ہر 14 اگست پر ہماری کچھ سیاسی جماعتوں کے لیڈران کسی نہ کسی صورت ہمیں بتا رہے ہوتے ہیں کہ ہم آج بھی غلام ہیں۔ گورے انگریز چلے گئے اب کالے انگریز ہیں۔ حقیقی آزادی کی تلاش جاری ہے۔ عزم آزادی وغیرہ وغیرہ کیا جا رہا ہوتا ہے ۔اس سب میں 2اداروں کے نام گھوم پھر کر آتے رہے ہیں۔ آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک۔ جماعت اسلامی تو ان کے ناموں سے خاصی مہمات بھی چلاتی رہی ہے۔ اسکول کے زمانے میں ہی کراچی کی بسوں میں سفر کے دوران مجھے سب سے پہلے اِن عالمی اداروں کے ناموں کے خلاف اسٹیکرز سے یہ پہچان ہوئی تھی۔
ورلڈ بینک جولائی 1944 میں بریٹن ووڈز کانفرنس (Bretton Woods Conference) کے دوران قائم کیا گیا تھا اور 27 دسمبر 1945 کو باضابطہ طور پر اس نے کام شروع کیا۔ اس کے قیام کا بنیادی مقصد دوسری جنگِ عظیم کے بعد تباہ شدہ ممالک کی تعمیرِ نو اور ترقی پذیر ممالک کی اقتصادی مدد تھا۔
دوسری جنگ عظیم و ہ موضوع ہے جو ہر سنجیدہ مسلمان کو ضرور سمجھنا پڑھنا چاہیے مگر خالص مسلم نقطہ نگاہ سے۔ اب آپ کے ذہن میں سوال آئیگا کہ دوسری جنگ عظیم کے بعد ایسے ادارے بنانے کی وجوہات کیا تھیں؟ آپ نوٹ کریں کہ ایک تباہی جنگ لائی دوسری خاص قسم کی تباہی اس جنگ کے بعد بننے والے اداروں سے آئی۔
1. یورپ اور جاپان کی تباہی: جنگ کے دوران بیشتر یورپی ممالک اور جاپان کی معیشتیں تباہ ہو چکی تھیں، انفراسٹرکچر برباد تھا، اور انہیں تعمیر نو کے لیے مالی مدد درکار تھی۔
2. نئی عالمی معیشت کا قیام: امریکہ اور اس کے اتحادی چاہتے تھے کہ عالمی معیشت کو نئے مالیاتی نظام کے تحت منظم کیا جائے تاکہ سرمایہ دارانہ نظام کو مستحکم کیا جا سکے۔
3. کمیونزم کے خطرے کو روکنا: امریکہ اور مغربی ممالک کو خدشہ تھا کہ اگر غریب ممالک کی مدد نہ کی گئی تو وہ سوویت یونین کے کمیونسٹ نظریے کے زیر اثر آ سکتے ہیں۔
4. نوآبادیاتی نظام کی تبدیلی: جنگ کے بعد کئی نوآبادیاتی ممالک آزادی کی طرف بڑھ رہے تھے، اور مغربی طاقتیں چاہتی تھیں کہ وہ معاشی طور پر مغرب پر انحصار کریں تاکہ آزادی کے باوجود وہ کنٹرول میں رہیں۔
5. عالمی مالیاتی استحکام: ڈالر کو عالمی معیشت کا مرکز بنانے کے لیے ایک ایسا ادارہ درکار تھا جو مالیاتی لین دین کو کنٹرول کر سکے، اس لیے ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف قائم کیے گئے۔
ورلڈ بینک نے ممالک کو کیسے کنٹرول کیا؟
ورلڈ بینک ترقی پذیر ممالک کو مالی مدد فراہم کرتا ہے، لیکن اس کے ساتھ سخت معاشی اور پالیسی شرائط عائد کرتا ہے، جن کے ذریعے یہ ممالک کے اندرونی معاملات پر اثرانداز ہو سکتا ہے۔ اس کے کنٹرول کے چند اہم طریقے یہ ہیں:
قرضوں کے بدلے شرائط
ورلڈ بینک اکثر ممالک کو قرضے دیتا ہے، لیکن اس کے بدلے سخت شرائط عائد کرتا ہے، جیسے نجکاری (privatization)، ٹیکس اصلاحات، سبسڈی ختم کرنا اور حکومتی اخراجات میں کمی۔اس سے عوامی سہولیات جیسے تعلیم، صحت اور بنیادی خدمات متاثر ہوتی ہیں، اور عام شہریوں پر بوجھ بڑھ جاتا ہے۔اسکی اصلاحات نے کئی ملکوں کی مقامی معیشتوں کو کھولنے، سبسڈیز ختم کرنے، اور سرکاری ادارے نجی کمپنیوں کو بیچنے پر مجبور کیا گیا، جس کے باعث کئی ممالک میں غربت میں اضافہ ہوا۔
ملٹی نیشنل کمپنیوں کے لیے سازگار پالیسیاں
ورلڈ بینک اکثر ایسی پالیسیاں لاگو کرواتا ہے جو بین الاقوامی سرمایہ کاروں اور ملٹی نیشنل کمپنیوں کے حق میں ہوتی ہیں۔ ترقی پذیر ممالک کے قدرتی وسائل جیسے تیل، گیس، پانی، اور معدنیات کو غیر ملکی کمپنیوں کے حوالے کیا جاتا ہے، جس سے مقامی معیشت کمزور ہوتی ہے۔
کرپٹ حکومتوں کی مدد
کئی مواقع پر ورلڈ بینک نے ایسے حکمرانوں کو مالی مدد فراہم کی جو کرپشن اور آمرانہ طرزِ حکومت میں ملوث تھے، تاکہ وہ اپنی پالیسیوں کو تبدیل نہ کریں۔اس کے نتیجے میں کئی ممالک قرضوں کے جال میں پھنس گئے اور ان کی خودمختاری متاثر ہوئی۔یہ کوئی ایماندار لوگ نہیں ہوتے ، یقین مانیں یہ انتہائی خبیث فطرت اور کرپٹ لوگ ہوتے ہیں۔اگر آپ صرف ایک ورلڈ بینک کی کیس اسٹڈی کریں تو آپ کو سب معلوم ہوجائیگا۔وقت بچانا ہے تو میری بات پر یقین کرلیں۔بہت بڑے نظریاتی معاشی محقق کی ، جس نے ان کے اداروں کی ملازمت بھی کی ہے اُس کے فرسٹ ہینڈ تجربات سے بتا رہا ہوں۔
اثرات
ورلڈ بینک کا مقصد بظاہر ترقی پذیر ممالک کی مدد کرنا ہے، لیکن اس کے طریقہ کار سے مقامی معیشتوں پر عالمی طاقتوں اور سرمایہ داروں کا کنٹرول مضبوط ہوا ہے۔ اس کی شرائط کی وجہ سے کئی ممالک اپنی معاشی خودمختاری کھو چکے ہیں اور قرضوں کے بوجھ میں دبے ہوئے ہیں۔ کئی ممالک قرضوں کے دائرے میں پھنس گئے اور وہ معاشی آزادی سے محروم ہو گئے۔مقامی صنعتیں تباہ ہوئیں اور غربت اور بے روزگاری میں اضافہ ہوا۔بہت سے ممالک میں نجکاری کے نتیجے میں بنیادی سہولیات مہنگی ہو گئیں اور عام عوام کو نقصان پہنچا۔
پاکستان کو دیکھ لیں
عالمی استعماری ادارہ۔ ورلڈ بینک ۔ کے ایگزیکٹیو ڈائریکٹرز 2 دہائیوں کے بعد پاکستان پہنچ گئے ۔ہمارے وزیراعظم شہباز شریف کے نزدیک ، عالمی ادارے سے سودی قرض مانگنا پاکستان کی ایک اہم پیش رفت ہے ۔جانتے ہیں کیوں ؟ اس لیے کہ ورلڈ بینک کی "انٹرنیشنل ڈیٹ رپورٹ 2024" کے مطابق، 2023 کے اختتام تک پاکستان کا کل بیرونی قرضہ تقریباً 130.847 ارب ڈالر تھا۔ مطلب پرانا قرض ادا ہوا نہیں اور نیا آرہا ہے۔ تبھی تو دیدہ ودل فرش راہ کرکے وہ اس وفد کو گلے لگارہے ہیں۔ 7 دہائیوں سے عالمی استعماری ادارہ پاکستان پر پنجے گاڑھے ہوا ہے۔
پاکستان کی ان دیکھی تعمیر
ہمارے وزیر اعظم فرماتے ہیں کہ عالمی بینک کے تعاون سے پاکستان میں قومی ترقی اور تعمیر نو کے کئی بڑے منصوبے تعمیر کئے گئے ہیں اور مزید ہونگے ۔ یہ کون سی قومی تعمیر ہے یہ میں اور آپ ملک کی صورتحال دیکھ کر بخوبی بتا سکتے ہیں۔ مجھے وہ مشہور لطیفہ یاد ہوگیا جس کے آخر میں بچہ بادشاہ کو دیکھ کر بولتا ہے کہ ’’بابا ۔ یہ بادشاہ تو ننگا ہے۔‘‘ بالکل اسی طرح ہمیں وہ ترقی، تعمیر کہیں نظر نہیں آرہی 76 سال ہوگئے۔ اب کی بار پھر بتایا جا رہا ہے کہ کنٹری پارٹنرشپ فریم ورک کے تحت پاکستان میں 40 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کی جائے گی ۔انٹرنیشنل فنانس کارپوریشن (آئی ایف سی) کے تحت پاکستان کے نجی شعبے میں 20 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری ہوگی۔
اصل بات
آپ کو کیا لگ رہا ہے کہ یہ پیسہ وہ ایویں بانٹ رہا ہے؟یہ بینک ہے بنک ۔ سود سمیت تو واپس لیتا ہی ہے مگر اپنے کئی سارے مقاصد پورے کرتا ہے۔ پھر یہ بھی بتا دوں کہ یہ سارے قرضے کرپشن کو سب سے بڑا رستہ دیتے ہیں ۔ سب سیٹنگ سے چلتا ہے ،سارے کنسلٹنٹ بھی ان کے اپنے بھرتی کیے ہوتے ہیں ۔سروس فیس سے لیکر یہ ایسے ایسے طریقے استعمال کرتے ہیں کہ قرضہ کبھی ادا ہی نہیں ہوتا ۔ ہم اپنے بچپن میں سنتے تھے کہ ہر پاکستانی 10 ہزار روپے کا مقروض ہے۔ اس وقت یہ بھی بہت تھے۔ آج یہ 3 لاکھ روپے ہو چکے ہیں۔جناب سیدھی سی بات ہے کہ سود ی قرض لیکر کبھی کوئی خیر و برکت آسکتی ہے۔ قرض لینا ہمارے دین، مذہب میں کوئی پسندیدہ عمل ہے ہی نہیں پہلے اس بنیادی بات کو سمجھنا ہوگا۔
تبصرہ لکھیے