بعض معاملات اتنے حساس ہوتے ہیں کہ ان پر گفتگو کرتے وقت احتیاط برتنا ضروری ہوتا ہے، لیکن کچھ ایسے موضوعات بھی ہوتے ہیں جن پر بات کرنا لازم ہے کیونکہ اکثر لوگوں کو ان کے بارے میں یا تو معلومات نہیں ہوتیں یا ذاتی تجربات نہیں ہوتے۔ ان میں سے ایک سنگین مسئلہ مسلمانوں، خاص طور پر پاکستانیوں میں بڑھتا ہوا گھریلو تشدد (Domestic Violence) ہے۔
آج میں یہ بات اس لیے لکھ رہا ہوں کہ حالیہ دنوں میں میرے ساتھ لگاتار دو ایسے واقعات پیش آئے جنہوں نے مجھے اس پر لکھنے پر مجبور کر دیا۔ میں جانتا ہوں کہ میری رائے بعض لوگوں سے مختلف ہو سکتی ہے اور شاید انہیں ناگوار بھی گزرے، لیکن چونکہ میں ذاتی طور پر ان تجربات سے گزرا ہوں، اس لیے میں سمجھتا ہوں کہ بہت سے معاملات کو دوسروں کی نسبت بہتر جانتا ہوں۔
چند دن پہلے ایک ایسے واٹس ایپ گروپ میں، جس کے آٹھ سو سے زائد ممبران ہیں، اور ماشااللہ ان میں سے کچھ حرام اور حلال کھانے کے فیصلے کرتے ہیں ان میں کسی نے اکنا ریلیف کے حوالے سے ایک ایسی بات منسوب کئی کو حقیقت پر مبنی نہں تھی میں نے جب اس موضوع پر بات چیت میں حصہ لیا تو سوالات اور جوابات کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ چونکہ یہ گروپ امریکہ میں قائم ہے اور مجھے بتایا گیا کہ اس میں چند نوجوان علما بھی شامل ہیں، اس لیے میں اسے ایک پڑھے لکھے افراد کا گروپ سمجھتا تھا— اور اب بھی سمجھتا ہوں۔ لیکن جب سنجیدگی سے بات کرنے کی کوشش کی تو اندازہ ہوا کہ وہاں اس موضوع پر سنجیدہ گفتگو کرنا مشکل ہوتا جا رہا ہے۔
مسلمان خواتین کے شیلٹر ہوم کا ذکر آیا اور میں نے گھریلو تشدد کے حوالے سے ایک نکتہ اٹھایا تو وہاں مذاق کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہو گیا۔ پھر ایک ایسا جملہ سننے کو ملا جو میں آج سے پندرہ سال پہلے بھی سن چکا تھا، جب ہم نے امریکہ میں مسلمان خواتین کے لیے پہلا شیلٹر ہوم قائم کیا تھا۔ مجھے حیرت ہوئی کہ امریکہ میں بیٹھ کر بھی کوئی ایسا جملہ کیسے کہہ سکتا ہے۔ وہ جملہ تھا:
“شیلٹر ہوم وہ جگہ ہے جہاں آپ عورتوں کو ان کے شوہروں اور لڑکیوں کو ان کے ماں باپ سے بھاگنے کا مشورہ دیتے ہیں۔”
اور اور بقراطی نے کہا کہ
“ہاں بھائی، وہ وہاں جذباتی تشدد کا شکار خواتین کو بچا رہے ہیں (جیسے: وہ ناراض ہو گیا جب میں اپنے باس کے ساتھ لنچ پر گئی) اور لاپرواہی (اس نے ویلنٹائن ڈے پر مجھے کار نہیں خرید کر دی)۔”
یہ سن کر میں ششدر رہ گیا۔ میں نے سوچا کہ اس پر دو چار جوابات لکھوں، لیکن جب غیر سنجیدگی کی انتہا دیکھی تو خاموشی بہتر سمجھی اور گروپ میں قالو سلاما کہہ کر خود سے کہا کہ ان معاملات پر مزید نہ لکھنا ہی بہتر ہوگا،
مگر اج صبح مجھے ایک ایسی خاتون کا درناک اواز میں وائئس میسیج ملا ،جس نے مجھے سوچنے پر مجبور کر دیا کہ بہت سے لوگوں کو اس مسئلے کی سنگینی کا ذرہ برابر اندازہ نہیں ہے۔
یہ پاکستان کئ بزرگ خاتون ہیں ، جن کے بھائی امریکہ میں مشکلات کا شکار تھے، اور میں ان کے بھائی کی مدد کر رہا ہوں ۔ چند دن تک ان سے کوئی رابطہ نہ ہوا، پھر اچانک ان کا پیغام آیا جس میں انہوں نے معذرت کی کہ وہ خود بے حد مصروف تھیں کیونکہ ان کا داماد ان کی بیٹی پر تشدد کرتا ہے۔
اتفاق سے میں اس لڑکی سے مل چکا تھا— ایک نہایت پڑھی لکھی، باوقار اور مذہبی مزاج کی حامل خاتون، جو کسی ادارے میں ملازمت بھی کر رہی تھی۔ مجھے یہ جان کر شدید حیرت ہوئی کہ ایک اتنی شاندار، تعلیم یافتہ لڑکی کو اس کا شوہر مار سکتا ہے۔ اس دوران، اس کی ماں کی آواز میں جو بے بسی اور کرب تھا، وہ الفاظ میں بیان کرنا مشکل ہے۔ انہوں نے بتایا کہ شاید ان کی بیٹی کے کان کا پردہ پھٹ چکا ہے، اور ان کا داماد نہ صرف اسے نوکری سے روک رہا ہے بلکہ خود بھی کوئی روزگار نہیں کرتا، لیکن چاہتا ہے کہ اس کی بیوی نوکری کرے اور گھر بھی چلائے۔
یہ سب سن کر میرے لیے خاموش رہنا ممکن نہ رہا۔ اس لیے میں نے فیصلہ کیا کہ ان معاملات پر بات کرنا نہایت ضروری ہے تاکہ لوگوں کو حقیقت کا ادراک ہو سکے اور وہ گھریلو تشدد کو معمول سمجھ کر نظر انداز نہ کریں
مجھے آج بھی یاد ہے، سولہ سال پہلے، اس وقت ICNA ریلیف نے گھریلو تشدد سے متاثرہ افرادکے لیے کام کا آغاز کیا اور مسلمان خواتین کے لیے ایک ایسی پناہ گاہ قائم کرنے کی کوشش شروع کی، جہاں ان خواتین کی مدد کی جا سکے جو کسی بھی وجہ سے بے گھر ہو گئی ہوں۔ چاہے ان کی بے گھری کی وجہ گھریلو تشدد ہو، مالی مسائل ہوں یا کوئی اور مجبوری، اس شیلٹر کا مقصد انہیں سہارا دینا تھا۔
کیونکہ امریکہ میں موجود عام شیلٹر ہومز مسلمان خواتین کے لیے موزوں نہیں ہوتے—بلکہ صرف مسلمان ہی نہیں، کسی بھی ایسی خاتون کے لیے جو محفوظ اور باعزت ماحول میں رہنا چاہے، یہ جگہیں مناسب نہیں۔ زیادہ تر عام شیلٹرز جرائم کا گڑھ بن چکے ہیں، جہاں خواتین کے لیے رہنا مزید خطرناک ہو سکتا ہے۔
اس کے لیے ہم تین افراد کی ٹیم تھمقصد کے لیے لوگوں سے ملنے نکلے تو ہمیں سب سے پہلے وہی جملہ سننے کو ملا جو آج، سولہ سال بعد، ایک ایسے گروپ میں دوبارہ سننے کو ملا جس میں نام نہاد “علماء” بھی شامل ہیں اور جو امریکہ میں قائم ہے۔ وہ جملہ یہ تھا:
“یہ شیلٹر ہوم شوہروں سے بھاگنے کے لیے بنایا جا رہا ہے!”
اس سے بھی بڑھ کر، ایک اور صاحب نے انتہائی مضحکہ خیز اور افسوسناک انداز میں فرمایا:
“آپ ان خواتین کی مدد اس لیے کرتے ہیں کیونکہ وہ ذہنی دباؤ کا شکار ہوتی ہیں؟ مطلب، کسی کا شوہر اگر ویلنٹائن ڈے پر اسے تحفہ نہ دے تو وہ ڈپریشن میں آ جاتی ہے، اور آپ ایسی ہی عورتوں کی مدد کرتے ہیں؟”
یہ سن کر میں حیران رہ گیا کہ کوئی شخص اس قدر بے حس اور ناسمجھ کیسے ہو سکتا ہے۔ ایسا شخص یا تو خود ایک ظالم ہے یا پھر مکمل طور پر جاہل، جسے اس مسئلے کی شدت کا ادراک ہی نہیں۔ میں معذرت خواہ ہوں اگر میرے الفاظ سخت محسوس ہوں، لیکن میں ایسے بے شمار واقعات سے گزر چکا ہوں اور ایسے درجنوں کہانیاں سن چکا ہوں جو اتنی المناک ہیں کہ اگر آپ سنیں، تو شاید پوری رات سو نہ سکیں۔
یہ بات مزید واضح کرنے کے لیے میں وہ پہلا واقعہ بیان کرتا ہوں جس ہمیں شیلٹر ہوم کی پہلی رہائشی ملیں ۔یہ خاتون ہمارے صحافی دوست، محسن ظہیر کے توسط سے ایک خاتون ہمارے پاس آئیں، جن کا معاملہ نہ صرف گھریلو تشدد کا تھا بلکہ شدید ذہنی اذیت کا بھی۔ ان کا شوہر ان کے سامنے دوسری عورتوں کو کمرے میں لے آتا تھا۔
یہ خاتون ایک ذہنی امراض کے اسپتال سے براہِ راست ہمارے پاس آئی تھیں، جہاں وہ شدید ذہنی دباؤ کا شکار تھیں۔ اس سے پہلے، وہ ایک سرکاری شیلٹر میں رہ چکی تھیں، جو جرائم پیشہ افراد کی آماجگاہ بن چکا تھا۔ وہاں رہ کر وہ مزید ذہنی بیماریوں میں مبتلا ہو گئیں۔ ان کے پاس صرف دو راستے تھے: یا تو وہ خودکشی کر لیتیں، یا پھر دوبارہ اسی پاگل خانے میں واپس چلی جاتیں۔
مگر شاید ان کی قسمت اچھی تھی کہ عین اسی وقت مسلمان خواتین کے لیے پہلا شیلٹر ہوم قائم ہو چکا تھا۔ وہ ہماری پہلی ریزیڈنٹ بنیں، اور آج، الحمدللہ، وہ ایک کامیاب اور باعزت زندگی گزار رہی ہیں۔
تبصرہ لکھیے