ہوم << حماس سے متعلق احمد جاوید صاحب کی رائے پر تبصرہ-حافظ محمد زبیر

حماس سے متعلق احمد جاوید صاحب کی رائے پر تبصرہ-حافظ محمد زبیر

بعض دوست احباب احمد جاوید صاحب کی ایک حالیہ ویڈیو پر تبصرہ مانگ رہے تھے۔ ہم نے اپنی رائے اس حوالے سے اپنے کتابچے "تاریخ بیت المقدس اور مسئلہ فلسطین" میں کافی عرصہ پہلے بیان کر دی ہے جو ہماری ویب سائیٹ پر موجود ہے۔ یہ کتابچہ، کتاب سرائے، اردو بازار، لاہور سے شائع بھی ہو چکا ہے اور وہاں سے حاصل کیا جا سکتا ہے۔

میں نے اس بابت احمد جاوید صاحب کے دو ڈیڑھ ڈیڑھ گھنٹے کے پوڈ کاسٹ سنے ہیں۔ پہلا ہیرو ورشپ کے نام سے تھا کہ جس میں کئی ایک موضوعات پر انہوں نے گفتگو کی کہ جن میں سے ایک ناصبیت تھا۔ جب انہیں کہا گیا کہ ان پر ناصبی ہونے کا الزام ہے تو انہوں نے جواب میں کہا کہ جو لوگ مجھ پر ناصبی ہونے کا الزام لگاتے ہیں تو انھیں ذرا کہیں کہ یزید کا ذکر کیے بغیر، اہل بیت میں سے حسین وعلی رضی اللہ عنہما کی تعریف کر کے دکھا دیں، اس طرح جس طرح ہم کر سکتے ہیں، اور ہمارے سامنے بیٹھ کر کریں۔ گویا کہ احمد جاوید صاحب کا کہنا تھا کہ ہم پر ناصبی کا الزام لگانے والے اہل بیت کی اس طرح سے مدح کرنے سے بھی تہی دامن ہیں کہ جس طرح ہم کر سکتے ہیں کہ یزید کے تذکرے کے بغیر ان کے پاس اہل بیت سے تعلق کے اظہار کے لیے کچھ بولنے کو ہے ہی نہیں۔ تو ایسے لوگ ہمیں ناصبی ہونے کا طعن کیونکر کر سکتے ہیں۔

دوسرا انہوں نے خمینی کے ولایت فقیہہ کے موقف پر تنقید کی کہ یہ نظریہ کسی عام شخص کو الوہی اختیارات (Divine Rights) دینے کی بات ہے کہ یہاں امام معصوم کی نیابت کا دعوی ہے اور نائب کے پاس اصل کے اختیارات ہوتے ہیں۔ ان کے بقول ایسی مذہبی استبدادی حکومتوں سے سیکولرازم مسلمانوں کے حق میں زیادہ بہتر معلوم ہوتا ہے۔ ایسے میں انہوں نے سنی مذہبی استبدادی حکومتوں کی بھی مخالفت کی۔ تیسرا انہوں نے زینبیون اور فاطمیون بریگیڈ کی کاروائیوں کی بات کی کہ کس طرح انہوں نے فرقہ وارنہ فسادات کی راہ ہموار کی۔ چوتھا موضوع حماس کی اقدامی کاروائی تھی۔ اس بابت انہوں نے حماس کے ساتھ ہمدردی محسوس کرنے کو بھی سنگدلی قرار دیا۔

دوسرا پوڈ کاسٹ فول پیراڈائز کے نام سے ہے کہ جس میں احمد جاوید صاحب کا انداز بیان کافی معتدل ہے، اگرچہ ان کی رائے سے اختلاف ہے۔ اس پوڈ کاسٹ میں اپنی رائے بیان کرتے ہوئے ان کا انداز "ہو سکتا ہے" یا "ہمارا گمان یہ ہے" جیسے جملوں پر مشتمل ہے۔ شروع میں احمد جاوید صاحب کا جو موقف آیا تھا، ہمیں اس موقف سے بھی اختلاف تھا اور اس کے انداز بیان سے بھی۔ مسئلہ قانونی اور فقہی نوعیت کا تھا جبکہ ان کی زبان ادبی رنگ لیے ہوئی تھی۔ اس انداز بیان کی وجہ سے ان کی پہلی ویڈیو پر بہت زیادہ رد عمل پیدا ہوا ، اور اس میں سے بڑا کچھ رد عمل زبان وبیان میں نامناسب بھی تھا۔

واضح رہے کہ احمد جاوید صاحب کے انداز بیان میں مبالغہ ہے۔ اور یہ میں نہیں کہتا بلکہ اکثر لوگ کہتے ہیں جو انہیں ریگولر سنتے ہیں۔ وہ جب کسی کی تعریف کریں گے تو اس کو آسمان پر چڑھا دیں گے اور جب کسی کی مذمت پر آئیں گے تو اسے زمین سے برابر کر دیں گے حالانکہ نہ تو وہ شخص اتنی مدح کے لائق ہوتا ہے اور نہ ہی اتنی مذمت کے قابل۔ شاعری اور ادب وغیرہ میں تو ایسا چل جاتا ہے لیکن فقہ وقانون، مذہب وشریعت اور فلسفہ وتاریخ میں شاید یہ انداز بیان عدم توازن کا سبب بن جاتا ہے۔ بلاشبہ احمد جاوید صاحب شاعر اور ادیب ہیں اور فیصح وبلیغ اللسان ہیں اور یہ انداز ان کی گفتگو کا حصہ بن چکا ہے۔ یہ ایک اعتبار سے بہتر ہے کہ ان کی بات بلیغ ہو جاتی ہے لیکن دوسرے اعتبار سے خطرناک ہو سکتا ہے، اس صورت میں جبکہ ان کا مخاطب ان کی شخصیت کے اس پہلو سے واقف نہ ہو اور مسئلہ قانونی وفقہی نوعیت کا ہو۔

اب نفس مسئلہ کی طرف آتے ہیں۔ احمد جاوید صاحب کی گفتگو کا حاصل ان کی دو دلیلیں ہیں؛ ایک شرعی اور دوسری واقعاتی۔ شرعی دلیل کہ جسے انہوں نے اپنے موقف کی بنیادی ترین دلیل قرار دیا ہے، یہ ہے کہ سورۃ الانفال میں دشمن سے جنگ کے لیے ایک دو کی نسبت کو شرط قرار دیا گیا ہے کہ مسلمان، دشمن کے مقابلے میں کم از کم نصف ہوں یا مسلمانوں کی طاقت دشمن کے مقابلے میں کم از کم نصف ہونی چاہیے تو جنگ کی اجازت ہے۔ لہذا اس نسبت کے بغیر جنگ کرنا، قرآن وسنت کی خلاف ورزی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اگر اس نسبت کے بغیر جنگیں کی ہیں، تو اس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ شروع میں ایک دس کی نسبت سے جنگ کی اجازت تھی کہ مسلمانوں کا ایمان زیادہ تھا اور یہ بھی قرآن ہی میں ہے۔ دوسری وجہ یہ تھی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ عزوجل کی براہ راست تائید ونصرت بصورت وحی حاصل تھی کہ جس سے آج کل کے مسلمان محروم ہیں۔

دیکھیں، سورۃ الانفال کی یہ آیت اقدامی جنگ کے بارے میں ہے نہ کہ دفاعی کارروائی کی بابت۔ دفاعی جنگ کی بابت کسی نسبت کی شرط موجود نہیں ہے۔ کوئی فرد یا قوم چاہے تو رخصت پر عمل کر لے اور غلامی قبول کر لے، اپنے علاقے دشمن کے قبضے میں جانے دے، یا عزیمت کا رستہ اختیار کرتے ہوئے اپنی آزادی کی خاطر اور اپنے جان ومال کے دفاع میں قربان ہو جائے، یہ اس کا فیصلہ ہے۔ دونوں صورتوں میں اس کے لیے اجر ہے۔

واضح رہے کہ احمد جاوید صاحب، حماس کی کاروائی کو اقدام ہی بناتے ہیں کہ انہوں نے پہل کی ہے اور دشمن کے علاقے میں گھسے ہیں۔ لیکن حماس اور عام اہل علم کا موقف یہی ہے کہ ان کی جنگ، دفاعی جنگ ہے کہ دشمن غاصب ہے، اور اس نے ان کی زمین اور علاقے پر قبضہ کر رکھا ہے۔ اور یہی بات درست معلوم ہوتی ہے کہ یہ دفاعی جنگ ہے نہ کہ اقدامی۔ اور اس پر اقدامی جنگ کی شروط عائد کرنا درست نہیں ہے۔ دفاع میں تو آپ علیہ السلام نے ایک صحابی کو اجازت دے دی تھی کہ اگر کوئی تم سے تمہارا مال چھیننا چاہے تو اسے مت دو۔ اور اگر وہ پھر بھی زبردستی لینا چاہیے اور اس کے دفاع میں تم قتل ہو جاؤ تو تم جنت میں جاؤ گے۔ اور اگر تم اسے مار دو تو وہ جہنم میں جائے گا۔ یہ صحیح مسلم کی روایت ہے۔ البتہ یہ اجازت ہے، فرض نہیں ہے۔ یہ بات درست ہے۔

عمرو بن حضرمی کا قتل وہ واقعہ تھا، جو جنگ بدر کا سبب بنا۔ یہ قتل سریہ نخلہ میں ایک مسلمان دستے کے ہاتھوں ہوا تھا اور وہ بھی حرمت والے مہینے میں کہ جس میں لڑائی کی ممانعت تھی۔ آپ علیہ السلام نے اس دستے سے ناراضی کا اظہار کیا اور مال غنیمت لینے سے انکار کر دیا۔ لیکن قرآن مجید کی آیات نازل ہوئیں اور اللہ عزوجل نے اس مسلمان دستے کی اس کاروائی کی حمایت کی، اور کہا کہ حرمت والے مہینوں میں جنگ اگرچہ بڑا جرم ہے، لیکن اس سے بھی بڑا جرم اللہ کے رستے اور مسجد حرام سے روکنا اور اللہ کا انکار کرنا ہے کہ جو ان مشرکین نے کر رکھا ہے۔ صیہونیوں نے بیت المقدس سے مسلمانوں کو جس طرح سے روک رکھا ہے، اور جس طرح کفر وظلم پر اڑے ہوئے ہیں، تو وہ بلاشبہ اس سے بہت بڑا جرم ہے جو حماس کے ہاتھوں ہوا ہے، اگر تو آپ کی نظر میں ایسا ہوا ہے، کہ انہوں نے غاصبوں کے علاقے میں گھس کر کاروائی کی ہے۔ پھر قرآن نے ایک اور بات کہی ہے کہ فتنہ، قتل سے بھی بڑا جرم ہے۔ اور فتنے سے مراد ایسا ظلم وستم کہ جس میں دین پر عمل مشکل ہو جائے۔

واضح رہے کہ غزوہ بدر میں حکیم بن حزام اور عتبہ بن ربیعہ وغیرہ کا مشورہ تھا کہ ہمارا قافلہ بچ نکلا ہے اور خیریت سے مکہ پہنچ گیا ہے لہذا ہمیں مسلمانوں سے لڑنے کی ضرورت نہیں۔ عتبہ بن ربیعہ نے قریش کو خطبہ بھی دیا اور سمجھایا کہ ایک ہی خاندان کے لوگ جنگ میں آمنے سامنے ہیں، خواہ مخواہ لڑائی کا فائدہ نہیں ہے۔ اس پر ابو جہل نے عمرو بن حضرمی کے خاندان کو اکسایا، انہوں نے واویلا کیا اور قریش جنگ پر تیار ہو گئے۔ تو بدر میں لڑائی کا بڑا سبب سریہ نخلہ کی کارروائی تھی۔ پس کتاب وسنت سے اس مسئلے پر استدلال ہماری نظر میں ایک کمزور استدلال ہے۔

جاوید صاحب کی دوسری دلیل یہ تھی کہ جب حماس کو علم تھا کہ وہ کارروائی کریں گے تو دشمن ریاست کی طرف سے جواب آئے گا۔ تو انہوں نے اس کا دفاعی انتظام کیا کر رکھا تھا؟ اس کا جواب خالد محمود عباسی صاحب نے یہ دیا کہ دفاعی انتظام تھا تو تبھی تو ابھی تک تنظیم باقی ہے اور قیدیوں کی حوالگی اور سپردگی بھی کس شان سے ہو رہی ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ یہ ایک بچگانہ جواب ہے۔ ایسے ہی جوابات کی وجہ سے احمد جاوید صاحب کہتے ہیں کہ ہمارا تحریکی مذہبی ذہن بہت ہی سادہ بلکہ حافظے کا کاٹھ کباڑ ہے۔ اس جواب پر پہلا اعتراض یہ ہو گا کہ تنظیم تو بچ گئی، عام مسلمانوں کا کیا ہوا یعنی تنظیم نے اپنے دفاع کا انتظام تو خوب کیا تھا لیکن عامۃ الناس کے دفاع کا کوئی انتظام نہ کیا۔ عامۃ الناس میں 90 فی صد بے گھر ہو چکے ہیں۔ 80 فی صد انفرا اسٹرکچر تباہ ہو چکا ہے۔ 48 ہزار شہید ہو گئے ہیں۔ ایک لاکھ سے زائد معذور یا زخمی ہو چکے ہیں۔ شہر اور محلے کھنڈر بن چکے ہیں۔ ان سب کے دفاع کا کیا انتظام تھا، یہ اصل میں جواب تھا کہ جس کا کوئی جواب نہیں ہے۔ دوسری طرف کے اعداد وشمار یہ ہیں کہ دشمن کے ایک ہزار سپاہی بھی جہنم واصل نہیں ہوئے ہیں، کوئی آٹھ سو کہہ رہا ہے، کوئی بارہ سو۔

تو حماس کی دفاعی اسٹریٹیجی بالکل نہ تھی، اس غلطی کو مانیں۔ عامۃ الناس کے لیے بات کر رہا ہوں کہ کوئی دفاعی حکمت عملی نظر نہیں آتی ہے۔ شاید اس کی وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ غاصب ریاست سے اتنے بڑے پیمانے پر ایسے رد عمل کی توقع نہ تھی۔ اگر ایسا تھا تو یہ بھی غلط تھا لیکن جنگوں میں انسان سیکھتا ہے۔ آپ علیہ السلام کے زمانے میں بھی یہ تھا کہ جنگ کا پلڑا ادھر ادھر ہوتا رہتا تھا اگرچہ بالآخر فتح حق ہی کی ہوئی۔ اُحُد میں ایک غلطی کے سبب بہت نقصان ہوا لیکن اللہ عزوجل نے یہی کہا کہ مسلمان اس سے سیکھیں۔ بس بات ختم۔ یورپ نے بھی جنگ عظیم اول اور دوم کے بعد یعنی اپنے آپ کو کھنڈر بنانے کے بعد ہی سیکھا ہے کہ کیسے لڑنا ہے۔ روس اور امریکہ شروع ہی سے اتنے سمجھدار نہ تھے کہ انہوں نے اپنے علاقوں کو میدان جنگ نہ بننے دیا ہو۔ انہوں نے جنگیں کر کر کے یہ سیکھ لیا ہے کہ کبھی ویت نام کی سر زمین پر لڑو تو کبھی یوکرین میں، کبھی افغانستان میں تو کبھی شام میں۔

شام میں بھی اسلامی تحریکوں نے سیکھا۔ اپنے افکار اور نظریات بدلے۔ احمد الشرع ہی کو دیکھ لیں کہ کہاں سے کہاں تک پہنچ گئے ہیں۔ تو اس دنیا میں سب سے زیادہ جس مخلوق میں تبدیلی آتی ہے، وہ حضرت انسان ہے۔ اور انسان میں بھی سب سے زیادہ جو چیز بدلتی ہے، وہ اس کا ذہن یعنی افکار ونظریات ہیں کہ وہ اپنے تجربات سے سیکھتا ہے اور اپنے آپ کو بدل لیتا ہے۔ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ اس غلطی پر بھی مایوسی کی ضرورت نہیں ہے۔ ان شاء اللہ، یہ سب سیکھیں گے اور سیکھ رہے ہیں۔ اور یہ غلطی کوئی ایسی غلطی نہیں ہے کہ جس پر ہم انہیں آخرت میں مواخذے اور سخت حساب سے ڈرائیں بلکہ یہ ایک ایسی غلطی ہے کہ جس پر ایک گنا اجر ہے، ان شاء اللہ عزوجل۔

البتہ احمد جاوید صاحب کا یہ شکوہ درست ہے کہ اکثر مذہبی ذہن دوسری رائے سننے پر آمادہ نہیں اور گالم گلوچ پر اتر آتا ہے۔ اس کا تجربہ ہر اچھے سوچنے سمجھنے والے رائٹر، اسکالر اور رہنما کو ہوتا ہے۔ یہ ہمارا المیہ ہے۔ اب احمد جاوید صاحب کو صیہونی ایجنٹ وغیرہ وغیرہ کہنے کی ضرورت نہ تھی۔ ان کی باتوں میں مبالغہ تھا اور وہ درست نہ تھا۔ انہوں نے اپنے اگلے بیان میں اس کا احساس کر کے اس کو معتدل کر لیا۔ مطلب انہوں نے بھی سیکھا کہ کسی موضوع پر اظہار بیان میں کن الفاظ کا چناؤ زیادہ مناسب رہے گا۔

باقی ہم سب کو بھی سیکھنا چاہیے کہ سب کی رائے ایک جیسی نہیں ہو سکتی۔ سب میرے یا آپ کے دماغ سے نہیں سوچ سکتے۔ رائے کا اختلاف ہو گا اور لازما ہو گا جیسا کہ داعش، ٹی ٹی پی وغیرہ کے بارے جید علماء نے اختلاف کیا کہ وہ غلط ہے۔ تو مسلمانوں پر تنقید، اسلام پر تنقید نہیں ہے۔ دونوں میں فرق کرنا چاہیے۔ جب خود اہل قدس میں اختلاف ہے کہ مسئلے کا حل جنگ یا مذاکرات ہو سکتے ہیں تو ہمیں بھی ہر رائے کا احترام کرنا چاہیے۔ غزہ اور ویسٹ بینک کی قیادت کے نقطہ نظر کا یہی بنیادی فرق ہے۔ اور ٹیبل ٹاک کی طرف جانے والے بعض ایسے بھی ہیں جو کسی زمانے میں حالت جنگ میں رہے جیسا کہ یاسر عرفات وغیرہ۔ تو دوسری رائے کے لیے ہم سب وسعت رکھیں، بھلے ایک رائے کی طرف ہمارا آپ کا رجحان ہو۔ یہ احمد جاوید صاحب کو بھی چاہیے اور ہمارے مذہبی طبقات کو بھی۔

اور جس شخص کی دینی خدمات زیادہ ہوں، اس کے بعض جملوں کو نظر انداز کر دیں، بھلے تلخ اور کڑوہے کسیلے ہی کیوں نہ ہوں، اور اس کے اصل مدعا کو ایڈریس کر کے اپنی بات رکھ دیں۔ اس سے زیادہ ہم کر بھی کیا کر سکتے ہیں۔ باقی احمد جاوید صاحب کی بہت خدمات ہیں۔ ہمارے بھی استاذ اور مربی بھی ہیں۔ ہم نے ان سے بہت کچھ سیکھا ہے۔ اور میں ان کی رائے سے اختلاف کرنے کے باوجود یہ کہوں گا کہ آپ ان کے دونوں پوڈ کاسٹ ضرور سنیں، بھلے اختلاف کریں اور رکھیں۔ لیکن اگلے کی پوری رائے سنیں۔ جزاکم اللہ خیرا

Comments

حافظ محمد زبیر

ڈاکٹر حافظ محمد زبیر نے پنجاب یونیورسٹی سے علوم اسلامیہ میں پی ایچ ڈی کی ہے۔ کامساٹس میں اسسٹنٹ پروفیسر ہیں۔ مجلس تحقیق اسلامی قرآن اکیڈمی لاہور کے ریسرچ فیلو ہیں۔ 4 کتب کے مصنف ہیں۔ کئی جرائد میں 150 سے زائد تحقیقی، فکری اور اصلاحی مضامین شائع ہو چکے ہیں۔ سوشل میڈیا پر وسیع حلقہ رکھتے ہیں۔ دینی امور پر رہنمائی کرتے ہیں۔

Click here to post a comment