ہوم << نفرت کے مرض - عبیداللہ کیہر

نفرت کے مرض - عبیداللہ کیہر

ایک دولت مند میاں بیوی کی کہانی کچھ اس طرح سے ہے کہ ان کے پاس بہت جائیداد تھی، کاروبار تھا، روپے پیسے کی ریل پیل تھی، مگر بچہ ان کا صرف ایک ہی تھا اور وہ بھی بڑی منتوں مرادوں کے بعد پیدا ہوا تھا۔ چونکہ وہی ان کی ساری جائیداد کا اکلوتا وارث تھا اس لئے لاڈلا بھی بہت تھا۔ دونوں میاں بیوی اپنے اس اکلوتے بچے سے بہت محبت کرتے تھے۔ لیکن اس بچے کے ساتھ مسئلہ یہ تھا کہ وہ نہ کسی سے بات کرتا، نہ کبھی مسکراتا اور نہ اپنی جگہ سے ہلتا۔ بستر پر، کرسی پر یا وہیل چیئر پر اگر بیٹھا ہے تو وہاں سے اٹھتا ہی نہیں تھا۔ حالانکہ وہ جسمانی معذور نہیں تھا۔ اگر کوئی اس سے بات کرنے کی کوشش کرے تو اسے غصے اور نفرت کے ساتھ گھورتا۔ماں باپ بڑے پریشان رہتے کہ ہماری ساری دولت کا یہ اکیلا وارث اگر ہمیشہ اسی حالت میں رہا تو یہ تو سب کچھ برباد کر دے گا۔ وہ اس کا علاج کروانے کی بھی کوشش کرتے تھے۔ ڈاکٹروں حکیموں کے علاوہ پیروں فقیروں کے پاس بھی لے جاتے تھے، لیکن کسی کو سمجھ نہیں آتا تھا کہ یہ بچہ کیسے ٹھیک ہوگا۔

ایک دفعہ ایک ایسی نوکرانی ان کے پاس ملازمت کیلئے آئی کہ جس کا اپنا بھی اسی عمر کا بچہ تھا۔ وہ جب کام کرنے کے لئے ان کے گھر آتی تو اس بچے کو بھی ساتھ لاتی۔ وہ بچہ جب اس گھر میں داخل ہوتا تو اسے فطری طور پرجو سب سے دلچسپ چیز نظر آتی وہ اس گھر کے مالک کا بچہ ہی ہوتا۔ اپنا ہم عمر بچہ دیکھ کر وہ تیزی سے اس کی طرف لپکتا، اس سے کھیلنا اور باتیں کرنا چاہتا، لیکن وہ بچہ تو صرف دوسروں کو غصے سے دیکھنے، بات نہ کرنے اور اپنی جگہ سے نہ ہلنے کا عادی تھا۔ وہ نہ تو کسی سے بے تکلف ہوتا تھا نہ کسی کو قریب آنے دیتا تھا۔ چنانچہ جب یہ نوکرانی کا بچہ بھی اس کے قریب جاتا تو وہ اسے بھی غصے سے گھورتا۔ لیکن یہ بیچارہ پھر بھی ہنستا کھیلتا اس کے قریب جانے کی کوشش کرتا۔ ایک دن جب یہ اس کے بالکل قریب چلا گیا تو اُس نے پہلے تو غریب بچے کو غصے سے گھورا اور پھر ہاتھ اٹھا کر اسے زور کا تھپڑ مار دیا۔ جیسے ہی نوکرانی کے بچے کو تھپڑ پڑا وہ زور زور سے رونے لگا۔ وہ بیچارہ تو اس سے کھیلنے آیا تھا لیکن اس نے تو تھپڑ ہی مار دیا۔ لیکن ساتھ ہی ایک عجیب بات بھی ہوئی۔ نوکرانی کے بچے کے رونے پر مالک کا بچہ پہلے تو چونکا، پھر اس کے بچے کے چہرے پر شاید زندگی میں پہلی بار مسکراہٹ آ گئی۔ یعنی وہ بچہ جو پیدا ہونے کے بعد سے آج تک ہنسا ہی نہیں تھا، نوکرانی کے بچے کو روتا دیکھ کر اس کے چہرے پر پہلے تو مسکراہٹ آئی اور پھر وہ باقاعدہ کھلکھلانے لگا۔ نوکرانی کا بچہ جتنے زور سے روتا، مالک کا بچہ اتنے ہی دانت کھول کر ہنستا۔ نوکرانی اور بچے کے ماں باپ بھی یہ ہنسنے رونے کی آوازیں سن کر دوڑتے ہوئے وہاں آتے ہیں اور حیران ہو کر یہ تماشا دیکھنے لگے کہ نوکرانی کا بچہ رو رہا ہے اور مالک کا بچہ ہنس رہا ہے۔

امیر بچے کے ماں باپ جب یہ دیکھتے ہیں کہ ان کا بدمزاج منہ بسورتا مغرور بچہ آج زندگی میں پہلی بار کھکھلا رہا ہے، تو وہ دونوں معنی خیز نظروں سے ایک دوسرے کو دیکھتے ہیں۔ ان کے ذہن میں یکا یک ایک عجیب خیال آتا ہے۔ وہ نوکرانی کو دوسرے کمرے میں لے جا تے ہیں اور اس سے کہتے ہیں : ”ہماری گزارش ہے کہ آئندہ تم جب بھی کام پر آیا کرو تو اپنے اس بچے کو لازماً ساتھ لے کر آیا کرو۔ پھر تم گھر کا کام کرو یا نہ کرو تمہاری مرضی ہے، بس اپنے بچے کو ہمارے بچے کے پاس بھیج دیا کرو تاکہ وہ اسے تھپڑ مارے اور ہنسے۔ بس ہم چاہتے ہیں کہ کسی طرح ہمارا بچہ ہنسے، کیونکہ اِس بچے کا علاج شاید اسی بات میں ہے کہ یہ دوسرے بچوں کو مارے۔ شاید اسی حرکت میں اس کی خوشی پوشیدہ ہے۔ تم ہم سے جتنی چاہے تنخواہ لے لو، لیکن خدارا اس بچے کو روز یہاں لے کر آیا کرو۔ تمہارے بچے کو تھپڑ لگے تو برداشت کرلو کیونکہ اس کے نتیجے میں ہمارے بچے کا علاج ہو جائے گا، وہ زندگی کی طرف لوٹ آئے گا۔“

نوکرانی بیچاری تو یہ سن کر ہکا بکا ہی رہ جاتی ہے۔
”یہ کیسے ہو سکتا ہے صاحب؟ کوئی ماں کیسے یہ برداشت کر سکتی ہے کہ اس کے بچے کو کوئی تھپڑ مارے؟“
بچے کا باپ کہتا ہے : ”ہم تم کو دس گنا زیا دہ تنخواہ دینے کو تیار ہیں۔ ہم نے اس کا بہت علاج کروایا ہے، اسے کئی ڈاکٹروں کے پاس لے کر گئے ہیں، لیکن یہ خوش ہونے کو تیار ہی نہیں ہوا۔ بس آج پہلی بار یہ اس بچے کو مار کر خوش ہوا ہے۔ خدا کے واسطے تم اس وقت تک یہاں اپنے بچے کو لاتی رہو جب تک ہمارا بچہ ٹھیک نہ ہو جائے۔“

نوکرانی بیچاری بہت غریب ہوتی ہے۔ زیادہ تنخواہ کے لالچ میں دل پر پتھر رکھ کر یہ بات مان جاتی ہے۔ اب وہ روزانہ اپنے بچے کو ساتھ لاتی ہے اور اسے اُس مغرور بچے کے پاس چھوڑ دیتی ہے۔ وہ جیسے ہی اس کے قریب آتا ہے، یہ اسے گھور کر دیکھتا ہے، پھر زور کا تھپڑ مار دیتا ہے اور غریب بچے کے منہ بسور کر رونا شروع کرتے ہی یہ ہنسنے لگتا ہے۔ بس اسی عجیب ظالمانہ طریقے سے اس کا علاج چلتا رہتا ہے۔

بعد میں اس بچے کا کیا بنا؟ … وہ نارمل ہوا نہیں؟ … اس کا یہ عجیب علا ج کامیاب ہوا یہ نہیں ہوا؟ … یہ سب بعد کی باتیں ہیں۔ لیکن اس کہانی میں ہمارے لئے ایک عجیب حقیقت پوشیدہ ہے۔ ہم اپنے معاشرے میں اکثر ایسے لوگ دیکھتے ہیں جوعام طور پر اپنا منہ بسورے رہتے ہیں۔ انہیں ہر چیز بری لگتی ہے۔ لیکن جیسے ہی وہ کہیں کسی کو بے عزت ہوتا دیکھیں یا کسی کو لڑائی میں شکست کھاتا دیکھیں تو بڑا خوش ہوتے اور کھلکھلاتے ہیں۔ دفاتر میں بھی کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جو اپنے ساتھیوں کے خلاف کسی بھی قسم کی کاروائی ہوتی دیکھیں، باس کو انہیں ڈانٹتا دیکھیں یا کسی وجہ سے ان کی نوکری خطرے میں دیکھیں تو خوب کھلکھلاتے ہیں۔

یہی ہمارا عمومی قومی رویہ بھی ہے۔ یہاں نفرت کی دعوت سب سے زیادہ تیزی سے پھیلتی ہے۔ جو سیاست فریقین کو حقارت سے دیکھنے، ان کو برا بھلا کہنے، انہیں گالیاں دینے اور ان کی شکلیں بگاڑ کر پیش کرنے والی ہو، اس سیاست کی طرف لوگ تیزی سے لپکتے ہیں۔ نفرت کے سوداگر کے اطراف میں لوگ بہت جلدی سے جمع ہوجاتے ہیں۔
اس کی وجہ کیا ہے؟ …
اس کی وجہ ان کا احساسِ کمتری ہے۔
جب وہ اپنے احساسِ کمتری کو ختم نہیں کر پاتے، اپنی صلاحیتوں کو بڑھا نہیں سکتے، خود کو معاشرے کیلئے قابلِ قبول نہیں بنا پاتے، تو ان کے پاس خود کو اچھا ثابت کرنے کا صرف یہی راستہ رہ جاتا ہے کہ کسی نہ کسی طرح سے دوسروں کو برا ثابت کیا جائے۔ کسی طرح دوسرے قابلِ نفرت ہوجائیں۔

اب اگر دوسرا بظاہر برا اور قابلِ نفرت نہیں، تو پھر اس کی ٹوہ میں لگ کر کسی طرح اس کی کچھ خامیاں تلاش کی جاتی ہیں۔ انسان خطا کا پتلا ہے، کوئی نہ کوئی خامی تو ہوتی ہی ہے، عیب سے تو کوئی پاک نہیں۔ اس لئے بد نیت لوگوں کو کچھ نہ کچھ مل ہی جاتا ہے۔ پھر یہ تو سوشل میڈیا کا دور ہے۔ اپنے مخالف کی شکل کو بندر پر بنا دینا، کتے پر بنا دینا، تضحیک کرنا اور اخلاق سے گرے کمنٹ کرنا ویسے ہی عام ہے۔

جب میں یہ سب حرکتیں دیکھتا ہوں تو مجھے اس نوکرانی کے مظلوم بچے کی کہانی یاد آجاتی ہے جسے امیروں کا نفسیاتی مریض بچہ تھپڑ مار کر خوش ہوتا ہے۔ اس پاگل بچے کی خوشی نفرت میں پوشیدہ تھی۔ وہ نفرت کا مریض تھا۔ اسے اپنی تسکین کیلئے کوئی ایسی کمزور ہستی درکار تھی جس سے وہ نفرت کرے اور اسے تکلیف پہنچا نے کی کوشش کرے (بشرطیکہ وہ جواباً کچھ نہ کر سکے) اور یہ اپنی اس کمینی کامیابی پر خوب کھلکھلائے۔ ہماری قوم بھی اُس بیمار بچے کی طرح ہے۔ اسے بھی اپنی تسکین کیلئے کوئی قابلِ نفرت کردار چاہیے تاکہ وہ اس پر لعنت ملامت کر کے، اسے گالیاں دے کر، اس کی زندگی عذاب بنا کر، اس کی برائیوں کو نمایاں کر کے خوش ہو، کھلکھلائے اور اس شیطانی کارنامے پر سینہ تان کر گھومے۔ ان کے چہرے پر چھائی مردنی کسی سے نفرت کا موقع پاتے ہی یکدم غائب ہو جاتی ہے اور وہ ہشاش بشاش ہو کر فاتحانہ انداز میں ادھر ادھر دیکھنے لگتے ہیں۔ خدا کیلئے اپنے اندر کے اس نفسیاتی مریض بچے کے طرف توجہ دیں۔ نفرت کو علاج نہ بنائیں بلکہ محبت کے ذریعے علاج کی کوشش کریں۔

Comments

Avatar photo

عبیداللہ کیہر

عبیداللہ کیہر اردو کے معروف ادیب، سیاح، سفرنامہ نگار، کالم نگار، فوٹو گرافر، اور ڈاکومینٹری فلم میکر ہیں۔ 16 کتابوں کے مصنف ہیں۔ 2002ء میں عبید اللہ کیہر کی پہلی کتاب ”دریا دریا وادی وادی“ کمپیوٹر سی ڈی پر ایک انوکھے انداز میں شائع ہوئی جسے اکادمی ادبیات پاکستان اور مقتدرہ قومی زبان نے ”اردو کی پہلی ڈیجیٹل کتاب“ کا نام دیا۔ روایتی انداز میں کاغذ پر ان کی پہلی کتاب ”سفر کہانیاں“ 2012ء میں شائع ہوئی۔

Click here to post a comment