مراد سعید کا یہ بیان کہ ”عمران خان مرسی نہیں اور تحریک انصاف اخوان المسلمون نہیں“، تاریخی اور فکری لحاظ سے بہت کمزور ،سطحی، بچگانہ اور بے بنیاد دکھائی دیتا ہے۔ اگر گہرائی سے تجزیہ کیا جائے تو اخوان المسلمون اور تحریک انصاف کا کوئی موازنہ نہیں بنتا، اور عمران خان کو محمد مرسی شہید سے ملانا بھی ایک سطحی اور غیر حقیقی بات ہوگی۔
اخوان المسلمون اور تحریک انصاف دو مختلف جہتیں ہیں
1. نظریاتی اساس:
• اخوان المسلمون ایک نظریاتی اسلامی تحریک ہے، جس کی بنیاد امام حسن البنا نے رکھی تھی۔ اس کا مقصد اسلامی تعلیمات کے مطابق سماج کی اصلاح، اسلامی ریاست کا قیام، اور مغربی استعمار کے اثرات کا خاتمہ تھا۔
• تحریک انصاف ایک قومی سیاسی جماعت ہے، جس کی بنیاد کسی نظریاتی فریم ورک پر نہیں بلکہ کرپشن کے خاتمے، انصاف کے قیام اور روایتی سیاست کے خلاف جدوجہد جیسے عمومی نکات پر رکھی گئی۔ اس میں اسلام پسندی، قوم پرستی، لبرل ازم، اور موقع پرستی سب کچھ ایک ساتھ نظر آتا ہے۔
2. عزیمت اور استقامت:
• اخوان المسلمون کی تاریخ قربانیوں، صبر، اور استقامت سے بھری ہوئی ہے۔ مصری، شامی، اور دیگر مسلم دنیا میں اخوان کے کارکنان نے ظلم برداشت کیا، شہادتیں دیں، سالہا سال قید کاٹی، مگر اپنے اصولوں پر قائم رہے۔
• تحریک انصاف کی سیاست میں نظریاتی استقامت کم اور مفاداتی وابستگیاں زیادہ نظر آتی ہیں۔ یوٹرن لینا ایک معمول بن چکا ہے، اور پارٹی بارہا اپنے ہی بیانیے سے پیچھے ہٹ چکی ہے۔
3. قیادت کا کردار:
• محمد مرسی شہید ایک فکری اور نظریاتی لیڈر تھے، جنھیں اخوان کی فکری تربیت اور تنظیمی نظم و ضبط حاصل تھا۔ انھوں نے اقتدار میں آکر اسلامی اقدار کے مطابق ریاستی امور چلانے کی کوشش کی، اور آخر تک اپنے موقف پر ثابت قدم رہے۔ انھیں ظالم فوجی حکومت نے قید میں ڈال کر شہید کر دیا، مگر وہ اپنے اصولوں سے پیچھے نہیں ہٹے۔
• عمران خان کا سیاسی سفر زیادہ تر موقع پرستی، اقتدار کے حصول اور پھر اس کے چھن جانے کے بعد مزاحمت پر مبنی رہا ہے۔ وہ نظریاتی بنیاد پر نہیں بلکہ عوامی مقبولیت اور اسٹیبلشمنٹ کی حمایت پر اقتدار میں آئے اور جب حالات بدلے تو بیانیہ بھی بدل گیا۔
4. عوامی تحریک اور سیاسی تنظیم:
• اخوان المسلمون ایک مضبوط، منظم، اور نظریاتی بنیادوں پر قائم جماعت ہے، جس کا ایک تربیتی اور فکری ڈھانچہ موجود ہے۔ کارکنان کا پارٹی سے تعلق وقتی یا جذباتی نہیں، بلکہ فکری وابستگی پر مبنی ہوتا ہے۔
• تحریک انصاف ایک عوامی جذباتی تحریک ہے، جس کے کارکن زیادہ تر سوشل میڈیا اور مظاہروں کی حد تک متحرک ہوتے ہیں۔ پارٹی میں تنظیمی ڈھانچہ کمزور ہے اور جب آزمائش آتی ہے تو لوگ بکھر جاتے ہیں۔
اخوان المسلمون کی تاریخ عزیمت، استقامت، اور قربانیوں سے بھری ہوئی ہے۔ یہ ایک ایسی تحریک ہے جس نے مسلسل ظلم، جبر اور ریاستی جبر کے باوجود اپنے اصولوں سے پیچھے ہٹنے سے انکار کیا۔ حسن البنا سے لے کر سید قطب، عمر تلمسانی، محمد بدیع اور محمد مرسی تک، اخوان کی قیادت اور کارکنان نے ہمیشہ اسلامی اصولوں پر مبنی سیاست اور سماجی اصلاح کے لیے قربانیاں دیں۔
میدانِ رابعہ:
اخوان کی عزیمت کی سب سے بڑی مثال میدان رابعہ میں دی گئی قربانی ہے. مراد سعید صاحب ویسے بھی آج کل ”عافیت“ کی زندگی گزار رہے ہیں. اگر صرف یہی ایک داستان پڑھنے کی زحمت کر لیں تو چودہ طبق روشن ہوجائیں گے۔ 2013 میں مصری فوج نے جنرل عبدالفتاح السیسی کی قیادت میں محمد مرسی کی حکومت کا تختہ الٹ دیا اور اخوان المسلمون پر کریک ڈاؤن شروع کر دیا۔ اس کے بعد لاکھوں افراد نے قاہرہ کے میدانِ رابعہ العدویہ میں دھرنا دیا، جسے تاریخ کا سب سے بڑا پرامن احتجاج قرار دیا جا سکتا ہے۔
14 اگست 2013 کو مصری فوج نے نہتے مظاہرین پر ٹینکوں، ہیلی کاپٹروں اور بھاری ہتھیاروں سے حملہ کر دیا۔
• ہیومن رائٹس واچ کے مطابق، کم از کم 1,000 سے 4,000 افراد شہید ہوئے، جن میں خواتین اور بچے بھی شامل تھے۔
• ہزاروں افراد زخمی اور گرفتار کر لیے گئے، جبکہ اخوان کے سینئر قائدین کو جیلوں میں ڈال دیا گیا۔
• محمد مرسی کو بھی قید کر دیا گیا، جہاں وہ کئی سالوں بعد عدالت میں ہی شہید کر دیے گئے۔
یہ اخوان المسلمون کی استقامت کی مثال ہے.
• اس ظلم و جبر کے باوجود اخوان نے ہتھیار نہیں اٹھائے، بلکہ سیاسی اور دعوتی جدوجہد جاری رکھی۔ یہ ایک ایسی تحریک ہے جو نہ جبر سے دبتی ہے، نہ اقتدار کے لالچ میں اپنے اصولوں سے سمجھوتہ کرتی ہے۔ میدانِ رابعہ کا قتلِ عام اور محمد مرسی کی شہادت اس تحریک کی استقامت کی روشن مثالیں ہیں، اب ذرا اس تناظر میں تحریک انصاف کو پرکھا جائے کہ یہ بیچاری کہاں کھڑی ہے. اس پس منظر میں دیکھیں تو واقعی عمران خان صدر محمد مرسی نہیں اور تحریک انصاف اخوان المسلمون نہیں.
تبصرہ لکھیے