انسانی ذہن کو مسحور کرنے کے فن میں مہارت رکھنے والے افراد کبھی آزادی کے نام پر زنجیریں پہناتے ہیں، کبھی ترقی کے نام پر تنزلی کی راہ دکھاتے ہیں اور کبھی علم و شعور کے پردے میں لاعلمی اور گمراہی کی ترویج کرتے ہیں۔ یہی وہ فلسفہ ہے جس کے تحت انسانوں کو آہستہ آہستہ ایسی راہ پر گامزن کیا جاتا ہے، جہاں وہ نہ صرف اپنی اقدار سے محروم ہو جاتے ہیں بلکہ اپنے ہی دین، اپنی ہی ثقافت اور اپنی ہی پہچان کے دشمن بن بیٹھتے ہیں۔ اور یہی سفر وہ ہے جو ایک باشعور، سنجیدہ اور تعلیم یافتہ انسان کو گستاخی جیسے قبیح فعل کی جانب لے جاتا ہے۔ مگر یہ سفر اچانک طے نہیں ہوتا، بلکہ اس کے پیچھے ایک منظم سازش، ایک مخصوص ذہنی جال اور ایک تدریجی منصوبہ ہوتا ہے، جو ایک عام انسان کے ذہن کو مسخ کرکے اسے اپنے ایمان، اپنی اقدار اور اپنے نظریات کے خلاف کھڑا کر دیتا ہے۔ آج کے جدید دور میں، میڈیا، سوشل میڈیا اور دیگر ذرائع انہی ہتھیاروں کے طور پر استعمال ہو رہے ہیں، جہاں زہر کو شہد بنا کر پیش کیا جاتا ہے، اور سادہ دل لوگ اسے امرت سمجھ کر پی جاتے ہیں۔ اگر زہر کو زہر کا نام دے کر فروخت کیا جائے تو شاید یہ اتنا نقصان دہ نہ ہو، لیکن اگر اسے شہد کا نام دے کر شہد کی بوتل میں ڈال کر بیچا جائے، تو یہ زہر انتہائی خطرناک بن جاتا ہے، اور سادہ لوح افراد اس کا شکار ہو جاتے ہیں۔
جدید دور میں یہی وہ ہتھیار ہیں جنہیں انسانیت کے دشمنوں نے اپنایا ہے۔ انسانی حقوق کا نام لے کر اپنی غلیظ عادتوں اور جرائم کو چھپایا جاتا ہے۔ زندگی کا نام دے کر موت بانٹی جاتی ہے۔ دوا کے نام پر بیماری بیچی جاتی ہے، صحت کے نام پر کمزوریاں تقسیم کی جاتی ہیں، اور مدد کے نام پر افلاس پھیلایا جاتا ہے۔ اپنی ہوس کو پورا کرنے کے لیے ماڈرنزم، فیشن، اور دیگر ناموں کا سہارا لیا جاتا ہے۔ جنسی ہوس کو پورا کرنے کے لیے روشن خیالی کا لبادہ اوڑھا جاتا ہے۔ دوسرے لفظوں میں، جو بات کہی جاتی ہے، عمل اس کے برعکس کیا جاتا ہے۔ درحقیقت، سوشل میڈیا پر توہین رسالت، توہین اللہ، توہین قرآن، توہین اہلِ بیت، توہین امہات المؤمنین، توہین صحابہ اور توہین پرچمِ پاکستان کو نئی نسل کے ذہنوں میں انجیکٹ کرنے کے لیے یہی طریقے اپنائے جا رہے ہیں۔
برائی کی طرف راغب کرنے کی سازش برائی کو معاشرے میں عام کیا جاتا ہے، اسے فیشن کا درجہ دیا جاتا ہے۔ جب نوجوان نسل کے لیے یہ فخر کی علامت بنتی ہے، تو وہ اسے اپنانا شروع کر دیتے ہیں اور وقت کے ساتھ ساتھ اس میں غرق ہو جاتے ہیں۔ یہاں تک کہ یہ برائی کبھی ایک فرد کی زندگی چھین لیتی ہے اور کبھی پورے معاشرے کو اپنی لپیٹ میں لے لیتی ہے۔
ایسی منظم کاوشیں تمباکو نوشی کے کاروبار میں بھی نظر آتی ہیں، جہاں سگریٹ بیچنے والی کمپنیاں میڈیا کو استعمال کر کے ایسے حالات پیدا کرتی ہیں کہ نوجوان نسل اس جانب راغب ہو جائے۔ پہلے وہ دوستوں کی محفل میں فخر کے طور پر کبھی کبھار سگریٹ پیتے ہیں، پھر یہ عادت روزانہ ایک سگریٹ تک پہنچتی ہے اور وقت کے ساتھ یہ تعداد بڑھتی چلی جاتی ہے، یہاں تک کہ نشے کی یہ لَت چرس، ہیروئن، آئس اور دیگر مہلک نشوں تک لے جاتی ہے۔ آخرکار، یہی نوجوان گندگی میں بیٹھ کر اپنے جسم میں خود ٹیکے لگا رہا ہوتا ہے۔ یہ جاننے کے باوجود کہ یہ نشہ اس کی جان لے سکتا ہے، وہ اسے چھوڑ نہیں پاتا۔
انسانی ذہن سے کھیلنے کی شاید اس سے بڑی مثال موجود نہیں۔ بالکل اسی طرح، توہینِ رسالت کا یہ کھیل بھی انہی اصولوں پر تیار کیا گیا ہے۔ ہماری نوجوان نسل کے اندر بے حیائی کو منظم طریقے سے پھیلایا گیا، جس میں سوشل میڈیا، الیکٹرانک میڈیا، اور پرنٹ میڈیا نے بنیادی کردار ادا کیا۔ یہ بے حیائی بڑھتے بڑھتے فحاشی کی حدوں کو چھو گئی۔
پی ٹی اے (PTA) کی موجودہ رپورٹ کے مطابق، پاکستان میں تقریباً آٹھ کروڑ کے قریب سوشل میڈیا صارفین ہیں، جن میں سے روزانہ لاکھوں لوگ افراد فحش مواد دیکھنے کے لیے مخصوص ایپلیکیشنز کا استعمال کرتے ہیں۔ اگر ہم سنجیدگی سے غور کریں تو یہ محض ایک رپورٹ نہیں، بلکہ ہمارے معاشرے کی پوسٹ مارٹم رپورٹ ہے۔
ابتک کی تحقیق کے مطابق گستاخانہ مواد کی تشہیر کی سازش میں فحش مواد ایک بنیادی کردار ادا کر رہا ہے۔ یہ تمام فحش مواد اس مصنوعی ذہانت (آرٹیفیشل انٹیلیجنس) کے ساتھ مربوط ہے، جسے اس گستاخانہ مواد کی تخلیق کرنے والے افراد نے استعمال کیا ہے۔ اس سازش کو یوں سمجھا جا سکتا ہے کہ ایک شخص فحش تصاویر دیکھنا شروع کرتا ہے۔ جب وہ ایک حد تک ان تصاویر کو دیکھ چکتا ہے، تو اسے خودکار پیغامات کے ذریعے مخصوص گروپس میں شامل ہونے کی دعوت دی جاتی ہے، جہاں تصاویر کے ساتھ چیٹ کی سہولت بھی فراہم کی جاتی ہے۔ اس کے بعد، جب اس کی ہوس کو مزید بڑھا دیا جاتا ہے، تو اسے اگلے مرحلے پر لے جایا جاتا ہے، جہاں وائس چیٹ کی سہولت دی جاتی ہے۔ پھر، خودکار پیغامات کے ذریعے اسے ایک اور گروپ میں شامل کیا جاتا ہے، جہاں مخالف جنس براہ راست ویڈیو کال کے ذریعے اسے مزید ہوس پرست بنا دیتی ہے۔ یہ سازش یہاں ختم نہیں ہوتی، بلکہ اسے مزید گھناؤنے مراحل، جیسے ویڈیو چیٹ، سیکس چیٹ، اور دیگر غلیظ اقسام کی سرگرمیوں میں دھکیل دیا جاتا ہے۔ آخری مرحلے میں، اسے انسسٹ سیکس (محرمات کے ساتھ زنا) جیسے گروپس میں شامل کر کے انسانیت اور اخلاقیات کی تمام حدوں کو پامال کر دیا جاتا ہے۔ اس کے بعد، اسے ایک نئے گروپ میں منتقل کیا جاتا ہے، جسے "حجابی سیکس" کا نام دیا جاتا ہے۔ ان گروپس میں اسے گستاخانہ مواد کی تشہیر کا حصہ بنا دیا جاتا ہے، اور یوں وہ خود اس تشہیر کا آلہ کار بن جاتا ہے۔ یہ سلسلہ یہاں رکنے والا نہیں ہوتا؛ بلکہ وہ لوگ جو ان مراحل سے گزر چکے ہوتے ہیں، خود گستاخانہ مواد تخلیق کرنے لگتے ہیں۔ وہ اپنی بے حیائی اور گمراہی کو فخر کے ساتھ اپنے جیسے دیگر لوگوں میں پھیلاتے ہیں۔
اب ہم گستاخان کی طرف سے مؤقف کا جائزہ بھی لے لیتے ہیں۔
عدالتی سماعت کے دوران گستاخی کے ملزمان کی طرف سے تاحال کوئی ایسا موقف سامنے نہیں آیا کہ وہ مدعی حضرات کو ذاتی، مالی، جنسی، کاروباری یا روحانی حوالے سے جانتے ہوں، یا ان کے درمیان کوئی دشمنی ہو، جس کی بنیاد پر انھیں ان مقدمات میں جھوٹے طور پر ملوث کیا گیا ہو۔ بعض ملزمان نے تو عدالت کے سامنے اپنے جرم کا اعتراف بھی کیا ہے، اور کسی نے مدعی حضرات پر بے بنیاد الزامات کا دعویٰ بھی نہیں کیا۔ یہی وجہ ہے کہ ملزمان مقدمات کی سماعت میں دانستہ تاخیر چاہتے ہیں تاکہ کسی طرح فیصلے سے بچا جا سکے، اور ممکنہ بیرونی مدد کے سہارے ان مقدمات سے نکل سکیں۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ سائبر کرائم (FIA) کے ہر تھانے میں گریڈ 17 کے ایک ماہر نفسیات (سائیکولوجسٹ) کی خدمات موجود ہوتی ہیں، جو ملزمان کی ذہنی حالت کا تجزیہ کرتے ہیں۔ جب تک ملزم کو ذہنی طور پر صحت مند نہ پایا جائے، اس کے خلاف کوئی کارروائی عمل میں نہیں آتی۔ گستاخ ملزمان کے ورثاء کا موقف کا بھی مبنی بر جھوٹ ہوتا ہے۔ گستاخ ملزمان کے ورثاء کی جانب سے وقت گزرنے کے ساتھ مختلف بیانیے اختیار کیے جا رہے ہیں، جو بتدریج نئے پہلوؤں کے ساتھ سامنے آ رہے ہیں۔ ان بیانیوں میں ایک منظم ترقی دیکھی جا سکتی ہے، جنہیں کبھی ملزمان نے خود پیش نہیں کیا، بلکہ ان کے وکلاء اور ورثاء کے ذریعے پیش کیے جا رہے ہیں۔
ابتدائی طور پر یہ بیانیہ پیش کیا گیا کہ "FIA نے بے گناہ افراد کو اچانک گھروں سے اٹھا لیا"۔ بعد ازاں، اس میں تبدیلیاں کرتے ہوئے کہا گیا کہ یہ مقدمات ذاتی دشمنی کی بنا پر بنائے گئے ہیں۔ مثلاً:
- "مدعی نے ذاتی جھگڑوں کے باعث یہ مقدمہ درج کروایا"۔
- "ملزم کی بیوی نے مدعی کے ساتھ مل کر جھوٹے الزامات لگائے"۔
- "مقامی مخالفین نے FIA کے ساتھ ساز باز کر کے ملزم کو پھنسا دیا"۔
- "پیسوں کے لالچ میں بلا کر گرفتاری ڈال دی گئی"۔
- "تعلیمی مواقع کے نام پر بلا کر گرفتار کیا گیا"۔
- "کاروباری جھانسے میں لا کر مقدمہ بنایا گیا"۔
- "عیاشی یا جنسی تعلقات کے بہانے بلایا گیا اور FIA نے گرفتار کر لیا"۔
مزید پیچیدہ بیانیے اس وقت سامنے آئے جب ملزم کے اغوا اور غیر قانونی حراست کے الزامات لگائے گئے:
- "پرائیویٹ افراد نے ملزم کو اغوا کیا، غیر قانونی حراست میں رکھا، اور پھر FIA کے حوالے کر دیا"۔
- "راؤ گروپ نے اغوا کر کے اسلام آباد میں نجی ٹارچر سیل میں قید رکھا اور بعد میں FIA کے حوالے کیا"۔
- لیگل کمیشن آن بلاسفیمی نے نہ صرف ملزم کو اغوا کیا بلکہ تشدد کر کے کاغذات پر زبردستی دستخط کروائے، اور موبائل فون میں گستاخانہ مواد ڈال کر FIA کو دے دیا"
یہ بیانیہ اس وقت مزید پیچیدہ ہوا جب الزام لگایا گیا کہ ایک منظم گروہ ملزمان کو سازش کے تحت گستاخانہ مواد کے مقدمات میں ملوث کر رہا ہے۔
- ملزمان کے مطابق "راؤ گروپ کی خواتین نے دوستی، کاروبار، اور جنسی تعلقات کے جھانسے میں لا کر ملزم کو پھنسا دیا۔"
- "خواتین نے ملزم کو گستاخانہ مواد پر مبنی تصویر بھیجی، جس پر ملزم نے شدید احتجاج کیا۔"
- "بعد میں ان خواتین نے گفتگو ڈیلیٹ کر دی اور مواد سابقہ تاریخوں کے ساتھ موبائل میں ڈال دیا گیا۔"
- "ملزم پر شدید تشدد کر کے اسے FIA کے حوالے کیا گیا، اور اسے خود ساختہ مقدمے میں گرفتار کر کے جیل بھیج دیا گیا"۔
یہ بیانیہ وقت کے ساتھ ساتھ ایک مکمل کہانی کی صورت اختیار کر چکا ہے، جسے قانونی ماہرین، سہولت کار، اور مخصوص عقائد رکھنے والے افراد کی مدد سے تشکیل دیا جا رہا ہے۔ اس کہانی کے پیچھے موجود ہر کردار کا مقصد مختلف ہے، مگر ان کا مجموعی ہدف پاکستان کے امن، استحکام، اور ترقی کو نقصان پہنچانا معلوم ہوتا ہے۔ خصوصی طور پر، ایک مخصوص عقائد کے حامل گروپ کا مقصد ان عناصر کو ریلیف دلوانا ہے جو ختم نبوت جیسے اہم معاملات کو نقصان پہنچانے کے درپے ہیں۔ یہ لوگ نہ صرف اپنے مالی وسائل استعمال کر رہے ہیں بلکہ مدعی فریق پر دباؤ ڈالنے کی ناکام کوشش میں بھی لگے ہوئے ہیں تاکہ ان گستاخ ملزمان کو قانونی تحفظ فراہم کیا جا سکے۔
اگر توہینِ رسالت کو پاکستان میں روکنے کے لیے ٹھوس اقدامات نہ کیے گئے، تو اس کے سنگین نتائج سامنے آ سکتے ہیں۔ دینی لحاظ سے، یہ رویہ مسلمانوں کے ایمان کو مجروح کرنے اور ان کے جذبات کو مشتعل کرنے کا سبب بنے گا، جس سے معاشرے میں فرقہ واریت، تشدد اور اختلافات کو ہوا ملے گی۔ یہ دینِ اسلام کی حرمت اور ختمِ نبوت کی حفاظت کے لیے عوام کے غصے کو قابو سے باہر کر سکتا ہے، جس کے نتیجے میں ملک میں انتشار اور خانہ جنگی کی فضا پیدا ہو سکتی ہے۔
دنیاوی لحاظ سے، پاکستان کی شناخت، جو اسلامی جمہوریہ کی بنیاد پر ہے، شدید متاثر ہو گی۔ عالمی سطح پر پاکستان کو ایک غیر سنجیدہ، کمزور اور عدم برداشت پر مبنی ریاست کے طور پر دیکھا جا سکتا ہے، جس سے سفارتی تعلقات، تجارتی معاہدات اور بیرونی سرمایہ کاری پر منفی اثرات مرتب ہوں گے۔ مزید برآں، یہ مسئلہ نوجوان نسل کو گمراہ کرنے والے گروہوں کے لیے ایک ہتھیار بن سکتا ہے، جو سوشل میڈیا اور دیگر ذرائع سے مزید بدامنی پھیلانے کی سازشوں میں کامیاب ہو سکتے ہیں۔ اگر یہ سلسلہ جاری رہا، تو پاکستان نہ صرف اپنے مذہبی تشخص بلکہ اپنی سماجی اور اقتصادی بنیادوں کو بھی کھو سکتا ہے۔ اس لیے فوری طور پر مضبوط قوانین کے نفاذ اور ان کی مؤثر عملدرآمد کی ضرورت ہے تاکہ اس سنگین مسئلے کو روکا جا سکے۔
تبصرہ لکھیے