ہوم << پہلا سلیوٹ - عفیفہ داؤد

پہلا سلیوٹ - عفیفہ داؤد

سیاہ چادر کے ہالے میں لپٹا وہ وجود ناک کی سیدھ میں متوازن چال چلتا یوں رواں تھا گویا منزل ایک دم صاف شفاف سامنے نظر آ رہی ہو۔ اطراف کی تاریکی، ماحول کی خاموشی اور ہوا کا سرد پن کوئی بھی چیز جیسے اس وجود کیلئے معنی نہ رکھتی تھی۔ مغرب کا وقت اختتام کے قریب تھا مگر موسم کے تیور عجب غضب ناک کیفیت پیش کر رہے تھے کہ گہری رات کا گمان ہونے لگا تھا۔ ہوا کی سنسناہٹ ہر گزرتے لمحے کے ساتھ شدید تر ہوتی چلی جا رہی تھی مگر وہ وجود غیر متزلزل ارادوں اور ناقابلِ شکست جرأت کا عملی نمونہ بنے چلتا جا رہا تھا کہ یکایک ان مضبوط قدموں کی رفتار میں کمی آئی اور پھر ہلکی لڑکھڑاہٹ کے بعد وہ قدم تھم گئے یوں جیسے زمین نے انھیں پوری شدت سے اپنے اندر جکڑ لیا ہو۔

عقب سے پڑتی زرد بلب کی روشنی نے اب منظر کو تھوڑا واضح کر دیا تھا جس کے سبب سیاہ چادر کے ہالے میں دمکتا وہ چہرہ صاف دکھائی دینے لگا تھا سانولی رنگت پر ستواں ناک لیے وہ گول چہرہ چند آوارہ لٹوں کے درمیان کسی مصور کے ہاتھوں کی شاہکار تخلیق محسوس ہوتا تھا۔ دیکھنے والے کو منجمد کر دینے والی چیز وہ گہری آنکھیں تھیں جن میں کچھ پا لینے کی چمک کے ساتھ ہلکی نمی کا امتزاج عجب دلفریب نظارہ پیش کر رہا تھا۔ قریب موجود درخت کے پتوں کا رقص شدت اختیار کرتا ماحول کی گھمبیرتا میں اضافہ کر رہا تھا۔ اس وجود کے رکے قدموں کے اردگرد ہر چند فٹ کے فاصلےکے بعد ابھری زمین اس بات کی گواہ تھی کہ اس زمین کی پرحدت کوکھ میں کئی ساکت وجود محوِ خواب ہیں۔ ایسے ہی ایک ابھار پر ہاتھ رکھے اب وہ وجود دوزانو زمین پر بیٹھا دکھائی دے رہا تھا اور آنکھوں کی نمی ٹپ ٹپ برستی چہرے سے ہوتی زمین کے اس ابھار میں گم ہونے لگی۔
"دادو! آپ کہا کرتے تھے اگر سو میں سے نوے پالو تو اس پر شکر ادا کرکے مغرور ہونے کے بجائے ان وجوہات پر غور کرو جن کی وجہ سے تم نے باقی کا دس گنوا دیا۔ کیوں کہ دس اگر نو بار مل کر سامنے آگیا تو تمہارا نوے بے وقعت ہو جائے گا۔آج زندگی میں پہلی بار آپ کی دعا نے سو کا سو پالیا۔ مبارکباد دینے والوں کے ہجوم میں کھڑی میں سوچتی رہ گئی کہ اگر اب آپ ہوتے تو کیا کہتے؟" سرگوشی کی صورت اس وجود نے ایک جملہ نہیں کئی جملے کہہ ڈالے یوں جیسے اس کے پاس کہنے کو بہت کچھ ہو مگر وقت کی قلت کے سبب کسی رکاوٹ کا خدشہ ہو۔

"دادو! ہمیں بچھڑے آج ایک سال مکمل ہوا۔ اس ایک سال میں میرے کئی امتحانات کے نتائج کے اعلانات ہوئے اور ہر بار میری نگاہوں نے حاضرینِ محفل میں آپ کو ڈھونڈا مگر ناکام لوٹیں۔" بہتے آنسو اب قطار در قطار ایک ہی رستے پر خاموشی سے محوِ سفر تھے جیسے اس گفتگو میں خلل پیدا کرنا ان کو خود بھی ناگوار گزرے گا۔
"آپ ہمیشہ کہا کرتے تھے کہ پُتر جس دن تو جینٹل لیڈی آفیسر بنے گی اس دن تجھے پہلا سلوٹ تیرا دادا مارے گا اور میں نے ہر بار آپ کو کہا کہ نہیں دادو پہلا سلیوٹ یہ جینٹل لیڈی آفیسر خود اپنے دادا کو مارے گی۔" بولتے بولتے اب اس کا گلا بیٹھنے لگا تھا۔
" آپ ۔۔۔۔۔ دادو آپ۔۔۔۔۔۔۔ ایک بار پھر ہار گئے۔۔۔۔۔ صرف اپنی دعا کے لفظوں کا مان رکھنے کو۔۔۔۔۔۔۔ تا کہ یہ پہلا سلیوٹ میرے حصے میں آئے اور میں اپنے کہے الفاظ پورے کر لوں۔۔۔۔۔۔۔۔ مگر دادو۔۔۔۔۔۔۔ یوں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یوں تو مت روٹھتے۔۔۔۔۔۔ آپ تو بن کہے سمجھ جایا کرتے تھے ناں۔۔۔۔۔۔۔ پھر یہ کیوں نہ سمجھے۔۔۔۔۔۔۔ کیوں نہ سمجھے کہ اس پہلے سلیوٹ کے بعد مجھے آپ کو گلے بھی لگانا تھا۔۔۔۔۔۔۔ مجھے آپ کا ہاتھ تھامے پہلی جوائننگ دینی تھی۔۔۔۔۔۔۔ مجھے اپنی وردی سب سے پہلے آپ کو دکھانا تھی۔۔۔۔۔۔ مجھے۔۔۔۔۔۔مجھے اپنے نام کا بیج آپ کے ہاتھوں اپنے سینے پر سجوانا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ سفر جس کا خواب آپ نے دیکھا تھا مجھے اس کی منزل تک آپ کے ساتھ پہنچنا تھا۔" بائیں ہاتھ سے بہتے آنسوؤں کی لکیر کا تسلسل بکھیرتے اب اسی ہاتھ کی پشت اس نے ہونٹوں کے کنارے پر جمائی۔
"مگر۔۔۔۔۔۔۔" گہری سانس بھرتی اب خود کو کسی حد تک سنھبالتی وہ مزید بولی۔
"آپ جہاں ہیں وہ بہترین جگہ ہے، مجھ سے دور صحیح مگر میرے ساتھ ہیں۔۔۔۔۔۔ دادو میں آپ کی موجودگی اور آپ کی دعاؤں کا حصار محسوس کر سکتی ہوں۔ آج آپ کی باوفا دعا ایک اور وعدہ وفا کرنے کو ہے۔" یہ الفاظ بولتی وہ اٹھ کھڑی ہوئی۔ دونوں ہاتھ دعا کی صورت اٹھائے چند پل آنکھیں موندھے کچھ پڑھنے کے بعد اب وہ کندھوں کے گرد لپٹی چادر ہٹا رہی تھی۔

اور پھر ایک عجیب نظارہ دیکھا گیا۔ فضا میں رقص کرتی ہوا بھی ساکت ہو گئی اور وردی میں موجود اس بیٹی نے اپنا پہلا سلیوٹ اپنے سامنے موجود اس خاموش قبر کے باسی کے نام کیا جو دعا کی کل کائنات تھے۔ واپس مڑتی اس لڑکی کی چال میں لڑکھڑاہٹ ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملتی تھی، فخر سے بلند سر کو دیکھ کر ہوا دوبارہ محوِ رقص تھی یقیناً اس قبر کا باسی بھی خوش تھا بے حد خوش۔۔۔۔۔ آسمان پر بلند ہوتے چاند نے بادلوں کے جھرمٹ سے باہر جھانکا اور اپنی روشنی سے اس قبر کے قطبے کو واضح کیا جہاں درج تھا: حافظ محمد علی یار