کچھ دن پہلے کم سن ثنا خواں خواجہ علی کاظم اپنے رفقاء کے ہمراہ کار حادثے میں راہی ملکِ بقا ہو گئے، ان کی تربت پر اب تین راتوں کی شبنم پڑ چکی ہے لیکن ہمارے دلوں میں ابھی تک دکھ اور کرب کی دھول اڑ رہی ہے۔ فن اور جمالیات کے رشتے ویسے تو آفاقی ہوتے ہیں تاہم خصوصیت سے ان کے ہم مسلک حلقوں میں فرشِ عزا بچھی ہوئی ہے، تعزیتی تقریبات ہو رہی ہیں، ان کے ساتھ کھیلنے والے ہم عمر آج ان کے مرثیے پڑھ رہے ہیں اور سینکڑوں کی تعداد میں غم کا اظہار کرتی ویڈیوز گردش میں ہیں جن میں نونہال لاشے کے روبرو علی اکبر کی جواں مرگی کو یاد کیا جا رہا ہے۔ اس سب سے اس خیال کی تصویب ہوتی ہے کہ تشیع میں ہر نئے صدمے کو کربلائی عزاداری کے سائے میں رکھا جاتا ہے اس سے صدمے کے گرد عظمت و تقدیس کا حصار قائم ہوتا ہے جس سے کمیونٹی اپنے پرسے اور تسلی کا سامان پیدا کرتی ہے۔ سرِ دست تشیع میں حزن و ملال کے انھی گہرے اور مقدس رنگوں کا کچھ تذکرہ مقصود ہے۔
ویسے تو دکھ اور کرب سے انسانوں کا رشتہ بہت گہرا اور وسیع ہے۔ انسان نے ہنسنے سے زیادہ وقت رونے میں صرف کیا ہے۔ زندگی کو عموماً ایک تکلیف دہ واقعے کے طور پر دیکھا گیا ہے۔ اسی لیے ابو العلاء معرّی پیدائش کو بچے کے حق میں ستم سمجھتا تھا، اس نے اپنی قبر کے لیے یہ کتبہ تجویز کیا:”اس مدفون شخص پر اس کے باپ نے ستم ڈھایا ہے لیکن اس نے آگے کسی پر ستم نہیں ڈھایا۔“ یونانی مؤرخ ہیروڈوٹس نے کسی علاقے کے بارے میں لکھا ہے کہ وہاں بچے کی پیدائش پر ماتم ہوتا ہے۔”مؤرخین میں سے عظیم ترین“ گبن نے کہا کہ انسان کی ساری تاریخ بدبختی کے دفتر سے کچھ ہی بڑھ کر ہے۔بدھا نے تو اپنے مذہب کی بنیاد ہی اس پر رکھی کہ ”تمام دکھ ہے۔“ اس لحاظ سے دیکھا جائے تو دکھ سے انسان کا والہانہ لگاؤ کوئی انوکھی چیز نہیں ہے لیکن تشیع میں اس کا ظہور اپنی انتہائی شکل میں ہوا ہے۔
عمومی حالات میں رنج دل میں قیام کرتا ہے اور اکثر صورتوں میں آنکھ کے پردوں سے جھانک کر آنسوؤں کی شکل میں اپنے ہونے کا پتا دیتا رہتا ہے لیکن تشیع میں اسے جس طرح وارفتگی سے اجتماعی طور پر celebrate کیا جاتا ہے وہ خاصا منفرد ظاہرہ ہے۔ یہاں غم محض ایک سانحہ نہیں بلکہ وضعِ زندگی اور طرزِ حیات ہے، درد ایک ایک شخص کے دل میں نہیں ہے بلکہ پوری کمیونٹی ایک قلب میں ڈھل کر درد کا container بنی ہوئی ہے۔
کربلا کی عدیم النظیر ٹریجڈی تشیع کا باضابطہ نقطۂ آغاز ہے۔ لیسلی ہیزلٹن نے After the Prophet میں کربلا کو یسوع کی داستان کے ساتھ تشبیہ دیتے ہوئے بجا طور پر لکھا ہے کہ:”شیعی تناظر میں۔۔۔حسین نے اسی اخلاص کے ساتھ اپنی جان قربان کی ، جیسے یسوع نے چھے سو سال پہلے کی تھی۔۔۔ اُن کا موت کے سامنے سر تسلیم کرنا حتمی نجات کا مظہر بن گیا۔“ہیزلٹن نے یہ مماثلت تو ”کفارے“ اور ”عظیم قربانی“ کے تناظر میں ذکر کی ہے لیکن یہاں ایک اور پہلو بھی موجود ہے۔ وہ یہ کہ یسوع کی داستان ” انسانی کرب، تخیل اور اُمید کے عناصرِ ثلاثہ کی تخلیق “ہے۔کرب کا یہ عنصر کربلا کی حکایت میں اور زیادہ شدت کے ساتھ تخلیق فرما ہے۔ یہی کرب آگے تشیع کی پوری تاریخ کی روح رواں ہے۔
آئندہ ہر صدمے کو کربلا کے سائے میں رکھا گیا لیکن کربلا کے اندوہ کے ساتھ کسی اور صدمے کی شرکت کو غیرتِ عزاداری کے خلاف سمجھا گیا۔ ایک دفعہ دوستوں کی ایک محفل میں مرثیے اور کربلائی شاعری پہ بات چلی تو میں نے بلال کاظمی کاشعر پڑھا :
عاشور کے دن رہتے ہیں محتاط یہاں تک
اولاد بھی مر جائے تو پُرسہ نہیں لیتے
محفل میں موجود ایک باذوق دوست کہنے لگے کہ یہ محض شاعری نہیں بلکہ امرِ واقعہ ہے، اُنھوں نے اپنی بستی کے ایک اثنا عشری گھرانے کا بتایا کہ 9 محرم کو اُن کے جوان لڑکے کا ٹریفک حادثے میں انتقال ہوا، اُنھوں نے تعزیت کا فرش دو دن بعد 11 محرم کو جا کر بچھایا اور پُرسہ لینا شروع کیا۔ میں آج تک اس واقعے کے سحر سے نہیں نکل پایا، مجھے اس میں غم آشنائی اور اذیت پسندی کا وہی احساس ہوتا ہے جو غالب کا یہ شعر پڑھ کر ہوتا ہے:
ان آبلوں سے پاؤں کے گھبرا گیا تھا میں
جی خوش ہوا ہے راہ کو پر خار دیکھ کر
بیسویں صدی کے عظیم اشعری متکلم علی سامی نشار نے ”نشاۃ الفکر“ کی ایک پوری جلد تشیع پر لکھی ہے۔ نشار کا خیال ہے کہ اہلِ سنت اور معتزلہ کی فکر میں عقلی عنصر نمایاں ہے جب کہ اوائل امامیہ کے یہاں” جذبہ نمایاں ہے جو دل کی طرف متوجہ ہوتا ہے اور نفس انسانی کے شفاف آفاق کو متحرک کرتا ہے۔“ آگے چل کر علویوں کے یہاں المیوں اور ہلاکتوں کی فراوانی کو ذکر کر کے نشار نے لکھا:” امامیہ نے اُن المیوں کی گہری عکاسی کی، اُن کے شعرا اہلِ بیت اور عترت کو شدت سے روئے، انھیں وہاں غمگین انسانیت کی تصویر دکھائی دی۔ آہ و بکا اِن کا امتیازی وصف رہا، یہاں تک کہ ضرب المثل مشہور ہو گئی:أرق من دمعة الشيعة، فلاں کے آنسو شیعہ سے بھی رقیق ہیں۔“ انھیں میں سے ایک فاطمی عزیز باللہ (م 386ھ) کو یہاں تک کہنا پڑا:
يفرح هذا الورى بعيدهم
جميعا وأعيادنا مآتمنا
”دنیا اپنی عید پر خوش ہو رہی ہے جب کہ ہمارے ماتم ہی ہماری عیدیں ہیں۔“
آخر میں، مجھے اس پر کوئی بات نہیں کرنی کہ صدیوں کی گریہ زاری، عزا داری، ماتم، نوحہ خوانی اور سینہ کوبی اجتماعی نفسیات کو کس رخ پر لے کر جاتی ہیں، کیوں کہ رسوم تاریخ کی ثابت النسب اولاد ہیں اور تاریخ جبری اور فطری ہے۔ نیز کسی زمانے میں شریعتی نام کے ایک شخص نے اس گریہ زاری کو تشیع صفوی قرار دے کر تشیع علوی کی دعوت دی تھی، تاہم شریعتی کی دعوت کے بڑے حصے کے ہمراہ یہ بات بھی کتابوں کا رزق ہو کر رہ گئی۔ ویسے بھی یہ ایک کالم کی نہیں کتاب ہی کی بحث ہے، اور مجھے کتاب نہیں لکھنی بلکہ مجھے تو کرب کے ایک ہالے کی تعظیم کرنں ہے، وہ ہالہ جو میری محبوب آواز کے گرد بُنا گیا ہے، وہی محبوب آواز جو اب ہمیشہ کے لیے خاموش ہو چکی ہے۔
تبصرہ لکھیے