ہوم << تعلیمی ادارے یا تجارتی مراکز؟ - ڈاکٹرعبیداللہ

تعلیمی ادارے یا تجارتی مراکز؟ - ڈاکٹرعبیداللہ

تعلیم کسی بھی معاشرے کی بنیاد ہوتی ہے، اور استاد و شاگرد کا رشتہ محض علمی منتقلی کا نہیں بلکہ تربیت اور کردار سازی کا بھی ایک اہم ذریعہ ہے۔ مگر جدید دور میں تجارتی بنیادوں پر چلنے والے تعلیمی اداروں نے اس مقدس رشتے کو شدید نقصان پہنچایا ہے۔ جب تعلیم ایک کاروبار بن جاتی ہے تو طلبہ کا درجہ ”شاگرد“ سے ”کلائنٹ“ میں تبدیل ہو جاتا ہے، اور استاد کی حیثیت ایک تربیت کار سے کم ہو کر محض ایک سروس پروائیڈر کی حد تک محدود رہ جاتی ہے۔

جدید نجی تعلیمی ادارے زیادہ تر کاروباری اصولوں پر چل رہے ہیں، جہاں ان کا بنیادی مقصد تعلیم دینا نہیں بلکہ منافع کمانا ہے۔ اس کے نتیجے میں:
• تعلیمی معیار گر جاتا ہے: کیونکہ طلبہ کی تعلیمی تیاری اور ان کی فکری صلاحیتوں پر کام کرنے کے بجائے ادارے زیادہ سے زیادہ طلبہ کو داخلہ دینے اور خوش رکھنے پر توجہ دیتے ہیں۔
• غیر تعلیمی سرگرمیوں پر زور: والدین کے مطالبات کو مدنظر رکھتے ہوئے ایسے اسکول اور کالج تفریحی سرگرمیوں، آرام دہ ماحول، اور تقریبات پر زیادہ توجہ دیتے ہیں بجائے اس کے کہ طلبہ کی علمی اور اخلاقی بہتری پر کام کریں۔
• طلبہ کا ”کلائنٹ“ بن جانا: جب ادارے طلبہ کو بطور ”گاہک“ دیکھنے لگیں تو پھر ان کی غلطیوں کی نشاندہی اور اصلاح ممکن نہیں رہتی، کیونکہ کاروباری اصول یہی ہے کہ ”گاہک ہمیشہ درست ہوتا ہے“ ۔

والدین بھی آج کل تعلیم کو ایک تفریحی تجربہ سمجھنے لگے ہیں۔ وہ اپنے بچوں کی علمی بہتری کے بجائے یہ سوالات زیادہ کرتے ہیں:
• کیا کلاس روم میں ائر کنڈیشنر لگا ہے؟
• کیا ادارہ باقاعدہ پارٹیز اور تفریحی ٹرپس کا انعقاد کرتا ہے؟
• کیا اساتذہ بچوں کو زیادہ سختی سے نہیں پڑھاتے؟

یہ طرزِ فکر ظاہر کرتا ہے کہ تعلیم کو والدین بھی محض ایک ”پروڈکٹ“ کے طور پر دیکھ رہے ہیں اور ان کا زور صرف بچوں کے آرام و آسائش پر ہے، نہ کہ ان کے تعلیمی معیار اور اخلاقی تربیت پر۔

جب طلبہ ”کلائنٹ“ بن جاتے ہیں تو اس کے نتیجے میں اساتذہ کی حیثیت کمزور پڑ جاتی ہے، کیونکہ:
• استاد کے لیے نظم و ضبط قائم رکھنا مشکل ہو جاتا ہے۔
• وہ طلبہ کو کسی غلطی پر ٹوکنے یا سختی سے سمجھانے کے مجاز نہیں رہتے، کیونکہ ادارے کو خدشہ ہوتا ہے کہ اگر طلبہ ناراض ہو گئے تو ان کے والدین فیس دینا بند کر دیں گے یا ادارے کی ساکھ پر سوال اٹھائیں گے۔
• تعلیمی ادارے اساتذہ سے زیادہ طلبہ اور ان کے والدین کی خوشنودی کو ترجیح دیتے ہیں، جس سے اساتذہ کی عزت اور اختیار میں کمی آتی ہے۔

ماضی میں تعلیم محض کتابی علم کی ترسیل نہیں تھی بلکہ استاد اپنے شاگردوں کی مکمل تربیت کرتے تھے، جس میں:
• اخلاقیات کی تعلیم دی جاتی تھی۔
• استاد کو مکمل اختیار حاصل ہوتا تھا کہ وہ طلبہ کی اصلاح کرے، حتیٰ کہ اگر انہیں سخت لہجے میں سمجھانے کی ضرورت پڑے تو بھی یہ برا نہیں سمجھا جاتا تھا۔
• شاگرد اساتذہ کی عزت کرتے تھے اور ان کے سکھائے ہوئے اصولوں کو اپنی زندگی کا حصہ بناتے تھے۔

مگر آج کا تعلیمی نظام، جو محض ایک کاروبار بن گیا ہے، استاد کے اس کردار کو تقریباً ختم کر چکا ہے۔

یہ صورتِ حال تعلیمی نظام کے لیے ایک بڑا چیلنج ہے، اور اس کا حل صرف اسی وقت ممکن ہے جب والدین، اساتذہ، اور تعلیمی ادارے اپنی ترجیحات کو درست کریں:
• والدین کی ذمہ داری: انہیں سمجھنا ہوگا کہ تعلیم صرف آسائشیں فراہم کرنے کا نام نہیں بلکہ بچوں کی فکری اور اخلاقی تربیت کا ایک اہم ذریعہ ہے۔
• تعلیمی اداروں کی ذمہ داری: اداروں کو اپنے کاروباری مفادات کو ایک طرف رکھ کر تعلیمی معیار کو بہتر بنانے پر توجہ دینی چاہیے، اور اساتذہ کو اتنی آزادی دینی چاہیے کہ وہ طلبہ کی اصلاح کر سکیں۔
• اساتذہ کی ذمہ داری: اساتذہ کو چاہیے کہ وہ جدید چیلنجز کے مطابق اپنی تدریسی حکمت عملی کو تبدیل کریں اور طلبہ کے ساتھ ایسا تعلق قائم کریں کہ وہ انہیں اپنا رہنما سمجھیں، نہ کہ صرف ایک سروس پروائیڈر۔

تعلیم کو ایک کاروبار بنانے کی روش نے طلبہ کو “شاگرد” کے بجائے “کلائنٹ” بنا دیا ہے، جس کے نتیجے میں تعلیمی معیار، اخلاقی اقدار، اور اساتذہ کا احترام سب کچھ متاثر ہو رہا ہے۔ جب تک اس مسئلے کا ادراک نہ کیا جائے اور تعلیم کو اس کی اصل روح کے مطابق بحال نہ کیا جائے، تب تک معاشرتی و تعلیمی زوال جاری رہے گا۔ ہمیں چاہیے کہ ہم تعلیم کو کاروبار کے بجائے ایک مقدس فریضہ سمجھیں اور استاد و شاگرد کے روایتی رشتے کو دوبارہ زندہ کریں تاکہ حقیقی معنوں میں ایک بہتر معاشرہ تشکیل دیا جا سکے۔