ہوم << کم خرچ بالانشین نیکی - ڈاکٹر بشریٰ تسنیم

کم خرچ بالانشین نیکی - ڈاکٹر بشریٰ تسنیم

اللہ رب العزت نے فرمایا: "ہرشخص کسی نہ کسی (عمل) کی طرف متوجہ رہتا ہے۔ پس (تمہیں چاہیے کہ) نیکیوں کی طرف سبقت لے جانے کی کوشش کرو۔ (سورة البقرہ: 2)

عمومی طور پہ ہر ہوش مند مسلمان نیکیوں میں سبقت لے جانے والا ہوتا ہے اور ہونا بھی چاہیے۔ مگر دنیا میں ہم ہر طرح کی نیکی نہیں کر سکتے۔ کیونکہ ہر انسان کی قابلیت، صلاحیت اور حالات مختلف ہوتے ہیں۔ مال دار، مال خرچ کر سکتا ہے مفلس نہیں کر سکتا۔ عالم علم پھیلا سکتا ہے جاہل سے یہ کام نہیں ہو سکتا۔ صحت مند دوسروں کے لیے جسمانی بھاگ دوڑ کر سکتا ہے مریض کے لیے یہ ممکن نہیں۔ گونگا زبان سے تقریر نہیں کر سکتا نابینا راستہ نہیں بتا سکتا اسی طرح بے شمار باتیں ہو سکتی ہیں جو ہر کسی کے دائرہ کار میں نہیں ہوں۔

اللہ الرحمان الرحیم نے اسی لیے انسانوں کو باور کروا دیا کہ: "اللہ کسی متنفّس پر اُس کی مقدرت سے بڑھ کر ذمّہ داری کا بوجھ نہیں ڈالتا۔ (سورة البقرہ: 286)
اور بازپرس اسی صلاحیت کی ہوگی جو عطا کی گئی ہوگی مگر مؤمن تو نیکیوں کا حریص ہوتا ہے ہر قسم کی نیکی میں حصہ دار بننا چاہتا ہے۔ اس خواہش کو پورا کرنے کا "کم خرچ بالانشیں" کے مصداق ایک فارمولا ہے وہ یہ کہ: ہم ہر مومن کے نیک کام کو سراہیں، خوش ہوں، اس کی قبولیت کے لیے دعا کریں، اور حوصلہ افزائی کریں تو ہم بھی اس نیک کام میں حصہ دار ہو سکتے ہیں۔

زندگی کا اصل مزہ حقیقی اور بے لوث تعلقات بنانے میں ہے کیونکہ ایسے تعلقات ہی ہماری زندگی کے طوفانوں کے سامنے سیسہ پلائی دیوار کا کردار ادا کرسکتے ہیں۔ ہم ایک نیک مقصد کے لیے وقف ہونے والوں کو خوشدلی سے حوصلہ افزائی کر کے ایسی خوشی میں حصہ دار ہو سکتے ہیں جس کا پھل ہمیں نہ صرف دنیا میں نیک نام احباب کی صورت میں ملتا ہے بلکہ قیامت والے دن ہم اللہ تعالیٰ کی ذات کے سامنے سرخرو ہوں گے اور متقی لوگوں کی معیت نصیب ہوگی۔ ایسے لوگ جو حشر کی ہولناکیوں میں ہمارا حوصلہ بڑھائیں گے اور ہاتھ تھامیں گے، جب حسب نسب سے جڑے رشتے منہ پھیر لیں گے۔ گویا کہ سب سے زیادہ ضروری چیز زندگی میں دوسروں کی معمولی اور مثبت صالح کارکردگی کو سراہنا ہے۔ دوسروں کو ماننا، ان کو اہمیت دینا، ان کو سراہنا، ان کو تسلیم کرنا "للہ اور فی اللہ" ایسی محبت ہے جسے ہی انسانیت کی معراج کہا جاسکتا ہے۔

ہم دوسرے کی نیکی یا حسن کارکردگی کو سراہنے میں کنجوسی کرتے ہیں اور ہم یہ سمجھتے ہیں کہ منہ پہ تعریف کرنے کو ناپسند کیا گیا ہے۔ حالانکہ یہ بات چاپلوسی، خوشامد کرنے پہ صادق آتی ہے۔ خود نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم اپنے ساتھیوں کی صالحیت کو سراہتے اور حوصلہ افزائی کرتے تھے۔
حقوق العباد میں کچھ حقوق ایسے ہوتے ہیں جن کو ادا کرنا ہر کسی کے بس میں نہیں ہوتا مثلاً وضع حمل کے وقت عورت کی مدد کرنا۔ میت کو نہلانا، کسی معذور بوڑھے بیمار کی صفائی ستھرائی، غسل وغیرہ کروانا۔ کسی ذہنی طور پہ معذور کو سنبھالنا، جو لوگ یہ کام کرتے ہیں ان کا اجر دوسری عبادتوں سے زیادہ ہے۔ ایسے لوگوں کے لیے دعا، حوصلہ افزائی، اور ہر ممکن تعاون کرنے سے ہم بھی ان کاموں میں حصہ دار ہو سکتے ہیں۔

ہم جانتے ہیں کہ ایک بہت بڑے پیمانے پر ہونے والے پراجیکٹ کو کوئی بھی انسان اکیلا مکمل نہیں کر سکتا مثلاً ایک مسجد، مدرسے، ہسپتال کی تعمیر یا رفاہ عامہ کے کسی بھی کام میں ہزاروں لوگوں کا کم یا زیادہ حصہ ہوتا ہے۔ ہزاروں لوگوں کے اس پراجیکٹ میں کیا نیتیں اور ارادے ہیں کوئی نہیں جانتا، مگر نیک نیتی سے کام کرنے والا ایک ان پڑھ معمولی مزدور اللہ کی رضا چاہنے کی نیت کرکے آخرت میں سب پہ بازی لے جا سکتا ہے۔

اللہ رب العزت کے ہاں کام کا اعلیٰ معیار دھن دولت یا وقت زیادہ لگانے سے تعلق نہیں رکھتا، اس کے ہاں عمل صالح کی کثیر تعداد نہیں بلکہ نیت کا خالص ہونا وزن رکھتا ہے۔ ذرہ برابر نیکی پہاڑوں کے وزن پہ ہو سکتی ہے اور بظاہر پہاڑوں جیسی نیکیاں بے وزن راکھ بن سکتی ہیں۔
سمندرمیں ایک قطرہ مل جائے تو وہ سمندر ہی بن جاتا ہے اور قطرہ تنہا ہو تو پلک جھپکتے میں فنا ہو جاتا ہے اس لیے مومن اپنی معمولی سی کوشش کو بھی رائگاں نہیں ہونے دیتا۔ وہ حریص ہوتا ہے کہ وہ اپنے سرمائہ زندگی کا ہر لمحہ کسی بڑے احسن پراجیکٹ کے سمندر میں ملا دے۔
دعائے خیر اور شکر گزاری وہ عمل ہے جس کے ذریعے ہم صدیوں پہلے گزرنے والے صالح لوگوں کی نیکیوں میں حصہ دار ہو سکتے ہیں۔

صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین اور ان کے بعد کے ہر دور کے مصلح، عالم دین جن کے ذریعے سے ہم تک دین پہنچا ان کے درجات کی بلندی کی دعا کرنا، جو کتاب پڑھی جائے اس کے مصنف کی تصنیف کی قبولیت کے لیے دعا کرنا، ان کے لیے صدقہ جاریہ بننا اور ان کے گروہ میں شامل ہو جانے کی کوشش قابل قدر گردانی جا سکتی ہے۔ ہر کسی کی چھوٹی یا بڑی نیکی ایک زنجیر کی طرح ایک دوسرے سے باہم ربط رکھتی ہے۔ یہی وہ روحانی تعلق ہے جو مومنوں میں دور بیٹھے ہو جاتا ہے اور زمانے کے کم یا زیادہ فاصلے کوئی معنی نہیں رکھتے۔ انبیاء، صدیقین، شھداء اور صالحین کا ساتھ بھی اسی طرح نصیب ہوگا۔

سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے عرض کیا: "اے اللہ کے رسول! اگر کوئی شخص کسی قوم سے محبت کرتا ہے لیکن ان جیسے اعمال کرنے کی طاقت نہیں رکھتا تو؟" آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اے ابوذر! تم اسی کے ساتھ ہو گے جس سے محبت کرتے ہو۔" میں نے عرض کیا: "میں اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول سے محبت کرتا ہوں۔" آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اے ابوذر! تم جس سے محبت کرتے ہو (روزِ قیامت) اسی کے ساتھ ہو گے۔" (الادب المفرد/ كِتَابُ الزِّيَارَةِ/ حدیث: 351)

رمضان المبارک کا ہر لمحہ نیکیوں میں سبقت لے جانے کا نادر موقع فراہم کرتا ہے۔ روزہ داروں کی عبادتوں میں اپنا حصہ لگائیے، ان کی خدمت کرکے، ان سے محبت کا اظہار کرکے، ان کی عبادتوں کی قبولیت کی دعا کرکے۔ خدمتِ خلق کے ذریعے قربت الٰہی سے دل روشن کیجیے۔ اسوہ حسنہ کی روشنی میں اپنے شب و روز کو منور کیجیے۔ طاق راتوں میں نیکیوں میں سبقت لے جانے کی ایک کوشش یہ دعا کرکے بھی کر لی جائے کہ: "اے اللہ اس آسمان کے نیچے کسی بھی زمانے میں کسی مسلمان نے بھی جو کوئی نیکی کی ہے وہ قبول کر لیجیےاور ان کی مغفرت کر دیجیے۔ اور ہمیں ان کے لیے صدقہ جاریہ بنائیے، اگلے پچھلے صالحین میں شامل کر دیجئے"۔

Comments

Click here to post a comment