رسائل اور میگزین کے قارئین نے اکثر مشاہدہ کیا ہوگا کہ کسی تحریر کے درمیان خالی بچ جانے والی جگہ پر کوئی لطیفہ ، شعر ، قول یا مختصر واقعہ درج ہوتا ہے۔ اس کا مقصد اس خالی جگہ کو پر کرنا ہوتا ہے۔ صحافت کی اصطلاح میں انہیں fillers کہا جاتا ہے۔ ان کے استعمال سے کسی ڈائجسٹ یا میگزین کا متعلقہ صفحہ مکمل استعمال ہوجاتا ہے اور اس کی خوب صورتی بڑھادیتا ہے بہ صورت دیگر خالی بچ جانے والی جگہ بدنما محسوس ہوتی ہے۔ انسانی زندگی کا معاملہ بھی کچھ اسی قسم کا ہے۔ ہماری زندگی کے قرطاس پر بھی بہت سی جگہیں خالی بچ جاتی ہیں۔ عقل مند لوگ ان خالی جگہوں کو کسی مثبت سرگرمیوں کے fillers سے بھر کر اپنی زندگی کی رعنائی میں اضافہ کردیتے ہیں لیکن یہ معاملہ سب لوگوں کا نہیں ہے۔ کچھ لوگ ان خالی جگہوں میں رنگ نہیں بھرتے بل کہ انہیں جوں کا توں رہنے دیتے ہیں۔ یہ روش باعث زیاں ہے۔
وقت ایک بیش قیمت سرمایہ ہے۔ اسے درست استعمال کرنے والے لوگ ہی دانا اور حکیم ہیں۔ اکثریت کا یہ حال ہے کہ احساس زیاں کے بغیر وقت برباد بھی کیے جاتے ہیں اور وقت کی قلت کا شکوہ بھی کیے جاتے ہیں۔ " میرے پاس وقت نہیں ہوتا" ایک گھسا پٹا جملہ ہے۔ مسئلہ وقت کی قلت کا نہیں بل کہ ترجیحات کے درست کا تعین کا ہے۔ لوگوں کے پاس اپنی اپنی پسند کی سرگرمیوں کے لیے بے پناہ وقت ہے۔ اپنی پسند کی سرگرمیوں کے لیے سب وقت نکال لیتے ہیں اور بسا اوقات بہت سی چیزوں پر سمجھوتا بھی کرلیتے ہیں۔ وقت کی قلت کا شکوہ کرنے والوں کو اپنے روزمرہ کے اوقات کا جائزہ لینا چاہیے کہ روزانہ کتنے گھنٹے کسی دینی یا (مثبت) دنیاوی سرگرمی میں گزرتے ہیں- لوگوں کی ایک قابل ذکر تعداد دن کا ایک حصہ ضائع کردیتی ہے۔ اس تضیع اوقات کے بعد شکوہ کناں بھی ہیں کہ ہمارے پاس وقت نہیں ہوتا۔ ہمارے ہاں وقت ایسا بیش قیمت سرمایہ کس طرح ضائع ہوتا ہے، چند مثالیں پیش خدمت ہیں۔
سوشل میڈیا کا بے جا استعمال وقت کے زیاں کا ایک بہت بڑا سبب ہے۔ لوگ بلا ضرورت گھنٹوں اس کا استعمال کرتے ہیں۔ پاکستانیوں کی ایک غالب اکثریت چوں کہ نیم خواندہ ہے، اس لیے یہ سوشل میڈیا پر غیر معیاری مواد دیکھتے ہیں۔ سوشل میڈیا کا یوں بے محابا استعمال وقت کے ضیاع کے ساتھ ساتھ ذہنی و فکری صلاحیتوں کو بھی متاثر کرتا ہے۔ سوشل میڈیا کا ایک بڑا نقصان یہ بھی ہے کہ لوگ شارٹس اور ریلز کے عادی ہونے کے سبب توجہ اور ارتکاز سے محروم رہتے ہیں اور جم کر کوئی کام کرنے کی صلاحیت کھو بیٹھتے ہیں۔
سونے اور جاگنے کے اوقات میں کسی نظم و ضبط کی پابندی نہ کرنا بھی وقت کے ضیاع کا سبب ہے۔ دیر سے سونا اور دیر سے اٹھنا سٹیٹس سمبل بن گیا ہے۔ موسم سرما میں نیند کے اوقات بھی وقت کے ضیاع کا ایک اہم سبب ہے۔ جوں جوں راتیں طویل ہوتی جاتی ہیں، توں توں لوگ نیند کا دورانیہ بڑھاتے جاتے ہیں۔ موسم سرما میں دن چھوٹے ہوجاتے ہیں، اس طرح رات کو دیر تک سونے والوں کے پاس دن میں کام کرنے کے لیے بہت کم وقت بچتا ہے۔
ہر برس میٹرک اور انٹرمیڈیٹ کے امتحانات کے نتائج کے وقت اعداد و شمار سامنے آتے ہیں کہ لاکھوں طلباء امتحان میں ناکام ہوگئے۔ پاکستان میں مروج نظام تعلیم میں میٹرک اور انٹرمیڈیٹ کے امتحانات میں کام یاب ہونا کوئی غیر معمولی بات نہیں ہے لیکن طلباء کی ایک کثیر تعداد کے فیل ہونے کی وجہ کیا ہوسکتی ہے؟ سوائے چند استثنائی معاملات کے، وقت سے فائدہ نہ اٹھانا اس کی سب سے بڑی وجہ ہے۔ طلباء کی ایک غالب اکثریت موسم گرما اور سرما کی تعطیلات کھیل کود میں گزار دیتی ہے۔ اتوار کا روز بھی اسی طرح گزر جاتا ہے۔ اگر طلباء صرف ان تعطیلات کے دوران ہی پڑھائی پر توجہ دیں تو یقیناً ناکامی سے بچ جائیں۔
شادی بیاہوں کی تقریبات میں وقت کا بے حد ضیاع ہوتا ہے۔ بارات کی روانگی ، ضیافت ، رخصتی اور ولمیہ- کچھ بھی وقت پر نہیں ہوتا۔ سیاسی جلسوں میں بھی وقت کی پابندی نہیں ہوتی۔ وقت کی پابندی کے حوالے سے مذہبی تقریبات کی صورت حال بھی حوصلہ افزاء نہیں ہے۔ ہسپتالوں میں ڈاکٹر وقت کی پابندی نہیں کرتے۔
انسانی زندگی کا ایک ایک لمحہ قیمتی ہے۔ ان لمحوں کی حفاظت کی جائے تو منٹوں اور گھنٹوں کی حفاظت بھی ممکن ہے۔ فلپ ڈورمر سٹینہوپ کا ایک بہت ہی خوب صورت قول ہے
" I recommend you to take care of your minutes; for hours will take care of themselves. I am very sure, that many people lose two or three hours every day, by not taking care of the minutes."
وقت ایک بیش قیمت سرمایہ ہے۔ یہ محض ایک کتابی بات نہیں ہے بل کہ ایک جیتی جاگتی حقیقت ہے۔ ہم میں سے ہر شخص ہر روز وقت کے درست اور غلط استعمال - دونوں کے نتائج کا مشاہدہ کرتا ہے۔ وقت کے ضیاع سے بچنے کے لیے ہر شخص کو چاہیے کہ خود کو کسی ضابطے کا پابند بنائے۔ ہر شخص خود کو کڑے احتساب سے گزارے اور دیکھے کہ دن کا کتنا حصہ کسی مثبت کام کے بغیر گزرجاتا ہے۔ سونے اور جاگنے کے اوقات میں بھی ایک نظم کی پابندی لازم ہے۔ سوشل میڈیا کا استعمال اعتدال سے کرنا چاہیے۔ ایسی جگہوں جہاں وقت کے ضیاع کا اندیشہ ہو، کتاب ساتھ رکھنی چاہیے تاکہ وقت کا درست استعمال ہوسکے۔ کچھ لوگ دوران سفر کتاب پڑھ کر وقت گزارتے ہیں۔ ہسپتال میں اپنی باری کے منتظر کچھ لوگوں کو مطالعہ کرتے ہوئے دیکھا گیا ہے۔ بھارت میں ایک حجام نے اپنی دکان پر کتابیں رکھ دی ہیں تاکہ گاہک اپنی باری آنے سے پہلے مطالعہ کریں۔
وقت کے درست استعمال کے حوالے سے ابن الحسن عباسی کی کتاب " متاع وقت اور کاروان علم" ایک شاہ کار کتاب ہے۔ اردو سمجھنے والے ہر شخص کو اس کتاب کا مطالعہ ضرور کرنا چاہیے۔ یہ پڑھ کر کہ اسلاف اپنے وقت کا کتنا مثبت استعمال کرتے تھے، کوئی ذی شعور متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا۔ وقت کی اہمیت کا بارے میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد ہے کہ " صحت اور فراغت دو ایسی نعمتیں ہیں کہ اکثر لوگ ان کی قدر نہیں کرتے۔" وقت کا درست استعمال نہ صرف انفرادی کام یابی کا ضامن ہے بل کہ یہ معاشرے کے صحت مند ہونے کی علامت بھی ہے۔ وقت کے درست استعمال سے معاشی نمو کی شرح میں بھی اضافہ ممکن ہے۔
تبصرہ لکھیے