لکی مروت جنوبی کے پی کے میں واقع ہونے کی وجہ سے دہشت گردی کے مسائل کا توپہلے سے شکار تھا۔۔ پھر خوش قسمتی یا بدقسمتی سے یہاں پر معدنیات بھی دریافت ہوگئی۔ مروت قوم کی اکثریت کے بقول دہشتگردی کے عروج کو بھی ریاستی اداروں نے اس لئے رستہ دیا ہے، تاکہ اس کے ذریعے سے معدنیات کو ضلع سے باہر بالفاظ دیگر پنجاب پہنچایا جاسکے اور کوئی توانا آواز اس کے خلاف نہ اٹھے۔
یہ مسائل تو تھے ہی، لیکن پھر مروت قوم کے ایک مقامی راہنما ماسٹر انعام صاحب اٹھے اور تسلسل سے مقامی مسائل پر بولنا شروع کردیا۔ موصوف محترم میرے ہائی اسکول میں استاد رہے ہیں اور ایک قابل انسان ہیں، ایک زمانہ میں جماعت اسلامی سے بھی ان کا تعلق رہا ہے،آٹھ دس سالوں سے علاقائی مسائل کے لئے متحرک ہیں ، خاص کر پانی کے مسئلے پر بولتے رہے ہیں۔۔ہمارے ہاں لکی مروت میں ہمارے پچپن میں نہری نظام چلتا تھا۔ انیس سو پچانوے کے آس پاس ہمارے نہر خشک ہوگئے اور ان میں پانی آنا بند ہوگیا۔
پانی ہمارے پاس بنیادی طور پر دریائے کرم سے آیا کرتا تھا ، جس کے دو رستے رہے ہیں۔ ایک تو دریائے کرم سے براستہ لوئر کینال اور دوسرے باران ڈیم سے۔ ان دونوں سے مروت کینال میں پانی چھوڑا جاتا ہے، جس سے لکی مروت میں پانی آتا تھا۔ یاد رہے لکی مروت کا آدھا حصہ ریتلا ہے، جبکہ آدھا پکا ہے۔ نہری نظام اسی پکے حصے تک محدود ہے، گویا پورے ضلع کو پانی یہاں سے آ ہی نہیں رہا۔۔۔اور قدرتی تقسیم بھی کچھ یوں ہے کہ پکے کا علاقہ ہی پہلے آتا ہے اور ریتلا بعد میں۔۔تو پانی کو ریتلے حصے سے گذرنے کی نوبت بھی نہیں آتی۔
بہرحال نہروں کا پانی خشک ہونے کے بعد مروت قوم صحیح الفاظ میں گھر سے بےگھر ہوئی۔ کیونکہ زمینیں بےکار پڑی رہ گئیں۔ یوں ہماری قوم نے پورے پاکستان میں مزدوری کے لئے پر تولے۔۔ پاکستان میں کہیں بھی چلے جائیں، کھدائی کا کام ہر جگہ پر آپ کو مروت ہی کرتے ملیں گے۔ تعلیم کم ہونے کی وجہ سے سرکاری نوکری کی مقدار بھی کم رہی ہے۔ بہرحال عوام میں جیسے جیسے شعور آتا گیا، پانی کے لئے آوازیں تیز تر ہونے لگیں۔ ایسے میں ہمارے استاد جناب انعام اللہ صاحب نے اس ایشو کو بنیاد بنایا اور اس کے لئے قومی سطح پر تحریک شروع کردی۔
مروت کینال کے لئے پی ٹی آئی کے معزول صوبائی وزیر ہشام انعام اللہ خان نے بھی کوششیں کی تھیں اور سرکاری طور پر اس کی درستگی کے لئے فنڈ انہوں نے نکلوائے تھے، تاہم عملی طور پر اس کی چلوائی کو ماسٹر انعام صاحب نے ہی کیش کیا، کیونکہ تب تک ہشام انعام اللہ کو پی ٹی آئی نکال چکی تھی۔۔ اب ہوا یہ کہ پچھلے مہینوں بارشوں کے کم ہونے کی وجہ سے مروت کینال میں پانی نہیں چھوڑا گیا، جس پر ماسٹر انعام صاحب نے پھر آواز اٹھائی، عوام کو جمع کیا، جس پر حکومت نے ان کے خلاف ایم پی او کے تحت پرچہ کاٹا۔۔ پھر جب پولیس ان کو گرفتار کرنے آئی، تو عوام بندوقیں لے کر ماسٹر صاحب کو بچانے آگئے۔۔ اب وہاں پر عوام بندوقیں لے کر بیٹھے ہوئے ہیں کہ ماسٹر صاحب کو کچھ ہوا تو خیر نہیں۔ خود ماسٹر صاحب بھی بہت اونچے سروں میں مزاحمت، اور ج ہا د ( مولویوں والا نہیں، مروت قوم کے حق کے لیے ) الاپ رہے ہیں۔
بنیادی طور پر ماسٹر صاحب کا مطالبہ درست ہے، لیکن طریقہء کار غلط ہے، وہ قوم کے بچوں کو جس چیز سے روکتے آئے ہیں، شدت پسندی سے بچ کر اپنی ذاتی اور قومی ترقی کی دعوت دیتے آئے ہیں، اس کے برعکس آج نوجوانوں کے ہاتھوں میں بندوق پکڑا دی ہے، علاقے کی جو صورتحال چل رہی ہے، اس میں ایسی صورتحال گویا ماحول میں مزید پٹرول چھڑکنا ہے۔۔ شیر افضل مروت کے اخراج کی وجہ سے لکی مروت کے پی ٹی آئی ورکرز میں جنونیت کی کمی آگئی ہے ، تو ایسے میں ماسٹر صاحب پھر نوجوان بچوں کے ہاتھوں میں بندوق دلا رہے ہیں۔ یہ نکتہ بہرحال قابل اصلاح ہے۔
دوسری بات یہ کہ جیسا آپ نیچے فوٹو میں دیکھ سکتے ہیں ، کرم دریا سے مروت کینال میں پانی تب چھوڑا جاتا ہے، جب وہ ایک خاص حد تک پہنچ جاتا ہے۔ پچھلے مہینوں چونکہ خشک سالی رہی ہے، بارشیں نہیں ہوئیں، اس وجہ سے پانی مروت کینال میں نہیں چھوڑا جاسکا۔۔اس صورت میں ہمارا سمجھنا یہ ہے کہ لکی مروت اور بنوں کے منتظمہ کے ادارے اور دونوں اضلاع کے مشران کو چاہیئے کہ آپس میں بیٹھ کر پانی کی تقسیم کے اس فارمولے پر غور اور نظرثانی کریں اور لکی مروت کے لئے پانی کی مقدار میں اضافہ کریں۔۔ اس طرح ان شاءاللہ یہ مسئلہ حل ہوجائے گا، تاہم اسکے بعد متعلقہ سرکاری اداروں کے لئے ضروری ہے کہ اس فیصلہ کے مطابق تقسیم کو جاری رکھے تاکہ عوام اور نظام کے درمیان دوبارہ تناؤ پیدا نہ ہوسکے۔۔
تبصرہ لکھیے