ہوم << لمز اپنا تہذیبی بیانیہ کیوں سامنے نہیں لاتا- اطہر وقار

لمز اپنا تہذیبی بیانیہ کیوں سامنے نہیں لاتا- اطہر وقار

لمز میں دنیا بھر کے سیکولر پروفیسرز آ کر لیکچر دیتے ہیں ، قوم پرست ،علاقہ پرست وہاں پر قوم پرستی بانٹتے ہیں۔
ہالی وڈ ،بالی وڈ ،ہولی، دیوالی اور پتہ نہیں کون کون سے دن وہاں منائے جاتے ہیں، وہاں کے "حساس "طلبہ نے کبھی اس سیکولرائزیشن پر تو کبھی احتجاج نہیں کیا؟
کیا یہ سیکولر عملی مظاہر ، پاکستان میں سیکولرائزیشن، دو قومی نظریہ سے ابھرنے والے نقوش کے انہدام اور قومی یکجہتی کی جڑ کاٹنے والی، مختلف شکلیں نہیں ہیں؟
آخر اس وقت ان طلبہ کا شعور کس کونے میں پڑا ہوتا ہے جب یہاں یہ سب کچھ ہو رہا ہوتا ہے۔

چلیں مان لیجیے کہ لمز پاکستان کی جے این یو ہے ۔
اگر ایسا ہے تو لمز یونیورسٹی کو ، جواہر لعل نہرو یونیورسٹی کی طرح کولونیل تاریخ،جدیدیت اور سیکولرائزیشن پر تنقیدی لٹریچر پیدا کرنا چاہیے تھا، اور اپنے تاریخی مطالعہ جات میں کولونیل دور کے مستشرقین کے تعصبات کی جگالی کے بجائے اپنا تہذیبی بیانیہ سامنے لانا چاہیے تھا۔
لیکن کیا انھوں نے کچھ ایسا کیا !

آپ ایسے تعلیمی اداروں کے کسی پروفیسر سےمحمود غزنوی ،اورنگزیب عالمگیر رح یا احمد شاہ درانی کے بارے میں رائے لے لیجیے ، یا پھر نظریہ پاکستان کی بابت پوچھ لیجیے.
آپ کو کولونیل و استشراقی و ہندو مؤرخین کے تعصبات کا پرتو مقامی رنگ میں نظر آئے گا۔
لمز میں طلال اسد ،رومیلا تھاپر ،ریچیکا شرما ،جان ایل ایسپیٹو کی سطح کا ایک سکالر پیدا نہیں ہو سکا۔
وہاں صرف سید مزمل ،پرویزہود بھوئے،مبارک حیدر اور مبارک علی کی سطح کے اپنے تاریخ و تہذیب سے شرمندہ شرمندہ ،خود ملامتی و قومی خود اعتمادی سے محروم علمی بونے پیدا ہو سکتے ہیں۔

کراچی کے مذہبی مدارس میں مقتدرہ کے سابقہ نمائندہ نے بھی دورہ کیا تھا
جو لوگ آج پروپیگنڈا کر رہے ہیں ان کے ہمدردوں نے اس وقت کوئی اعتراض نہیں کیا تھا بلکہ اس وقت اس مقام پر دوسرے تھے۔
حالانکہ اگر مسلم سیاسی طاقت کے اظہار کے ضمن میں دیکھا جائے تو وہ دورہ بھی ٹھیک تھا اور یہ دورہ بھی ٹھیک ہے۔

پتہ نہیں ہم کب اس داخلی شرمندگی سے نکلیں گے کہ اپنی ملی تاریخ و سیاسی طاقت پر ناز کر سکیں۔
سیاسی انتہا پسندی کے تحت ،سیاسی مخالفت میں قابل فخر چیزوں کو قابل شرم بنایا جا سکتا ہے ،لیکن مستقبل میں لمز میں جو سیکولرازم کا فروغ ان طلبہ کے ذریعے ہو گا اسے بھی اون کیجیے گا ۔