ہوم << الحاد کا فنون لطیفہ پر اثر - عبدالسلام فیصل

الحاد کا فنون لطیفہ پر اثر - عبدالسلام فیصل

دور جدید میں ڈرامہ اینڈ آرٹ کو بہت اہمیت دی جاتی ہے ۔ ہمارے ادبی حلقوں میں موجود مسلمان لکھاری عقیدہ توحید سے صحیح معنوں میں آشنا نہیں ہوتے یہی وجہ ہے کہ وہ ڈرامہ ، نظم ، غزل وغیرہ لکھتے وقت قطعی طور پر اس چیز کا خیال نہیں رکھتے کہ اس سے پڑھنے ، سننے اور سمجھنے والے کے دل و دماغ پر کیا اثر پڑے گا ۔

آج سوشل میڈیا کے دور میں ہم روزانہ ہزاروں ویڈیو کلپس سکرول کرتے ہیں۔ جس میں ڈراموں ، فلموں اور گانوں کی ایسی عبارتیں سننے کو مل جاتی ہیں جو زبان زد عام ہو گئی ہوتی ہیں ۔ اور وہ اشعار اور ڈائیلاگ بار بار سننے والے انسان اس کو اپنی زندگی کا حصہ سمجھ لیتے ہیں یہاں تک کہ عقیدہ سمجھ لیتے ہیں ۔ کسی کو ہنسانے کے لئے ایسی ایسی جگت بازی کی جاتی ہے کہ اللہ کی پناہ۔ سوشل میڈیا میں سٹیج ڈرامے کا ایک مشہور کلپ ہے ۔ جس میں ایک اداکار دوسرے کے کندھے پر کسی چیز کی ضرب لگاتا ہے تو دوسرا اداکار روتے ہوئے یہ جگت مارتا ہے کہ ’’اس نے میرے دائیں کاندھے کے فرشتے کا سر پھاڑ دیا ‘‘. اور دوسری طرف اس جگت کو سن کر پورا سٹیج ہال تالیوں اور قہقہوں سے گونج اٹھتا ہے ۔ شاید ایک بد عمل مسلمان کے لئے یہ اتنی سی جگت محض چند قہقہوں کا باعث بنی ہو۔ لیکن اس میں اس جگت نے یہ احساس ضرور پیدا کر دیا ہے کہ ’’ کراما کاتبین‘‘ کوئی ایسی چیز نہیں ہیں جو نامہ اعمال لکھتے ہوں اور روز محشر یوم حساب وہ نامہ اعمال ہمیں پیش کر دیا جائے گا۔ تھوڑا غور کیا جائے تو کیا کسی انسان میں ایسی طاقت ہے کہ وہ کسی دوسرے انسان کے کاندھوں پر مقرر فرشتوں کو نقصان پہنچا سکے۔ ؟

اگر نہیں تو محض دوسرے انسانوں کو ہنسانے کے لئے اس قدر بیہودہ بات کہہ دینا جس سے شعائر اسلام کا استھزاء ہو ۔ یعنی اللہ کے مقرر کردہ فرشتے کا ؟ رسول اللہ ﷺ کا فرمان عالی شان ملاحظہ کیجیے: وَيْلٌ لِلَّذِي يُحَدِّثُ فَيَكْذِبُ لِيُضْحِكَ بِهِ الْقَوْمَ وَيْلٌ لَهُ وَيْلٌ لَهُ. (ابودائود: 4990) ’’ تباہی ہے اس کے لیے جو بولتا ہے تو جھوٹ بولتا ہے تاکہ اس سے لوگوں کو ہنسائے، تباہی ہے اس کے لیے، تباہی ہے اس کے لیے۔‘‘ یہ بالکل ایسا ہی ہے کہ اس وقت شیطان نے ان کے دل و دماغ سے اللہ رب العزت اور اس کی ان مخلوقات کا رعب دب دبہ نکال دیا ہوتا ہے جن کو اللہ نے انسان کی خدمت اور ان کی نگرانی کے لئے مقرر کر رکھا ہے۔ جو جگت باز ’’ کراما کاتبین ‘‘ کی مثال دے کر قہقہہ لگا رہا ہے اس وقت کیا اس کا یہ ایمان اس کے سینے سے نکل جاتا ہے کہ میں جو جگت مار رہا ہوں "کراما کاتبین " وہ جگت بھی لکھ رہے ہیں وہ کلمات بھی لکھ رہے ہیں ۔ ان تمام سامعین و حاضرین جن کے لئے جگت ماری گئی ہے ان کا اس پر داد دینا بھی لکھا جا رہا ہے اور قہقہے لگانا بھی۔ صرف اس ایک جگت پر قہقہہ لگا دینے سے ہم اپنے ایمان کا کس قدر نقصان کر رہے ہوتے ہیں جس کا ہمیں اندازہ نہیں۔
وَ اِنَّ عَلَیۡکُمۡ لَحٰفِظِیۡنَ ﴿ۙ۱۰﴾ یقیناً تم پر نگہبان عزت والے ۔
کِرَامًا کَاتِبِیۡنَ ﴿ۙ۱۱﴾ لکھنے والے مقرر ہیں ۔
یَعۡلَمُوۡنَ مَا تَفۡعَلُوۡنَ ﴿۱۲﴾ جو کچھ تم کرتے ہو وہ جانتے ہیں ۔ (الانفطار)

اگر دیکھا جائے تو اللہ کی آیات میں الحاد ایسے ہی اعمال سے ظاہر ہوتا ہے۔ اللہ رب العزت قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے: يَحْذَرُ الْمُنَافِقُونَ أَن تُنَزَّلَ عَلَيْهِمْ سُورَةٌ تُنَبِّئُهُم بِمَا فِي قُلُوبِهِمْ ۚ قُلِ اسْتَهْزِئُوا إِنَّ اللَّـهَ مُخْرِجٌ مَّا تَحْذَرُونَ وَلَئِن سَأَلْتَهُمْ لَيَقُولُنَّ إِنَّمَا كُنَّا نَخُوضُ وَنَلْعَبُ ۚ قُلْ أَبِاللَّـهِ وَآيَاتِهِ وَرَسُولِهِ كُنتُمْ تَسْتَهْزِئُونَ لَا تَعْتَذِرُوا قَدْ كَفَرْتُم بَعْدَ إِيمَانِكُمْ ۚ إِن نَّعْفُ عَن طَائِفَةٍ مِّنكُمْ نُعَذِّبْ طَائِفَةً بِأَنَّهُمْ كَانُوا مُجْرِمِينَ۔ (التوبہ) ’’ منافقوں کو ہر وقت اس بات کا کھٹکا لگا رہتا ہے کہ کہیں مسلمانوں پر کوئی سورت نہ اترے جو ان کے دلوں کی باتیں انہیں بتلا دے۔ کہہ دیجئے کہ مذاق اڑاتے رہو، یقیناً اللہ تعالیٰ اسے ظاہر کرنے والا ہے جس سے تم ڈر دبک رہے ہو ۔اگر آپ ان سے پوچھیں تو صاف کہہ دیں گے کہ ہم تو یونہی آپس میں ہنس بول رہے تھے۔ کہہ دیجئے کہ اللہ، اس کی آیتیں اور اس کا رسول ہی تمہارے ہنسی مذاق کے لئے رہ گئے ہیں۔تم بہانے نہ بناؤ یقیناً تم اپنے ایمان کے بعد بےایمان ہوگئے اگر ہم تم میں سے کچھ لوگوں سے درگزر بھی کرلیں تو کچھ لوگوں کو ان کے جرم کی سنگین سزا بھی دیں گے‘‘۔

اب اگر ہم قرآن مجید فرقان حمید کی آیات کا جائزہ لیں تو ہمیں معلوم پڑے گا کہ ایسی جگت بازی جس میں شعائر اسلام یا عقائد اسلام کی توہین ہو رہی ہو اس پر ایمان رکھتے ہوئے ہنسی کرنا ، پھر ایسا استہزاء کرنے والے کو تالیوں کے ساتھ داد دینا کہ توں نے خوب اچھا کام کیا سوائے منافقانہ روش کے اور کچھ نہیں ۔

گزشتہ دنوں ایک بھائی نے سٹیج اداکار افتخار ٹھاکر اور سہیل احمد کے ایک سٹیج ڈرامے کا ایک کلپ بھیجا ۔ جس میں افتخار ٹھاکر کو مردہ بنا دیا جاتا ہے ایک آدمی تھیٹر میں داخل ہوتا ہے اور پوچھتا ہے کہ میں افتخار صاحب کو ملنا چاہتا ہوں۔ اس کا بیٹا (سہیل احمد) کہتا ہے وہ فوت ہو چکے ہیں۔ تو دوسرا شخص سہیل احمد کو جگت مارتے ہوئے کہتا ہے کہ ’’ اگر وہ فوت ہو گئے ہیں تو ان کا کوئی موبائل نمبر دے دیں۔ تو بیٹا (سہیل احمد ) کہتا ہے کہ لکھو :’’ 0300 انا للہ وانا الیہ راجعون ‘‘ تو دوسرا شخص تعجب سے پوچھتا ہے کہ کیا یہ کوئی نئی کمپنی ہے۔ یہ سنتے ہیں پورا حال تالیوں اور قہقہوں سے گونج اٹھتا ہے ۔ افتخار ٹھاکر کو ایک گیلری نما کمرے میں چھپا دیا جاتا ہے ۔ جس قبر بنایا گیا ہوتا ہے ۔ بار بار افتخار ٹھاکر اس قبر نما کمرے سے باہر نقل کر آتا ہے اور قبر کا مذاق بنانے لگتا ہے ۔ جیسے ’’ساتھ والی قبر میں بچے کی پیدائش ہوئی ہے ‘‘ یا پھر ’’مجھے کسی لیڈیز قبر کے ساتھ دفناؤ تم لوگوں نے کسی بزرگ بابے کے ساتھ لٹا دیا۔‘‘ یا پھر ’’ میں قبر میں بور رہو رہا ہوں مجھے کیبل کا کنیکشن لگوا دو تاکہ میں انگریزی چینلز کو دیکھ سکوں۔ انا للہ وانا الیہ راجعون ۔ یہ صرف ایک ڈرامے کے چند ڈائیلاگ ہیں ۔ عوام ان کو سن رہی ہوتی ہے، تالیاں مار رہی ہوتی ہے قہقہے لگا رہی ہوتی ہے ۔ اس چیز سے قطع نظر کہ اس ڈرامے کے ڈائیلاگ سے کس اسلامی عقیدے یا تعلیم کا شدید مذاق یا تضحیک ہو رہی ہے ۔

الشیخ خالد حسین گورایہ حفظہ اللہ اسلام فورٹ ویب سائٹ میں اپنے ایک آرٹیکل میں لکھتے ہیں : ’’اللہ سبحانہ وتعالیٰ پرطعنہ زنی کرنا، اس کا تمسخر اڑانا، اللہ تعالیٰ کے رسولﷺپر طعنہ زنی اور ان کا تمسخر اڑانا ، یا دین وشعائر ِ دین پر طعنہ زنی وعیب جوئی کرنا اس کا تمسخر اڑانا استہزاء کہلاتاہے ‘‘۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس رذالت سے محفوظ فرمائے ۔ امام غزالی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :’’ سخریہ واستہزاء سے مراد اتضحیک ، استخفاف اور تحقیر ہے ۔ نیزعیب ونقائص اس انداز سے بیان کرنا کہ جس سے مذاق اڑے، ہنسا جائے ،یہ تضحیک وتحقیر کبھی قول وفعل کی شکل میں ہوتی ہے۔ اور کبھی اشارہ وکنایہ کی صورت میں بھی ‘‘ ۔ (احیاء علوم الدین ۔3؍ 131بحوالہ الاستھزاء بالدین أحکامہ وآثارہ ۔ ص 79). اللہ رب العزت قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے : وَيْلٌ لِّكُلِّ أَفَّاكٍ أَثِيمٍ يَسْمَعُ آيَاتِ اللَّـهِ تُتْلَىٰ عَلَيْهِ ثُمَّ يُصِرُّ مُسْتَكْبِرًا كَأَن لَّمْ يَسْمَعْهَا ۖ فَبَشِّرْهُ بِعَذَابٍ أَلِيمٍ وَإِذَا عَلِمَ مِنْ آيَاتِنَا شَيْئًا اتَّخَذَهَا هُزُوًا ۚ أُولَـٰئِكَ لَهُمْ عَذَابٌ مُّهِينٌ (الجاثیہ) ’’بڑی ہلاکت ہے ہر سخت جھوٹے، گناہ گار کے لیے۔جو اللہ کی آیات سنتا ہے، جبکہ اس کے سامنے پڑھی جاتی ہیں، پھر وہ تکبر کرتے ہوئے اڑا رہتا ہے، گویا اس نے وہ نہیں سنیں، سو اسے دردناک عذاب کی بشارت دے دے۔ اور جب وہ ہماری آیات میں سے کوئی چیز معلوم کرلیتا ہے تو اسے مذاق بنا لیتا ہے، یہی لوگ ہیں جن کے لیے رسوا کرنے والا عذاب ہے۔‘‘ اسی طرح دوسری جگہ ارشاد فرمایا : وَلَئِن سَأَلْتَهُمْ لَيَقُولُنَّ إِنَّمَا كُنَّا نَخُوضُ وَنَلْعَبُ ۚ قُلْ أَبِاللَّـهِ وَآيَاتِهِ وَرَسُولِهِ كُنتُمْ تَسْتَهْزِئُونَ لَا تَعْتَذِرُوا قَدْ كَفَرْتُم بَعْدَ إِيمَانِكُمْ ۚ إِن نَّعْفُ عَن طَائِفَةٍ مِّنكُمْ نُعَذِّبْ طَائِفَةً بِأَنَّهُمْ كَانُوا مُجْرِمِينَ (التوبة – 65/66) ’’اگر آپ ان سے پوچھیں تو صاف کہہ دیں گے کہ ہم تو یونہی آپس میں ہنس بول رہے تھے۔ کہہ دیجئے کہ اللہ ،اس کی آیتیں اور اس کا رسول ہی تمہارے ہنسی مذاق کے لئے رہ گئے ہیں ۔ تم بہانے نہ بناؤ یقیناً تم اپنے ایمان کے بعد بے ایمان ہوگئے، اگر ہم تم میں سے کچھ لوگوں سے درگزر بھی کر لیں تو کچھ لوگوں کو ان کے جرم کی سنگین سزا بھی دیں گے‘‘۔

کیا قبر ، روز آخرت اور کراما کاتبین پر یقین اس لئے لایا جاتا ہے کہ اس پر ہنسی مذاق کو محض دلی تسکین کے لئے برداشت کیا جائے ؟
جناب زید بن ثابت رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیا ن کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک مرتبہ بنو نجار کے باغ میں اپنے خچر پر سوار تھے کہ اچانک آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا خچر بدکا اورقریب تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو گرادے ناگہاں چھ یا پانچ یا چار قبریں معلوم ہوئیں۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ ان قبر والوں کو کوئی جانتاہے۔ایک شخص نے کہا میں (جانتاہوں) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کہ یہ کب مرے ہیں؟وہ بولا شرک کے زمانے میں پس آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: إِنَّ هَذِهِ الأمَّةَ تُبْتَلَى فِي قُبُورِهَا فَلَوْلا أَنْ لا تَدَافَنُوا لَدَعَوْتُ اللَّهَ أَنْ يُسْمِعَكُمْ مِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ الَّذِي أَسْمَعُ مِنْهُ ’’یہ میت اپنی قبروں میں آزمائی جاتی ہے پس اگر مجھے یہ خوف نہ ہوتا کہ تم(مردوں کو) دفن کرنا ہی چھوڑدو گے تو میں ضرور اللہ سے یہ دعا کرتا کہ وہ تم کو بھی قبر کاعذاب سنادے جس طرح میں سنتا ہوں.‘‘ عثمان بن عفان رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے ،وہ بیان کرتے ہیں: كان النبي صلي الله عليه وسلم إذا فرغ من دفن الميت قال : « استغفروا لأخيكم ، وسلوا الله التثبيت ، هو الآن يسأل ( ابوداود فی الجنائز باب الاستغفار عندالقبر للمیت فی وقت الانصراف :3221) ’’نبی کریم جب میت کو دفن کرنے سے فارغ ہوتے تو قبر پر کھڑے ہوتے ہی فرماتے کہ اپنے بھائی کے لئے استغفار کرو۔اور اس کے ثابت قدم رہنے کی دعا کرو،اس لئے کہ اس وقت اس سے سوال کیا جارہاہے۔‘‘

انسان قبر میں اس لئے نہیں جاتا کہ وہ قبر میں ہمیشہ رہے گا اور اس سے دنیا میں کئے گئے اعمال کا پوچھا نہیں جائے گا یا قبر کی زندگی کوئی حقیقی زندگی نہیں ہے ۔ قبر اور اس کے معاملات کا مذاق اڑانا حقیقت میں اخروی زندگی کا مذاق اڑانے کے مترادف ہے ۔
﴿وَنُفِخَ فِي الصُّورِ فَإِذَا هُم مِّنَ الْأَجْدَاثِ إِلَىٰ رَبِّهِمْ يَنسِلُونَ ﴿يس:٥١﴾ ’’اور صور میں پھونکا جائے گا پس یکایک یہ اپنے رب کے حضور پیش ہونے کے لئے قبروں سے نکل پڑیں گے.‘‘
﴿وَأَنَّ اللَّـهَ يَبْعَثُ مَن فِي الْقُبُورِ ﴿الحج:٧﴾ ’’اور بے شک اللہ ان لوگوں کوجو قبروں میں ہیں (قیامت کے دن)اٹھائے گا"
﴿ مِنْهَا خَلَقْنَاكُمْ وَفِيهَا نُعِيدُكُمْ وَمِنْهَا نُخْرِجُكُمْ تَارَةً أُخْرَىٰ (طہٰ:55) ’’ہم نے تم کو اسی زمین سے پیداکیا اور اسی میں ہم تم کو(موت کے بعد) لے جائیں گے اور (قیامت کے دن) پھر دوبارہ اسی سے ہم تم کو نکالیں گے‘‘
قَالَ كَمْ لَبِثْتُمْ فِي الْأَرْ‌ضِ عَدَدَ سِنِينَ ﴿١١٢﴾ قَالُوا لَبِثْنَا يَوْمًا أَوْ بَعْضَ يَوْمٍ فَاسْأَلِ الْعَادِّينَ ﴿١١٣﴾ قَالَ إِن لَّبِثْتُمْ إِلَّا قَلِيلًا ۖ لَّوْ أَنَّكُمْ كُنتُمْ تَعْلَمُونَ (المومنون:113۔114) ’’اللہ تعالیٰ ان سے پوچھے گا:"بتاؤ،زمین میں تم کتنے سال رہے؟" وہ کہیں گے"ایک دن یا دن کا بھی کچھ حصہ ہم وہاں ٹھرے ہیں،شمارکرنے والوں سے پوچھ لیجئے"ارشاد ہوگا:"تم تھوڑی ہی دیر دنیا میں ٹھہرے کاش تم نے جانا ہوتا.‘‘
وَيَوْمَ تَقُومُ السَّاعَةُ يُقْسِمُ الْمُجْرِ‌مُونَ مَا لَبِثُوا غَيْرَ‌ سَاعَةٍ ۚ كَذَٰلِكَ كَانُوا يُؤْفَكُونَ وَقَالَ الَّذِينَ أُوتُوا الْعِلْمَ وَالْإِيمَانَ لَقَدْ لَبِثْتُمْ فِي كِتَابِ اللَّـهِ إِلَىٰ يَوْمِ الْبَعْثِ ۖ فَهَـٰذَا يَوْمُ الْبَعْثِ وَلَـٰكِنَّكُمْ كُنتُمْ لَا تَعْلَمُونَ (الروم :55،56) ’’اور جس دن قیامت برپا ہو جائے گی گناه گار لوگ قسمیں کھائیں گے کہ (دنیا میں) ایک گھڑی کے سوا نہیں ٹھہرے، اسی طرح یہ بہکے ہوئے ہی رہے ، اور جن لوگوں کو علم اور ایمان دیا گیا وه جواب دیں گے کہ تم تو جیسا کہ کتاب اللہ میں ہے یوم قیامت تک ٹھہرے رہے۔ آج کا یہ دن قیامت ہی کا دن ہے لیکن تم تو یقین ہی نہیں مانتے تھے.‘‘
قَالُوا يَا وَيْلَنَا مَن بَعَثَنَا مِن مَّرْ‌قَدِنَا ۜ ۗ هَـٰذَا مَا وَعَدَ الرَّ‌حْمَـٰنُ وَصَدَقَ الْمُرْ‌سَلُونَ(یٰسین:52) ’’کہیں گے(ہائے افسوس) ہمیں ہماری خواب گاہوں سے کس نے(جگا) اٹھایا؟یہ وہی تو ہے جس کا اللہ نے وعدہ کیا تھا اور پیغمبروں نے سچ کیا تھا.‘‘
وَ لَوْ تَرٰٓی اِذْ یَتَوَفَّی الَّذِیْنَ کَفَرُوا الْمَلٰٓئِکَۃُ یَضْرِبُوْنَ وُجُوْھَھُمْ وَ اَدْبَارَھُمْ وَ ذُوْقُوْا عَذَابَ الْحَرِیْقِ (الانفال:۵۰) ’’کاش تم اس حالت کو دیکھ سکتے جبکہ فرشتے کافروں کی روحیں قبض کر رہے ہوتے ہیں وہ ان کے چہروں اور ان کے کولہوں پر ضربیں لگاتے ہیں اور کہتے جاتے ہیں ’’لو اب جلنے کی سزا بھگو‘‘۔

اگر ان اداکاروں کو قبر میں جانے کا خوف ہو ،اور یہ اللہ کی آیات کا مطالعہ کریں اور جان لیں کہ قبر ، آخرت ، یوم محشر ، یوم حساب کے لمحات کتنی سختی والے ہیں تو کبھی بھی ایسی ملحدانہ جگت بازی نہ کریں۔ الحاد ہمیشہ بد عقیدگی اور اللہ کی آیات احکامات پر کج روی اختیار کرنے سے ہی پھیلتا اور انسانی دل و دماغ میں جگہ بناتا ہے۔ ایک مشہور گائیک نصرت فتح علی خان نے ایک گمراہ شاعر ناز خیالوی کی نظم ’’تم اک گورکھ دھندہ ہو‘‘ گائی ۔ جسے آج بھی لوگ اپنی سوشل میڈیا والز ، ریلز اور ویڈیوز میں شئیر کرتے ہیں اور اس پر واہ واہ کر رہے ہوتے ہیں ۔ جبکہ اس نظم میں اس قدر خطر ناک طریقے سے الحاد کی تعلیم دی گئی ہے کہ الامان الحفیظ ۔
دیر و حرم کے جھگڑے مٹاتے نہیں ہو تم
جو اصل بات ہے وہ بتاتے نہیں ہو تم
حیراں ہوں میرے دل میں سمائے ہو کس طرح
حالانکہ دو جہاں میں سماتے نہیں ہو تم
یہ معبد و حرم ، یہ کلیسا و دہر کیوں
ہرجائی ہو جبھی تو بتاتے نہیں ہو تم
بس تم اک گورکھ دھندہ ہو
تم اک گورکھ دھندہ ہو

اس نظم میں شاعر کا مقصود معاذ اللہ یہ ہے کہ حق و باطل کے جھگڑے تم نے جان بوجھ کر رکھے ہیں ۔ فلسفہ آزمائش کوئی چیز نہیں ۔ یہاں پر شاعر اس بات کا اقرار کر رہا ہے کہ جو رب پوری کائنات میں نظر نہیں آتا وہ کس طرح میرے چھوٹے سے دل میں سما گیا ۔ یہ مذاہب کی جنگ محض کھیل تماشا ہے اور تمہاری ذات ایک مشکوک کاروبار ہے ۔ انا للہ وانا الیہ راجعون ۔
جبکہ اللہ نے قرآن میں ارشاد فرمایا کہ اللہ نے دین مکمل کر دیا ہے: اَلْیَوْمَ اَكْمَلْتُ لَكُمْ دِیْنَكُمْ وَ اَتْمَمْتُ عَلَیْكُمْ نِعْمَتِیْ وَ رَضِیْتُ لَكُمُ الْاِسْلَامَ دِیْنًاؕ-فَمَنِ اضْطُرَّ فِیْ مَخْمَصَةٍ غَیْرَ مُتَجَانِفٍ لِّاِثْمٍۙ-فَاِنَّ اللّٰهَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ(المائدہ:3) ’’آج میں نے تمہارے لئے تمہارا دین مکمل کردیا اور میں نے تم پر اپنی نعمت پوری کردی اور تمہارے لئے اسلام کو دین پسند کیا تو جو بھوک پیاس کی شدت میں مجبور ہواس حال میں کہ گناہ کی طرف مائل نہ ہو (تو وہ کھا سکتا ہے۔) تو بیشک اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔ ‘‘

جبکہ اللہ نے قرآن و حدیث میں سب حلال و حرام واضح فرما دیا ۔ عبادات اور معاملات کو چلانے کے طریقے واضح کر دیئے ۔ اختیار دے دیا گیا ایک راستہ دیکھا دیا گیا اب جو چاہے نیک عمل کرے جو چاہے برے ۔ اس کو روز محشر حساب دیا جائے گا ۔ نتیجہ دیا جائے گا جنت دوزخ دی جائے گی : إِنَّ هَٰذَا الْقُرْآنَ يَهْدِي لِلَّتِي هِيَ أَقْوَمُ وَيُبَشِّرُ الْمُؤْمِنِينَ الَّذِينَ يَعْمَلُونَ الصَّالِحَاتِ أَنَّ لَهُمْ أَجْرًا كَبِيرًا(الاسراء) ’’بلاشبہ یہ قرآن اس (راستے) کی ہدایت دیتا ہے جو سب سے سیدھا ہے اور ان ایمان والوں کو جو نیک اعمال کرتے ہیں، بشارت دیتا ہے کہ بے شک ان کے لیے بہت بڑا اجر ہے۔‘‘ اللہ نے یہ بھی واضح فرما دیا کہ اللہ کے علاوہ تمام معبود باطل ہیں اور اگر معبود باطل ہیں تو ان کی عبادتوں کی جگہیں اور عبادتوں کے طریقے بالاولیٰ باطل ہیں: وَاتَّخَذُوا مِن دُونِهِ آلِهَةً لَّا يَخْلُقُونَ شَيْئًا وَهُمْ يُخْلَقُونَ وَلَا يَمْلِكُونَ لِأَنفُسِهِمْ ضَرًّا وَلَا نَفْعًا وَلَا يَمْلِكُونَ مَوْتًا وَلَا حَيَاةً وَلَا نُشُورًا(الفرقان:3) ’’اور انھوں نے اس کے سوا کئی اور معبود بنالیے، جو کوئی چیز پیدا نہیں کرتے اور وہ خود پیدا کیے جاتے ہیں اور اپنے لیے نہ کسی نقصان کے مالک ہیں اور نہ نفع کے اور نہ کسی موت کے مالک ہیں اور نہ زندگی کے اور نہ اٹھائے جانے کے۔‘‘

جب لوگ اپنا زیادہ تر وقت ایسے لوگوں کےلکھے ہوئے مواد پڑھیں گے سنیں گے اور ان کو فلمایا ہوا دیکھیں گے جن کو عقیدہ توحید اور ایمانیات کے الف ب کا بھی علم نہیں ہو گا ۔ اور پھر اس میں لکھی ، پڑھی اور بکی جانے والی کفریات کو برداشت کرتے رہیں گے نہ صرف برداشت کریں گے بلکہ اس پر خود قہقہے لگائیں گے اور یہ عذر پیش کریں گے کہ ہم کیا جانیں کہ دین اس بارے میں کیا حکم دیتا ہے ۔ تو پھر ایمان کی اصل حالت اور چاشنی سے لطف اندوز ہونا نا ممکن ہو جائے گا ۔ اور الحاد جیسی خطرناک نفسیاتی بیماری کی راہ ہموار ہو گی ۔ اگر ان گمراہ شاعروں اور ادیبوں کی بجائے آئمہ محدثین کا مطالعہ کیا جائے تو نہ صرف زندگی کے رازوں سے پردہ اٹھتا جائے گا بلکہ عقیدہ توحید جیسے نعمت سے انسان مالا مال ہو جائے گا اور رب تعالیٰ کی ذات و صفات کی معرفت حاصل کرے گا ۔ اللہ ہمیں اپنی معرفت حاصل کرنے والوں میں شامل کر دے آمین ۔

Comments

عبدالسلام فیصل

حافظ عبدالسلام فیصل کا تعلق پہلوانوں کے شہر گوجرانوالہ سے ہے۔ پنجاب یونیورسٹی سے ایم اے اسلامیات اور فلسفہ کی ڈگری حاصل کی ہے۔ ہفت روزہ اہلحدیث سے بطور لکھاری وابستہ ہیں۔ گزشتہ ایک دہائی سے سوشل میڈیا ایکٹوسٹ کے طور پر کام کر رہے ہیں۔ الحاد پر انھیں گہرا درک حاصل ہے، اس کے خلاف تحریر کے میدان میں سرگرم عمل ہیں۔

Click here to post a comment