ہزاروں معصوم بچوں کے قاتل اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو کو عالمی عدالت انصاف کی جانب سے انسانیت کے خلاف منظم جنگی جرائم کا مجرم ٹھہرایا جانا سچائی اور مظلومیت کا وہ کاری وار ہے جس پر "سو دن چور کے ایک دن سادھ کا" کا محاورہ صادق آتا ہے، عالمی عدالت میں جس شفاف انداز میں مقدمے کی کارروائی چلائی گئی اسے پوری دنیا نے تسلیم کیا۔ وارنٹ گرفتاری کا تاریخی فیصلہ آنے پر صیہونی ریاست نہ صرف عالمی برادری میں تنہائی کا شکار ہو گئی بلکہ 124 ممالک کی پولیس نیتن یاہو کو گرفتار کرنے کو تاحال تیار بیٹھی ہے۔
غزہ جنگ سے قبل صورتحال بالکل برعکس تھی، عالمی سطح پر مسلمان بدنام اور انہیں دہشت گرد گردانا جاتا تھا، اسرائیل نواز امریکی اور یورپی میڈیا 1948 سے مسلسل یہ پروپیگنڈا کرتا چلا آ رہا تھا کہ فلسطینی دہشت گرد یہودی شہریوں کو اپنی عصبیت کا نشانہ بناتے ہیں، جواب میں اسرائیل فوجی آپریشن کرتا ہے تو عام فلسطینی بھی متاثر ہوتے ہیں اور باامر مجبوری مہاجر کیمپوں میں منتقل کر دیئے جاتے ہیں۔ گویا یہ دہائیوں سے جاری یک طرفہ ڈرامہ تھا جو یہودی ریاست بڑی چالاکی سے رچاتی آئی تھی، نتیجے میں فلسطینیوں کی اپنے ہی وطن میں نسل کشی کی پالیسی کامیابی سے جاری تھی اور یہ مظلوم مسلمان اردن، مصر سمیت دیگر ہمسایہ ملکوں میں دھکیلے جاتے رہے اور یہودی فلسطینیوں کی زمینوں پر آسانی سے قابض ہوتے چلے گئے جس کا اس نقشے سے بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔
اگر آپ سب سے آخر والے نقشے 1967-2017 پر غور کریں تو آپ کو بائیں ہاتھ پر ایک چھوٹا سا سبز رنگ میں زمین کا ٹکڑا نظر آئے گا جس کو غزہ کی پٹی کہا جاتا ہے، محض42 کلو میٹر طول اور 10 کلومیٹر عرض کے اس چھوٹے سے علاقے پر اسرائیلی فوج نے حالیہ جنگ میں دو ایٹم بموں جتنی شدت کی بمباری کی، بچوں، عورتوں اور بوڑھوں کو جس بے دردی اور اذیت سے موت کے گھاٹ اتارا گیا وہ تاریخ انسانی میں تاریک باب کے طور پر ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔
اسرائیلی فوج نے فلسطینیوں کی حالیہ نسل کُشی کا اقدام محض طوفان الاقصی کے ردعمل میں نہیں کیا بلکہ اس کے پیچھے طویل عرصہ سے منصوبہ بندی جاری تھی۔ حقیقت یہ ہے کہ فلسطینیوں کو دیوار سے لگا کر طوفان الاقصی پر مجبور کیا گیا۔ اسرائیل نے دہشت گردی کا بہانہ بنا کر غزہ کا گزشتہ 20 سال سے محاصرہ کر رکھا تھا، خوراک، پانی اور ادویات کی فراہمی اسرائیل کی مرہون منت تھی جسے وہ جب چاہتا، حیلے بہانوں سے بند کر دیتا۔ غزہ کے اردگرد کے علاقے یہودی آباد کار گزری ایک صدی کے دوران فلسطینیوں سے صیہونی فوج کی سرپرستی میں چھین چکے تھے اور 20 لاکھ بچے کھچے مسلمانوں کو اس چھوٹے سے علاقے میں دھکیل کر ایسے جکڑ رکھا تھا کہ غزہ کو دنیا کا سب سے بڑا جیل قرار دیا جاتا تھا۔ سالوں سے بھوک اور پیاس کے دوزخ میں تنگ فلسطینیوں نے طوفان الاقصی کا اقدام کیا تو خون آشام نیتن یاہو نے فلسطینیوں کے خون سے ایسی ہولی کھیلی کہ عالم انسانیت کی چیخ و پکار کے باوجود امریکہ اور یورپی اتحادیوں کے سر پر جوں تک نہ رینگی۔ یہ طاقتور ممالک بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں سے جہاز بھر بھر کر اسرائیل کو مہیا کر کے انسانیت کے قتل عام کے جرم میں برابر کے شریک بنتے رہے۔
نتیجہ یہ ہوا کہ 50 ہزار سے زائد مسلمان لقمہ اجل بن گئے مگر امریکہ اور اسرائیل، فلسطینیوں کی نسل کشی کے حالیہ مظاہرے سے بھی مزید کچھ آگے بڑھ کر کرنا چاہتے ہیں۔ حال ہی میں امریکی صدر ٹرمپ کا غزہ پلان سامنے آیا ہے جس کے تحت غزہ کو امریکہ اپنے قبضے میں لے گا اور فلسطینیوں کو یہاں سے زبردستی نکال کر یہ بچا کھچا علاقہ بھی چھین لیا جائے گا۔
ٹرمپ دنیا کے سامنے اس نئے غزہ پلان کی جو بھی خوبصورت تصویر پیش کریں، مشرق وسطی کے معاملات پر نظر رکھنے والوں کیلئے یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ یہ اقدام دراصل گریٹر اسرائیل پلان کا حصہ ہے جس پر ٹرمپ کا کندھا استعمال کرتے ہوئے یہ نئی پیش قدمی کی جا رہی ہے۔ اس کا ثبوت عرب میڈیا کی متعدد رپورٹس ہیں جن کے مطابق اسرائیل گریٹر اسرائیل کے منصوبے پر عمل درآمد شروع کر چکا ہے۔ صیہونی حکومت ہمسایہ ملک شام کی گولان کی پہاڑیوں کے علاوہ مزید علاقے خاموشی سے ہڑپ کر رہی ہے بلکہ وہاں مزید یہودی بھی لا کر بسا رہی ہے۔ دوسرے اسلامی ملک لبنان کے جنوبی علاقوں کو اسرائیلی فوج جنگ بندی معاہدے کے باوجود تاحال قبضے میں لئے بیٹھی ہے، اُدھر مصر کے علاقوں پر بھی اسرائیلی حکام للچائی نظروں سے دیکھ رہے ہیں جس پر مصر نے معاملہ جانچتے ہی اسرائیل کو جنگ کی تازہ دھمکی دے دی ہے۔
تین اسلامی ممالک کے علاقے ہڑپ کرنے کی اسرائیلی پیش قدمی کی منزل وہ گریٹر اسرائیل ہے جس کا نقشہ اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو نے گزشتہ ماہ جنوری میں جاری کیا تھا۔ اس پر سعودی عرب اور قطر سمیت عرب ممالک نے شدید تحفظات کا اظہار کیا تھا، اس نئے نقشے میں شام، لبنان، اردن، مصر اور فلسطین کے علاقے اسرائیل میں شامل دکھائے گئے ہیں۔ مڈل ایسٹ پولیٹکل اینڈ اکنامک انسٹیٹیوٹ کے مطابق مسلمانوں کے مقدس ترین مقامات مکہ اور مدینہ بھی گریٹر اسرائیل میں شامل ہیں جو کہ بحثیت مجموعی پوری امت مسلمہ کیلئے خطرے کی گھنٹی اور انفرادی سطح پر ہر مسلمان کیلئے زندگی اور موت کا مسئلہ ہے۔
دوسری جانب اسرائیل مسلمانوں کے قبلہ اول بیت المقدس پر بھی حملہ آور ہے جس کی کسی قدر حفاظت کا فریضہ مغربی کنارے کے نہتے فلسطینی اپنی جانوں پر کھیل کر انجام دے رہے تھے۔ مگر صیہونی فوج انہیں وہاں سے نکالنے کیلئے مغربی کنارے میں بھی فوجی آپریشن شروع کر چکی ہے جہاں قائم کیمپوں سے دسیوں ہزار فلسطینیوں کو نکال دیا گیا ہے۔ اسرائیل مسلمانوں کا قبلہ اول بیت المقدس گرا کر وہاں یہودی عبادت گاہ ہیکل سلیمانی تعمیر کرنا چاہتا ہے اور اس کی تیاریاں بھی حتمی مراحل میں ہیں جس کی سرخ بچھڑے کے ذبح کرنے سے متعلق میڈیا رپورٹس ماضی قریب میں سامنے آتی رہی ہیں۔
ان تمام کارروائیوں سے اسرائیل مسلمانوں کا دشمن نمبر ایک بن کر سامنے آ چکا ہے جو ہمارے موجودہ قبلہ خانہ کعبہ، روضہ رسول صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے روضہ اقدس کے حامل شہر مدینہ منورہ اور قبلہ اول بیت المقدس پر حملہ کی صورت میں ہے اور ٹرمپ کا غزہ پلان اس منزل کی راہ کا اہم سنگ میل ہے۔ لہذا ٹرمپ جتنے بھی طاقتور ہوں، ان کو یہیں پر روکنا ہو گا ورنہ غزہ امریکہ کے ہاتھ میں چلا گیا تو اس کا دوسرا مطلب وہاں اسرائیل کا قبضہ ہی ہے۔ یہ پوری مسلمان امہ کیلئے خطے کی گھنٹی ہے، اس کے بعد اسرائیل مزید امریکی طاقت استعمال کرتے ہوئے شام کے بعد اردن اور پھر سعودی عرب کی طرف رخ کرے گا جس کے بعد یہودیوں کی میلی نظریں مکہ اور مدینہ پر جم جائیں گی جو مسلمانوں کی ریڈ لائن ہے۔
ٹرمپ نے غزہ پلان کی آڑ میں مسلمانوں کی ریڈ لائن پر زبانی حملہ کر دیا ہے، اگر مسلمانوں کی جانب سے اس مرحلے پر بھی صرف زبانی جمع خرچ کا وطیرہ رہا تو گریٹر اسرائیل پلان پر عملی اقدام کے اگلے مرحلے کا آغاز کر دیا جائے گا۔ اب وقت آ گیا ہے کہ پوری دنیا کے مسلمان آپسی اختلافات بھلا کر ایسے ہی اکٹھے ہو جائیں جیسے آپس میں لڑے بھائی بیرونی خطرے کی صورت میں اپنے گھر کو بچانے ایک ہو جاتے ہیں۔ اس موقع پر ایٹمی صلاحیت کے حامل پاکستان سمیت مسلم امہ کو انتہائی ذمہ داری کا کردار ادا کرنا ہو گا، اس میں شک نہیں کہ سعودی عرب، مصر، اردن سمیت عرب ممالک نے ٹرمپ کے دھوکے پر مبنی "غزہ پلان" کی شدید مخالفت کی ہے مگر ٹرمپ اور نیتن یاہو جس طرح اپنے بیانیے پر ڈٹے ہوئے ہیں، عرب ممالک بالخصوص اور دیگر مسلم ممالک بالعموم کو ویسی ہی سخت زبان اپنانا ہو گی جیسی ٹرمپ اور نیتن یاہو استعمال کر رہے ہیں۔
اس حوالے سے پہلے قدم کے طور پر اسلامی سربراہی کانفرنس کا فوری اجلاس طلب کر کے دوٹوک موقف اختیار کیا جائے اور مسلم ممالک کا اپنا دفاعی حصار تیار کیا جائے۔ اسرائیل کے ساتھ امریکہ اور چند دیگر طاقتور ممالک ہیں تو چین اور روس کا پلڑا مسلمان ممالک کی جانب جھکنے کے امکانات موجود ہیں۔ مسلم امہ موثر سفارتکاری اور دفاعی محاذ پر یک جہتی کا مظاہرہ کرے تو اللہ تعالی کی مدد سے فتح مقدر ٹھہرے گی۔ قرآن مجید نے تو یہ فیصلہ 1400 سال قبل کر دیا تھا کہ یہود و نصاری مسلمانوں کے ازلی دشمن ہیں۔ لہذا مسلم امہ کو اپنی تمام انفرادی حکمتیں بالائے طاق رکھتے ہوئے اسرائیل کے خلاف فیصلہ کن اقدام اٹھانا چاہیے۔
تبصرہ لکھیے