ہوم << میری مادری زبان - زید محسن

میری مادری زبان - زید محسن

چاہے آپ اس بات کو تسلیم کر لیں کہ زبانیں کسی مذہب کی نہیں ہوا کرتیں اور زبانیں مذہب کی چار دیواری سے الگ ہوتی ہیں ، لیکن اس بات کو تسلیم کرنے میں آپ کو کوئی دقیقہ نہیں لگے گا کہ بہت سی زبانیں مذہبی ہونے کی وجہ سے اپنا مقام دیگر زبانوں سے اونچا کر لیتی ہیں ، جیسا کہ عربی کا مقام آپ کے سامنے واضح ہے۔

چونکہ ہمارے لئے بھی سب سے اوپر ، سب سے مقدس اور سب سے زیادہ معنی خیز شے مذہب ہی ہے اس لئے ہمیں مذہب سے جڑی چیزوں سے ایک الگ ہی دل لگی سی ہوتی ہے ، اسی لئے ہمارے نزدیک اگر کوئی مقدس زبان ہے تو وہ عربی ہی ہے۔لیکن چونکہ ہم خود عجمی ہیں اس لئے ہماری مادری زبان ہماری مذہبی زبان سے مختلف ہونا ایک فطری سی بات ہے۔

اور اس بات کو کہنے میں ہم بہت اطمینان محسوس کرتے ہیں کہ ہماری مادری زبان "اردو" ہے۔

وہ اردو کہ جس کے بارے میں اہلِ علم کے ہاں ایک بحث یہ بھی ہے کہ یہ انگریز کا لگایا ہوا درخت ہے ، جس دعوے کے بطلان میں امیر خسرو کا حوالہ دیا جاتا ہے جو تیرہویں صدی میں اردو میں نہ صرف نطق کرتے تھے بلکہ ساتھ ہی اشعار بھی کہا کرتے تھے ، اور بہر کیف نثر اور ڈائلاگ کا وجود نظم سے پہلے ہوتا ہے اس میں کوئی دو رائے نہیں لیکن یہ بات بھی قابلِ غور ہے کہ وجودِ انگریز سے قبل امیر خسرو کے کہے گئے اشعار اور وجودِ انگریز کے بعد دیگر شعراء کے اشعار میں بڑا فرق ہے ، جس کو سمجھنے کیلئے ایک شعر امیر خسرو کا ملاحظہ فرمائیں اور اس کی تحلیل کی کوشش بھی کیجئے ، فرماتے ہیں:

زحال مسکیں مکن تغافل دوراے نیناں بنائے بتیاں
کہ تاب ہجراں ندارم اے جاں نہ لیہو کاہے لگائے چھتیاں

یقین جانیں اگر گلوکاروں نے یہ الفاظ اپنی گائیکی میں نہ استعمال کئے ہوتے تو ہم بھی اس سے اتنا ہی تغافل برتتے جتنا ان اشعار میں امیر خسرو تغافل نہ برتنے کی تلقین کر رہے ہیں۔

خیر جو بھی ہو اردو کا وجود سرکارِ انگریز سے پہلے مل جانا اس کے قدیم ہونے کی روداد تو سناتا ہے البتہ اس کی نشر وترویج میں فورٹ ولیم کالج کا کردار بھی کسی سے نہ ڈھکا چھپا ہے ، اور نہ ہی چھپایا جا سکتا ہے ، ہاں یہ بات ضرور قابلِ غور ہے کہ فورٹ ولیم کالج جہاں سے اردو کی نشر واشاعت کی ابتداء ہوئی ، جہاں سے میر امن دہلوی نے دہلوی انداز میں قصہ چہار یار کو فارسی سے اردو میں ڈھالا اور رجب علی بیگ سرور نے فارسی سے اردو قالب میں کتاب کو ڈھالنے کیلئے لکھنوی انداز اپنایا وہ فورٹ ولیم کالج بنگال یعنی کلکتہ میں تھا ، یعنی اردو کے ارتقاء کو تو بنگال میں برداشت کر لیا گیا لیکن اردو کو بعد از ارتقاء قبول نہ کیا گیا ، اور علیحدگی کی وجوہات میں سے ایک اہم وجہ یہ بھی بنی۔۔۔۔۔لیکن اب تو یہ سب قصہ پارینہ را کے مصداق کے کہ جو ہوا سو ہوا۔۔۔

اور اگلی بات یہ ہے کہ اردو کو مسلمانوں نے اتنی جلدی قبول کیا کہ دیکھتے ہی دیکھتے فارسی اپنی ساکھ کھونے لگی اور ہندوستان میں مسلمانوں کی نمائندہ زبان اردو ہی بن گئی ، بات یہاں تک آن پہنچی کہ مکتب کی زبانوں میں تو فارسی اور عربی کا شمار ہوتا رہا لیکن عوامی زبان اردو بن گئی ، اسی قبولیتِ عام کے پیشِ نظر غالب نے بھی اردو میں اشعار کہے اور اقبال کو بھی مستقل زبان کے طور پر اردو کو اپنانا پڑا۔۔۔۔

اور آج ہم ایک ایسے دور میں جی رہے ہیں کہ اردو کی ابتداء و ارتقاء پر تںقید کرنے والے بھی اردو میں ہی زور آزمائی کرتے اور اپنا مدعا ثابت کرتے ہیں اور اس کو قوم کے عروج وزوال کی ضامن بتانے والے تو پھر اس زبان کو آنکھوں کی پلکوں پر بٹھاتے اور فخر سے تاج بناتے ہیں ، اس لئے حقیقتِ حال یہی ہے کہ اردو بر صغیر پاک و ہند کے مسلمانوں کی نمائندہ زبان ہے ، جو نہ صرف رابطہ کی زبان ہے بلکہ تعلیم وتعلم کی زبان بھی بنتی جا رہی ہے ، جس سے محبت کرنے والوں کی تعداد بے تحاشہ اور جس کو اپنانے والے بے شمار ہیں۔

اور آج یہ حال ہے کہ آج کا دن دنیا میں مادری زبانوں کے حوالے سے منایا جا رہا ہے ، اور ہماری مادری زبان اردو ہے ، جس کے بارے میں زبیر احمد نے کہا تھا کہ:

سلیقے سے ہواؤں میں جو خوشبو گھول سکتے ہیں
ابھی کچھ لوگ باقی ہیں جو اردو بول سکتے ہیں

آج یہ کچھ لوگ بہت سارے لوگوں میں بدلتے جا رہے ہیں ، لیکن سچ یہی ہے کہ سلیقہ ہی اردو کی خوبصورتی ہے جیسا کہ منیش شکلا نے کہا تھا کہ:

بات کرنے کا حسیں طور طریقہ سیکھا
ہم نے اردو کے بہانے سلیقہ سیکھا

اسی سلیقے کو امتیاز بخشتے ہوئے داغ دہلوی نے بڑی گہری بات کہی تھی ، کیونکہ وہ دیکھ رہے تھے کہ کچھ بد سلیقہ بھی اردو پر زور آزمائی کر رہے ہیں تو فرما اٹھے کہ:

نہیں کھیل اے داغ یاروں سے کہہ دو
کہ آتی ہے اردو زباں آتے آتے