فیس کا آغاز ہوا تو تعلقات،رابطوں اور آگہی میں انقلاب آگیا، پہلی دفعہ ہوا کہ مشہور اور بہت دور شخصیات سے براہ راست رابطہ ممکن ہوگیا، تب فرینڈ ریکوئسٹ بھیجنے اور قبولنے میں ایک خاص طرح کی تھرل تھی۔
اس وقت فیس بک پر اصلی جوش و خروش تھا، تعارف تعلقات میں بدلے ، فیس بک کے ورچوئل رابطوں کو فزیکل بنانے کیلئے فیس بک سمٹ ہوئے،مختلف نظریات رکھنے والے آمنے سامنے ہوئے تو بڑے پرجوش مناظرے اور مباحثے بھی ہوئے، خیر یہ وقت بھی بیت گیا۔ پھر نئی نئی فیس بک کچھ کچھ پرانی ہوئی تو ہر چیز میں اعتدال آنے لگا، اس بچے کی طرح، جسے ہمیشہ سے شہر میں جانے کا شوق تھا ،مگرجس نے شہر جا کے دیکھا تو وہاں کا کھمبا بھی ویسا ہی لمبا اور وہاں کی روٹی بھی ویسی ہی گول تھی تو وہ شام کو گھر لوٹ آیا،فیس بک پر بھی انسانوں کی بنیادی صفات سامنے آنے لگیں اور بہت اچھے لگنے والے لوگ نارمل انسان لگنے لگے۔
شروع شروع کی گرمی جوش ایسی تھی کہ لمبے لمبے کمنٹ کئے جاتے، اپنا آپ اور اپنا علم و ادب دکھانے کے لئے خوب زور مارا جاتا، کئی لوگ تو اپنے کمنٹس سے ہی مقبول ہوگئے اور پھر آج والا وقت آگیا کہ لوگ روز کے راستے کی طرح یہاں کی بھی ہر چیز کے عادی ہوگئے اور حالت یہ ہوگئی کہ
اب ملاقات میں وہ گرمیِ جذبات کہاں
اب تو رکھنے وہ محبت کا بھرم آتے ہیں
اب تو بس پوسٹ پڑھتے ہیں اوربمشکل ان ری ایکشنری بٹنز میں سے کسی ایک کا انتخاب کرتے ہیں، جو شروع شروع میں صرف ایک ہی تھا، صرف لائک کا بٹن، تب تو اگر کوئی کامیاب ہوتا تھا یا مر جاتا تھا، مجبوری یہ تھی کہ اسے بس لائیک ہی کیا جا سکتا تھا، پھر ان بٹنز میں اصافہ ہوا ، لاسٹ ترین شائد کئیر والا بٹن آیا ، خیر اب لوگ عادی ہوگئے ، وہ چیزدیکھ کر گزر جاتے ہیں، بٹنز والا بنا بنایا ری ایکشن دینا بھی انھیں بوجھ اور بار محسوس ہوتا ہے دراصل یہی وہ خرابی ہے، جس کے بارے میں مجھے بات کرنا ہے، فیس بک بلکہ سوشل میڈیا کا الگورتھم یا کہہ لیجیے میکنزم اس طرح بنایا گیا ہے کہ جس چیز میں آپ دلچسپی لیں گے وہ آپ کو زیادہ دکھائی جائے گی، جس چیز میں آپ دلچسپی نہیں لیں گے ،وہ کم کرتے کرتے بالآخر آپ سے اوجھل ہو جائے گی۔ یہی وجہ ہے کہ سوشل میڈیا پر متنازع چیز زیادہ وائرل ہوتی ہے، اس میں وجہ اس کا متنازع ہونا نہیں ہوتا، بلکہ اس کا زیادہ ڈسکس ہونا ہوتا ہے، ظاہر جب اس پر فریقین کے کمنٹس آئیں گے ، وہ نیگیٹو ہوں یا پازیٹو، الگورتھم بس یہ دیکھتا ہے کہ یہ چیز لوگوں کی دلچسپی کا باعث بن رہی ہے چنانچہ وہ ہر ایک کو آگے سے آگے دکھاتا چلا جاتا ہے،جس چیز میں کوئی قابل کمنٹ بات یا تھم نیل میں لوگوں کی توجہ مبذول کروانے والی بات نہیں ہوگی، وہ وہیں کی وہیں پڑی رہ جائے گی۔
خیر بات یہ ہورہی تھی کہ اگر آپ ایسے لوگوں کو بھی صرف دیکھنے اور پڑھنے پر اکتفا کرتے ہیں ، جن سے آپ جڑے رہنا چاہتے ہیں تو ری ایکشن نہ دینے کے باعث کسی دن فیس بک وہ آپ کے سامنے نہیں لائے گی، چونکہ ہمارا معمول یہ ہے کہ سامنے آنے والی چیزوں کو ہی دیکھتے ہیں، تو ہم سمجھیں گے کہ اس نے شائد آج نہیں لکھا ہوگا، آہستہ آہستہ وہ ہمارے معمول سے ہی نکل جائے گا، آپ کبھی کال کرکے تو پوچھیں گے نہیں کہ وہ واقعی غائب ہے یا صرف آپ سے غائب کر دیا گیا ہے، یہ آپ کا بھی تجربہ ہوگا کہ کئی لوگ آہستہ آہستہ ہمارے سامنے سے چلے گئے اور ہم بھی ان کے بغیر ہی سوشل میڈیا کے عادی ہوتے چلے گئے، حالانکہ وہ کبھی ہمارے سوشل میڈیا کا بھرپور حصہ ہوتے تھے، نتیجہ یہ نکلا کہ آپ جنھیں اہم سمجھتے ہیں، جن کے ساتھ جڑے رہنا چاہتے ہیں، جن سے استفادہ کرنا چاہتے ہیں، ان کی پوسٹوں کو ضرور ری ایکشن دیجیے ، ورنہ جس طرح اصلی رشتوں کو پانی نہ دینے سے ان میں جان نہیں رہتی ، ویسے ہی ورچوئل دنیا کے رشتے بھی باقی نہیں رہتے۔ سو جنھیں بچانا یا بحال رکھنا ہو، انھیں کے متعلق اپنے ہونے کا فیس بک کو بتاتے رہئے، ورنہ فرینڈز لسٹ میں ہونے کے باوجود وہ آپ کی نظروں سے غائب کر دئیے جائیں گے۔سو اپنوں کو اپنے عمل سے گم ہونے سے بچانا آپ کی اپنی ذمے داری ہے۔
تبصرہ لکھیے