گزشتہ سال چار اور پانچ ستمبر کو امریکی شہر سان فرانسسکو میں "Reboot 2024 -The New Reality " کے عنوان سے ایک کانفرنس منعقد ہوئی جس کو میں اسٹریم میڈیا نے تو کوئی خاص اہمیت نہ دی مگر دو مہینے بعد ہونے والے امریکی الیکشن کے تناظر میں یہ کانفرنس بہت اہمیت کی حامل تھی ۔ اس کانفرنس میں دائیں بازوکے ایک نمایں ترین تھنک ٹینک ہیریٹیج فاونڈ یشن اور سلیکون ویلی کے سرکردہ لوگ شریک تھے ۔ شرکا کے لیے کانفرنس کا ٹکٹ ہزار ڈالر تھا لیکن اس کے حصول کے لیے انتظامیہ کی پیشگی منظوری ضروری تھی۔ اس کانفرنس کے مزاج کا اندازہ اس طرح لگایا جاسکتا ہے کہ ایک سیشن کا عنوان "ٖFrom Sand Hill Road to Pennsylvania Avenue" تھا ۔ سینڈہل روڈ سلیکون ویلی میں واقع وہ سڑک ہے جہاں زیادہ تر وینچر کیپیٹل فرمز کے دفاتر ہیں اور واشنگٹن میں واقع پینسلوانیا ایونیو پر وائٹ ہاؤس ہے ۔
سن 2023 میں ہیریٹیج فاونڈیشن نے نو سو سے زائد صفحات پر مبنی ایک بلیو پرنٹ جاری کیا تھا جس میں ٹرمپ کی دوسری ٹرم کے لیے ہدایات تھیں ۔یوں تو ہیریٹیج فاونڈیشن رونالڈ ریگن کے زمانے سے ہی ری پبلکن امیدواروں کے لیے گزارشات اور ہدایات جاری کرتی رہی ہے، مگر اس دفعہ پراجیکٹ 2025 کے نام سے جو ہدایت نامہ ان کی طرف سے آیا تھا اس کے انقلابی متن نے سب کو چونکا کر رکھ دیا تھا۔ ٹرمپ نے اپنی مہم کے دوران ، باوجود اس حقیقت کے کہ پراجیکٹ 2025 پر کام کرنے والے ساٹھ فیصد سے زیادہ لوگ ٹرمپ کی مہم سے تعلق رکھتے تھے ، اس سے لاتعلقی کا اظہار کیا تھا ۔ اب ٹرمپ کی جانب سے پراجیکٹ 2025 کے پیچھے ایک مرکزی کردار رسل ووٹ کو آفس آف بجٹ مینجمنٹ (OBM) کا انچارج بنانے کے بعد اس لاتعلقی کے اظہار کی کوئی حیثیت نہیں رہ جاتی ۔ OBM امریکہ کے سات ٹریلین ڈالر کے بجٹ کا ذمہ دار ہے۔ پراجیکٹ 2025 ایک نہایت مفصل گائیڈ لائن ہے جو ہر شعبے کا احاطہ کرتی ہے ۔جہاں ایک طرف معاشرتی سطح پر اسقاط حمل اور ٹرانس جینڈرزم کی حوصلہ شکنی اورخاندان کے فروغ جیسے اقدامات شامل ہیں، وہیں حکومتی سطح پر وفاقی حکومت کا حجم ڈرامائی طور پر کم کرنے کی ہدایات ہیں۔ ویسے تو ری پبلکن پارٹی ہمیشہ سے مختصر حکومت کی بات کرتی آئی ہے مگر پراجیکٹ 2025 ٹرمپ کی ذاتی ڈکٹیٹرشپ قائم کرنے کی ایک دستاویز ہے، جو فیڈرل ورک فورس کو بتدریج اپنے وفاداروں سے بدلنے کی ہدایت کرتی ہے۔ ہیریٹیج فاونڈیشن کے صدر Kevin Roberts نے پراجیکٹ 2025 کے حوالے سے بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ یہ دوسرا امریکی انقلاب ہے او یہ امریکی بائیں بازو پر منحصر ہے کہ وہ اس کو خونی انقلاب بنانا چاہتے ہیں یا پرامن ۔
ہیریٹیج فاونڈیشن روایتی قدامت پسندوں اور ٹرمپ کی پاپولسٹ موومنٹ Make America Great Again یا ماگا کے درمیان ایک پل کا کام انجام دیتی رہی ہے۔ ٹرمپ اسی نعرے پر پہلی دفعہ امریکہ کے صدر منتخب ہوئے تھے۔ ٹرمپ کے پہلی دفعہ منتخب ہونے میں ماگا کے پیچھے مرکزی کردار برائیٹ بارٹ کے اسٹیو بینن Steve Bannon تھے ۔
سلیکون ویلی ایلیٹ کلاس جو عمومی طور پر لبرل اورغیر سیاسی سمجھی جاتی تھی، اس نے بھی گزشتہ برسوں میں ایک نئی کروٹ لی ہے۔ امریکی سرویلینس اسٹیٹ سے سلیکون ویلی کا رشتہ پرانا ہے ۔ چاہے وہ لیری ایلیسن کا سی آئی کے ساتھ project oracle جس نے بعد میں oracle کمپنی کی شکل اختیار کرلی، پیٹر ٹیل کی Palantir Technolgies ہو یا پھر امیزون کے جیف بیزوس کو ملنے والے سی آئی کے کانٹریکٹ ہوں۔حکومت کے ساتھ اس آنکھ مچولی نے ان ٹیک بلینرز کے دل میں براہ راست حکمرانی کے خواب جگا دیے ۔ٹیکنالوجی کی دیے ہوئے سرمائے اور دوسروں کی زندگی کنٹرول کرنے کی بے لگام طاقت نے ان tech–oligarchs کے اندر دوسرے عام انسانوں کے لیے حقارت کا جذبہ پیدا کیا اور ان کو انسانیت کی بہتری کے لیے براہ راست معاملات اپنے ہاتھ میں لینا ہی مناسب لگا ۔ اس سلسلے میں ان کو سب سے آسان راستہ ٹرمپ کی ماگا موومنٹ کے اندر راستے بنانا اور اس کو ہائی جیک کرنا لگا ۔ پیٹر ٹیل Peter Thiel نے سب سے پہلے ٹرمپ کی ماگا موومنٹ کی حمایت کا اعلان کیا ۔ پھر اس کے بعد کئی ٹیک بلینیرز یکے بعد دیگرے ٹرمپ کی حمایت میں سامنے آتے چلے گئے ۔ ہیریٹیج فاونڈیشن اور ماگا موومنٹ کو بھی ان ارب پتی شخصیات کی صورت میں ایک نعمت غیر مترقبہ نظر آئی ۔ماگا موومنٹ اور سلیکون ویلی کا مشترکہ مقصد نو دہائیوں قبل امریکی صدر فرینکلن ڈی روزویلٹ کی قائم کردہ ایڈمنسٹریٹو اسٹیٹ کی بیخ کنی تھی، مگر اس مرحلے کے حصول کے بعد ماگا اور سلیکون ویلی کی راہیں مکمل طور پر جدا ہوجاتی ہیں ۔ جس کا ادراک ماگا موومنٹ کے روح رواں اسٹیو بینن کوہے اور انھوں نے حکومت قائم ہونے کے بعد ایلون مسک کو سخت وارننگ جاری کی کہ تھہارے تعاون کا شکریہ ، تمھارے پیسے نے تمھیں ہماری میز پر تو جگہ دے دی ہے، مگر تم ایک نئے کنورٹ ہو اور نئے کنورٹ کی جگہ پیچھے بیٹھنا اور سننا ہے، منبر نہیں ۔ لیکن شاید اسٹیو بینن سے بھی ایلون مسک اور ٹیک مافیا کی طاقت کے تخمینے میں غلطی ہوگئی تھی، اور فی الحال ایلون مسک کو نہیں بلکہ اسٹیو بینن کو پچھلی نشست سنبھالنی پڑی اور وہ اپنا حساب چکتا کرنے کے لیے مناسب موقع کی تلاش میں ہیں ۔
سلیکون ویلی کے ان tech-oligarchs کی ذہنیت اور موجودہ حکومت میں ان کے کردار کو کو سمجھنا ہے تو پہلے یہودی النسل سافٹ وئیر انجینیر اور خود ساختہ فلسفی کرٹس یارون Curtis Yarvin کو جاننا ضروری ہے۔
۔ کرٹس یارون نے پیٹر ٹیل ، مارک اینڈریسن سمیت بہت سے tech-oligarchs کو اپنے فلسفے سے متاثر کیا اور پیٹر ٹیل ان کو سلیکون ویلی کا "ان ہاؤس" فلاسفر کہتے ہیں ۔ کرٹس یارون کے متاثرین میں موجودہ نائب صدر اور پیٹر ٹیل کی تخلیق جے ڈی وینس بھی شامل ہیں جو اپنی تقریروں میں بارہا کرٹس یارون کا حوالہ دیتے رہے ہیں ۔ یہ بات البتہ غور طلب ہے کہ کرٹس یارون نے ان سب لوگوں کو متاثر کیا ہے یا پھر کرٹس یارون نے ان لوگوں کے اندر موجود ڈکٹیٹرز کو ایک ایسی آواز مہیا کی ہے جس کا اظہار وہ خود کھل کر نہیں کرسکتے تھے۔ کرٹس یارون کھلے عام ڈکٹیٹر شپ کو جمہوریت پر فوقیت دیتے ہیں ۔ ان کے نزدیک گورنمنٹ کو ایک اسٹارٹ اپ کی طرح چلانے کی ضرورت ہے جہاں ایک سی ای او کی ڈکٹیٹر شپ چلتی ہے ۔کرٹس یارون نے RAGE یعنی Retire All Governemnt Employees کا نعرہ دیا جو آج کل DOGE کی شکل میں سرگرم عمل نظر آرہا ہے ۔
واقفان حال کا کہنا ہے کہ ٹرمپ کی موجودہ حکومت پراجیٹ 2025 سے زیادہ کرٹس یارون کے butterfly revolution کے فلسفے کے تابع نظر آتی ہے۔ سن 2022 میں کرٹس یارون نے اس عنوان سے ایک مضمون مشہور ویب سائٹ سب اسٹیک پر لکھا تھا۔ اس مضمون میں انہوں نے گورنمنٹ کو مکمل "ری بوٹ" کرکے ایک واحد تنظیم کو دینے کی بات کی جس کے پاس ایسے ہی اختیارات ہوں جو دوسری جنگ عظیم کے خاتمے کے بعد اتحادی فوجوں کو جرمنی اور جاپان پر حاصل تھے۔ اس مضمون میں انہوں نے ٹرمپ کی ممکنہ دوسری ٹرم کے حوالے سے کہا کہ ٹرمپ کو ایک سی ای او نامزد کرکے خود کے پس منظر میں رہتے ہوئے ایک بورڈ کے چئیر مین کی طرح عمل کرنا چاہیے. وہ لکھتا ہے "ٹرمپ(اس سیٹ اپ کا ) خود دماغ نہیں ہوگا... وہ سی ای او نہیں ہوگا۔ وہ بورڈ کا چیئرمین ہوگا—وہ سی ای او منتخب کرے گا جو کہ ایک تجربہ کار ایگزیکٹو ہوگا۔ یہ عمل، جو ظاہر ہے کہ ٹیلیویژن پر دکھایا جانا ضروری ہے، اس کی حلف برداری تک مکمل ہو جائے گا—جس کے بعد اگلی حکومت فوری طور پر اپنا کام شروع کرے گی۔" آگے چل کر وہ لکھتا ہے: "وہ سی ای او جسے ٹرمپ منتخب کرے گا، ایگزیکٹو برانچ کو بغیر کسی مداخلت کے چلائے گا، نہ کانگریس اور نہ ہی عدالتیں اسے روک سکیں گی۔ غالباً وہ ریاستی اور مقامی حکومتوں کا کنٹرول بھی سنبھال لے گا۔ زیادہ تر موجودہ اہم ادارے، چاہے وہ عوامی ہوں یا نجی، بند کر دیے جائیں گے اور ان کی جگہ نئے اور مؤثر نظام لیں گے۔ ٹرمپ ٹی وی پر اس سی ای او کی کارکردگی کی نگرانی کرے گا اور اگر ضرورت پڑی تو اسے برطرف بھی کر سکے گا۔"
کرٹس یارون کا حکومت کے حوالے سے یہ فلسفہ ایک جمہوری ملک میں مذاق ہی سمجھا جاتا، اگر اس کے مریدین اس وقت ملک کے اعلیٰ ترین عہدوں پر فائز نہ ہوتے اور عملی طور پر اس کے اس بلو پرنٹ پر عمل نہ ہورہا ہوتا۔ ایلون مسک اس وقت درحقیقیت ٹرمپ کے سی ای او کے طور پر ملک چلارہا ہے اور حیرت انگیز طور پر ٹرمپ کی نرگسیت بھی اس عمل میں آڑے نہیں آرہی۔ ٹرمپ کے پہلے دور میں جب اخبارات اور رسائل نے MAGA موومنٹ کے روح رواں اسٹیو بینن کو ٹرمپ کی ڈوریں کھینجچے والا شخص قرار دیا تھا تو ٹرمپ کی نرگسیت نے یہ ذرا بھی گوارا نہیں کیا اور اس نے اسٹیو بینن کو فوری طور پر اپنی انتظامیہ سے نکال باہر کیا تھا۔ اب ایلون مسک نے ٹرمپ سے ساری لائم لائٹ چھین کر اپنی طرف مرتکز کرلی ہے اور اپنی من مانی کرتا پھر رہا ہے جس کی منظوری ٹرمپ بعد میں دے رہا ہوتا ہے ۔یہاں تک کہ وائٹ ہاوس کے اندر پریس کانفرنس کے وقت ایلون مسک کے بیٹے نے ٹرمپ کے منہ پر بدتمیزی سے کہہ دیا کہ "تم اس ملک کے صدر نہیں ہو" ۔ یہ واقعہ بھی ٹرمپ کی نرگسیت کو جھنجوڑنے میں ناکام رہا تو اس کا واضح مطلب ہے کہ سلیکون ویلی کی ٹرمپ کے اوپر گرفت انتہائی مضبوط ہے ۔
تبصرہ لکھیے