ہوم << کیا اردو ہندی کی بیساکھی پر چل رہی ہے؟ ایم اے فاروقی

کیا اردو ہندی کی بیساکھی پر چل رہی ہے؟ ایم اے فاروقی

سن ۱۹۷۶ یا ۷۷ کی بات ہے، میں الہ آباد سے بنارس آرہا تھا. شام کی پسنجر ٹرین تھی، کچھ لوگ میرے سامنے والی برتھ پر بیٹھے تھے ، لباس اور بات چیت سے لگا کہ مہذب اور تعلیم یافتہ لوگ ہیں. ٹرین چل پڑی تو وہ سب آپس میں باتیں کرنے لگے. ان کی باتوں سے اندازہ لگا کہ ان کا تعلق ہندی ادب سے ہے. ان میں سے تین اشخاص کا تعلق الہ آباد ہائی کورٹ سے تھااور بقیہ الہ آباد یونیورسٹی کےسمینار میں شرکت کر کے بنارس واپس جارہے تھے.

ہندی زبان کے فضائل اور مسائل پر ان کا مخاطبہ اور مکالمہ جاری تھا. میں چپ چاپ ان کی باتیں سنتا رہا، اثنائے گفتگو اردو کا بھی ذکر آیا، ایک صاحب فرمانے لگے کہ اردو تو ہندی کی بیساکھی پر چل رہی ہے، یہ بیساکھی ہٹ جائے تو اردو کا چلنا مشکل ہو جائے گا. ایک صاحب نے مصرعہ لگایا کہ صاحب اردو تو صرف مسلمانوں کی زبان ہے، وہی اردو بولتے اور سمجھتے ہیں ، اس کا رسم الخط بھی فارسی اور عربی سے ماخوذ ہے، ہم تو اسے ہندوستانی زبان ہی نہیں سمجھتے ہیں۔

عام طور پر میں ٹرین میں بڑی خاموشی سے سفر کرتا ہوں مگر اس قسم کا جملہ سن کر ضبط نہ کر سکا اور ان سب کی اجازت لے کر میں بھی شریک بحث ہوگیا. ان سے باری باری میں نے کچھ سوالات کیے، سوال و جواب کچھ اس طرح تھے
آپ کیا کرتے ہیں؟
میں وکیل ہوں.
جناب یہ وکیل کس زبان کا لفظ ہے؟ اچھا جانے دیجیے، الہ آباد آپ کیوں آئے تھے؟
وکیل ہوں، روزانہ آتا ہوں، آج تو کئی مقدموں کی تاریخیں ایک ساتھ پڑ گئی تھیں.
جناب! مقدمہ، تاریخ، روزانہ یہ الفاظ کس زبان کے ہیں؟
آپ کے بغل میں جو بیٹھے ہوئے ہیں، یہ کون ہیں؟
کہنے لگے: یہ میرے موکل یعنی کلائنٹ ہیں
یہ موکل اور یعنی بھی اردو ہی ہے.
یہ کیا پہنے ہوئے ہیں؟
یہ قمیص پہنے ہوئے ہیں.
اس میں کپڑے کا پیوند لگا ہوا ہے کیا؟
جواب ملا نہیں، یہ جیب ہے اور جیب میں قلم لگا ہے.
قمیص، جیب اور قلم، یہ سب تو اردو زبان کے الفاظ ہیں۔
سامنے برتھ پر بیٹھے ہوئے تیسرے شخص نے ہنس کر کہا: مہودے بس کریں، ہم نے مان لیا کہ ہندی اردو کی بیساکھی نہیں ہے.
میں نے بات کو آگے بڑھاتے ہوئے کہا:نہ اردو ہندی کی بیساکھی ہے نہ ہندی اردو کی بیساکھی ہے، یہ دو زبانیں ہیں جن میں لین دین چلتا رہتا ہے، اس طرح زبانیں اپنے الفاظ کے سرمائے کو بڑھاتی رہتی ہیں،جس طرح قومیں اور تہذیبیں لین دین کر تی ہیں.

ایک بات اور بتادوں.
آج سے آٹھ سو سال پہلے صرف ہندوی تھی، اس وقت نہ ہندی تھی نہ اردو، پھر یہی زبان ریختہ اور اردو کہلائی،ہندی کو تو فورٹ ولیم کالج نے جنم دیا. انگریز اور خود گاندھی جی دونوں کو ہندوستانی کہتے تھے. ہندی دیوناگری رسم الخط میں لکھی جانے لگی، سنسکرت اور علاقائی زبانوں کےالفاظ کو زیادہ سمیٹا. اردو نے فارسی رسم الخط کو اپنا یااور نہ صرف فارسی و عربی الفاظ سے اپنے دامن کو بھر ا بلکہ سنسکرت، ہندی سمیت تمام ہندوستانی زبانوں کے حسین الفاظ کو جذب کر لیا.

قوموں کے عروج و زوال کا اثر زبانوں پر بھی پڑتا ہے. کبھی اردو کا عروج تھا، آج ہندی قومی زبان بنی ہوئی ہے۔ ہندی میں اردو، فارسی، عربی الفاظ کی اس قدر کثرت ہے کہ اگر بر بنائے تعصب انھیں نکال دیں تو ہندی تہی دامن رہ جائے گی. ہندی کیا دیگر تمام ہندوستانی زبانوں میں بے شمار الفاظ عربی فارسی اور اردو کے ہیں، ان کے بغیر زبان کی گاڑی آگے بڑھ ہی نہیں سکتی ہے.

اور یہ جو فلمی دنیا ہے، اس کی کامیابیاں تو اردو ہی کے دم سے ہیں، بھلے فلموں کی زبان کے خانے میں ہندی لکھ دیں، لیکن جادو تو اردو ہی جگاتی ہے. جو لوگ کہتے ہیں کہ یہ صرف مسلمانوں کی زبان ہے، وہ زبانوں کی تاریخ سے ناواقف ہیں. دور کیوں جائیے اپنے لکھنؤ والے منشی نول کشور کو لے لیں، وہ سنسکرت اور ہندی کی جتنی کتابیں چھاپتے تھے، اس سے کہیں زیادہ اردو، فارسی اور عربی کی کتابیں چھاپتے تھے. یہ پنڈت دیا شنکر نسیم ، برج نرائن چکبست ، تیج بہادر سپرو، منشی پریم چند ،راجندر سنگھ بیدی ، کرشن چندر، بلونت سنگھ ، بلراج مین را، جگن ناتھ آزاد ، آنند نرائن ملا، دلی والے گلزار دہلوی، بالی وڈ والے گلزار اور ایسے ہزاروں عاشقان اردو کس مذہب سے ہیں. زبانوں اور مذہب میں مخاصمت، معاندت، منافست اور مسابقت نہیں ہوتی ہے. یہ نفرت اور معاندت صرف ہماری سوچ اور رویے میں ہوتی ہے۔