ہوم << بےترتیبی اور سائنس - محمد عبید

بےترتیبی اور سائنس - محمد عبید

رینڈم چیز میں تین خصوصیات کا ہونا ضروری ہے۔ اس میں کسی قسم کا بھی پیٹرن Pattern معلوم کرنا ناممکن ہوتا ہے، اس میں کوئی Regularities (باقاعدگی) نہیں ہوتی ہے اور اس نظام میں کسی قسم کی بھی پیشینگوئی کرنا یعنی Prediction کرنا ناممکن ہوتا ہے۔

اس کے برعکس سائنس انجام دینے کے لیے ان تینوں چیزوں کی ہی ضرورت رہتی ہے۔ سائنس کرتے وقت ہم چیزوں میں Patterns اور Regularities کو معلوم کر کے اس کی بنیاد پر Predictions یعنی پیشینگوئیاں کرتے ہیں۔ اگر ہماری کائنات رینڈم اصولوں پر چل رہی ہوتی تو سائنس کائنات کی تشریح سے مکمل طور پر ہی قاصر ہوتا کیونکہ جو حال میں ہو رہا ہے، ایسا مستقبل میں ہونا ضروری نہیں ہے اور ایسی حالت میں ہم یہ بھی یقین سے نہیں کہ سکتے ہیں کہ ماضی میں اسی طرح ہی ہوا ہوگا جیسے حال میں ہو رہا ہے۔

رینڈم کائنات میں ماضی کا علم حاصل کرنا اور مستقبل کی پیشینگوئی کرنا مکمل طور پر ناممکن ہی بن جاتا ہے لیکن حقیقت حال یہ ہے کہ ہم سائنس کی مدد سے کائنات میں آج سے لاکھوں بلکہ کروڑوں بلکہ اربوں سال پہلے ہوئے واقعات کو معلوم کرنے کی طاقت رکھتے ہیں اور اسی طرح کروڑوں سال بعد میں ہونے والی چیزوں کی پیشینگوئیاں بھی کرتے ہیں۔ حیران کن طور پر ہماری اکثر پیشینگوئیاں درست ثابت ہوتی ہے۔

سائنس و ٹیکنالوجی کی موجودہ ساری معراج اس وجہ سے ہی ممکن ہے کہ سائنس میں پیشینگوئی کی طاقت موجود ہے اور اگر سائنس سے اس پیشینگوئی کو نکال دیا جائے تو سائنس سائنس ہی نہیں رہتی ہے بلکہ Psudoscience بن جاتی ہے اور پیشینگوئی ایسے نظام میں کرنا جو کسی قسم کے Pattern اور Regularities کو فالو نہیں کرتا ہے مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن ہے۔ ان ساری چیزوں سے واضح ہوتا ہے کہ ہمارے کائنات کا نظام رینڈم اور بے ترتیب نہیں ہے۔ بالفرض اگر ہماری کائنات میں کچھ ایسے مظاہر موجود ہے کہ جس کے پیچھے کے پیٹرن یا Regularities کو تاحال ہم مکمل درستگی سے معلوم نہیں کر پائے ہیں تو وہ کائنات کو رینڈم نہیں بنا دیتا ہے بلکہ وہ ہمارے علم میں موجود ایک خلا کا نام ہے۔

اس کو رینڈم کہ دینا ہماری اس بارے میں جہالت یا کم علمی کو ظاہر کرتا ہے نہ کہ اسے حقیقتاً رینڈم ثابت کرتا ہے کیونکہ رینڈمنس کے درست ہوتے ہوئے ہم سائنس کرنا تو درکنار بلکہ ایک معقول ورلڈویو تک نہیں بنا سکتے ہیں۔ باقی ہماری کائنات میں موجود یہ پیٹرنز اور Regularities محض ہماری دماغ کی اختراعات نہیں ہے بلکہ ایک بیرونی حقیقت ہے جسے ہم مختلف قسم کی پیشینگوئیوں کی مدد سے سینکڑوں نہیں بلکہ لاکھوں بار Test کر چکے ہیں اور ہر بار ہی اس نے ہماری توقعات کے عین مطابق نتائج دیے ہیں اور اپنے آپ کو ایک مصدقہ حقیقت کے طور پر بار بار منوایا ہے۔

ایک مخصوص طبقے کا اس بنیاد پر کائنات کو رینڈم کہنا کہ یہ ہماری خواہشات کے مکمل برعکس ایک خاص طریقہ سے اور سردمہری سے ہر بار اسی خاص طریقہ سے ہی کام کرتا ہے، رینڈمنس کے لیے مضحکہ خیز دلیل ہے۔ دنیا کا کوئی انسان کائنات کو محض اس وجہ سے نان رینڈم نہیں سمجھتا ہے کہ وہ ہماری خواہشات کے مطابق کام کرتی ہے بلکہ اسے صرف اس وجہ سے ہی نان رینڈم کہتا ہے کہ وہ حقیقی قوانین قدرت یعنی کہ پیٹرنز اور Regularities کو فالو کرتی ہے۔

یہ کوئی بھی نہیں کہتا ہے کہ کائنات کے ہر ذرہ میں جذبات ہے اور یہ ہماری خواہشات کے مطابق ہی کام کرتی ہے۔ ایسا صرف بالی ووڈ اداکار شاہ رخ خان نے کہا تھا لیکن وہ بھی کسی سائنسی سیمینار میں نہیں کہا تھا بلکہ ایک رومینٹک مووی کے کردار کے طور پر کہا تھا کہ
"اگر کسی چیز کو دل سے چاہو تو پوری کائنات اسے تم سے ملانے کی کوشش میں لگ جاتی ہے".

میری رینڈمنس کے حوالے سے پہلے کی ایک پوسٹ مشہور فرانسیسی ریاضی دان Laplace کے مطابق کائنات میں کوئی بھی چیز یا کام Random نہیں ہے۔ اسکے مطابق کسی چیز کو Random کہ دینا بنیادی طور پر ہماری اپنی جہالت کا مظہر ہے یعنی ہم جس چیز کو بھی ابھی تک مکمل طور پر سمجھنے سے قاصر ہوتے ہیں یا اس بارے میں ہماری معلومات محدود ہوتی ہے تو ہم اپنی علم کی اس خلا کو Randomness کا نام دے دیتے ہیں۔

اس کے مطابق فرض کریں اگر کوئی ایسی طاقت موجود ہیں جس کو کائنات کے ہر ذرہ کی پوزیشن اور رفتار اور اس پر لگنے والی تمام طاقتوں کا مکمل اور درست علم ہیں تو وہ طاقت بغیر کسی معمولی خطا کے اور مکمل Accuracy کے ساتھ کائنات کے مستقبل کو پہلے سے ہی جان سکتی ہے اور اس کے علاوہ وہ ان معلومات کے سبب کائنات کے ماضی کو بھی مکمل حقیقت اور Perfect accuracy کے ساتھ معلوم کر سکتی ہے۔ اس کے مطابق کائنات کی ہر چیز اور ہر عمل کے پیچھے فکس اور Deterministic قوانین ہیں جن کے تحت یہ کائنات چل رہی ہے اور Randomness صرف ہمارا ایک illusion ہے۔ مندرجہ ذیل مثالوں سے آپ آسانی سے سمجھ جائیں گے:

جب سنوکر کا کھلاڑی شاٹ لگاتا ہے تو بظاہر گیندیں مختلف سمتوں میں جاتی ہیں۔ ایک عام شخص اس کو دیکھ کر یہی کہے گا کہ گیندیں بے ترتیب (رینڈملی) مختلف سمتوں میں جاتی ہیں، مگر ایک طبیعیات دان (فزسسٹ) کے نزدیک ایسا نہیں ہے۔ حقیقت میں گیندوں کی سمت اور رفتار کا انحصار اس بات پر ہوتا ہے کہ ان پر کتنی طاقت لگائی گئی اور وہ طاقت کس زاویے سے لگائی گئی ہے۔ اگر ہم ان تمام عوامل کو درستگی سے جان سکیں تو یہ ممکن ہے کہ پہلے سے ہی معلوم کر سکیں کہ ہر گیند کہاں جائے گی۔لیکن چونکہ ہم ان تمام چیزوں کو مکمل درستگی کے ساتھ نہیں جان پاتے، اس لیے یہ عمل ہمیں بے ترتیب نظر آتا ہے، حالانکہ حقیقت میں یہ بالکل بھی بے ترتیب یعنی random نہیں ہوتا ہے۔

اسی طرح، جب کوئی شخص لڈو کے ڈائس کو ہوا میں اچھالتا ہے تو ہمیں یہ ایک بے ترتیب اور random عمل لگتا ہے اور ہم سمجھتے ہیں کہ کسی بھی طرف کا اوپر آنا ممکن ہے۔ مگر اگر ہمیں ڈائس پر اثر انداز ہونے والی مختلف قسم کی قوتوں، اس کی ابتدائی رفتار، اور دیگر عوامل کا درست علم ہو جائے تو یہ عمل بھی بے ترتیب نہیں رہے گا۔ بلکہ، ہم Perfect accuracy کے ساتھ یہ معلوم کر سکیں گے کہ کون سی سائیڈ اوپر آئے گی اور یہ عمل random نہیں رہے گا۔

اسی طرح جب ہم ایک پتھر کو پانی میں پھینکتے ہیں، تو اس کے گرنے سے پانی میں لہریں پیدا ہوتی ہیں۔ ہمیں یہ لہریں بے ترتیب نظر آتی ہیں، مگر حقیقت میں ان کا سائز، رفتار اور سمت پتھر کی شکل، وزن، اور پانی میں گرنے کے زاویے پر منحصر ہوتا ہے۔ اگر ہم ان تمام چیزوں کو درستگی سے جان لیں تو ہم پیش گوئی کر سکتے ہیں کہ پانی میں لہریں کہاں تک جائیں گی اور کیسے پھیلیں گی۔

خزاں کے موسم میں درختوں کے پتے گرنے لگتے ہیں اور ہمیں یوں لگتا ہے کہ وہ ہوا میں بے ترتیب random سمتوں میں اڑ رہے ہیں۔ مگر دراصل، پتے کے گرنے کی سمت اور رفتار ہوا کی رفتار، ہوا کا دباؤ، پتے کی شکل اور وزن جیسے عوامل پر منحصر ہوتی ہے۔ اگر ہم ان عوامل کو سمجھ لیں تو ہم پیش گوئی کر سکتے ہیں کہ پتہ کہاں گرے گا۔

جب فٹبال کھلاڑی گیند کو کک لگاتا ہے، تو ہمیں گیند کی سمت اور رفتار کا اندازہ نہیں ہوتا۔ مگر حقیقت میں گیند کی سمت اور رفتار اس پر لگائی گئی طاقت، کک کا زاویہ، اور ہوا کی مزاحمت جیسے عوامل پر منحصر ہوتی ہے۔ اگر ہم ان سب عوامل کو صحیح طور پر سمجھ لیں تو ہم پیشین گوئی کر سکتے ہیں کہ گیند کس سمت میں اور کتنی دور جائے گی۔

ان ساری مثالوں سے صرف ایک بات سمجھانا مقصود ہے اور وہ یہ کہ جیسے ہی کسی چیز کے بارے میں ہمارے علم میں اضافہ ہوتا جاتا ہے اسے سے ویسے ہی randomness ختم ہوتی جاتی ہے اور Randomness حقیقت میں کئی وجود نہیں رکھتی ہے اور یہ صرف ہمارے نہ جاننے اور جہالت کا ایک لیبل ہے جو ہم چیزوں پر لگا دیتے ہیں۔

نوٹ: سائنس اور شماریات میں سے کچھ جگہوں پر رینڈم کا مطلب الگ ہوتا ہے۔ میں اس کی بات نہیں کر رہا ہوں۔ میں Intrinsic Randomness کی بات کر رہا ہوں جو کائنات سمیت ہر چیز کو رینڈم اور چانسز کا نتیجہ بتلاتا ہے۔