر میں اتارنا میرے بس میں نہیں رہا اور بیگم الگ کشمکش میں زندگی اور موت سے لڑ رہی تھی، میں نے اپنے برادر نسبتی کو یہ فریضہ سونپ دیا۔ اس جوان کو بھی نہ ہمت ہوئی کہ خود صاحب اولاد ہے آخر سسر نے ہمت کی۔ کیسے ہمت کی ہو گی انھوں نے؟

دل سوچ نہیں پاتا ان کی کیفیت کے بارے میں۔ اب ہمت جٹا رہا ہوں اس چھوٹی سی قبر پر جانے کی جو سب کو اتنا رلا گئی۔ اس کو الوداع بھی تو کہنا ہے۔ اسے بتانا ہے کہ الوداع میرے بچے! پھر ملیں گے ۔ تو تو بغیر ملے ہمیں ا تنا رلا گیا۔ دیکھ تیری ماں اب تک تیرے بارے میں سوچ سوچ کر اپنا چہرہ گیلا کئے بیٹھی ہے ہاں مگر جانے والے کے ساتھ تو نہیں جاتے اس لیے ہمت پکڑتے ہیں اور کام پر نکلتے ہیں۔الوداع ! میرے بچے الوداع !

Comments

Click here to post a comment