ہوم << اےاردو ہم شرمندہ ہیں - حسن ابوبکر

اےاردو ہم شرمندہ ہیں - حسن ابوبکر

اج دیوان غالب کی ورق گردانی کرتے ہوئے اچانک مرزا غالب کی مشہور زمانہ غزل سامنے آئی کہ :

ہزاروں خواہش ہے ایسی کہ ہر خواہش پہ دم نکلے
بہت نکلے میرے ارمان لیکن پھر بھی کم نکلے

اور

نکلنا خلد سے آدم کا سنتے آئے ہیں لیکن
بہت بے آبرو ہو کر تیرے کوچے سے ہم نکلے

شعر پڑھتے ہی ایک ناکام عاشق کی سخن آرائی ذہن میں کوندی کہ ناکامی عشق بھی جس کی انا کا نشہ کافور نہ کر سکی۔ ناکام و نامراد ہو کر بھی بڑے فخر سے سینہ پھلائے کہہ رہا تھا کہ:

نہ ہم مفلس نہ ہم لاغر نہ محتاج کرم نکلے
نہ ہم ان میں کے جو کہہ دیں کہ تیرے در پہ دم نکلے
وہ غالب تھے کہ جو بے ابرو ہو کر نکل آئے
ہزاروں گالیاں دے کر تیرے کوچے سے ہم نکلے

بہرحال شاعر کے لیے داد تو بنتی ہے جس نے ہار کر بھی شکست تسلیم نہ کی، اور دوسرے عاشقوں کے مانند صنف نازک کے سامنے سر تسلیم خم کرنا گوارا نہ کیا ، ورنہ عشق و محبت کی اس جنگ میں بڑے بڑے سورماؤں کو محبوب کی گلی سے گزرتے ہوئے پھسلتے دیکھا ہے. کبھی خدائے سخن میر تقی میر کو محبوب کے لبوں کی نازکی پر فدا پایا تو کبھی آتش کو محبوب کے زلفوں میں الجھا پایا اور کبھی غالب اس کی ایک ادا پر اپنے ہوش گنوا بیٹھے.

غرض یہ کہ ہمارا ہر شاعر عشق کی گتھیاں سلجھانے میں مصروف رہا، اور آئندہ نسل کو محبوب کو رام کرنے کے نت نئے تجربوں سے آشنا کرتا رہا . پھر نسل نو نے بھی اپنے اجداد کی روایات سے کمال پاسداری کا ثبوت دیتے ہوئے ان کی افسانوی اور رومانوی شاعری میں عملی رنگ بھرا اور گلی کوچوں، بازاروں اور چوراہوں سے گزرتی ہر ماہ جبیں کو تختہ مشق بنایا۔ نتیجتا عشق و محبت کی داستانوں کی طویل فہرست مرتب ہوئی، اور ہر کس و نا کس نے اس میدان میں طبع آزمائی کی، لیکن بیشتر لوگوں کو منہ کی کھانا پڑی. کچھ جی دار لوگ جنہوں نے لیلی مجنوں ،شیریں فرہاد ،سسی پنوں اور ہیر رانجھے کی کہانیاں سن رکھی تھیں، انہوں نے اس جذبے کو روگ کے طور پر اپنایا، لیکن ڈھاک کے وہی تین پات،محبوب کو کسی دوسرے کے گھر بیاہ دیا جاتا اور عاشق در بدر کے خاک چھانے لگتا۔

بیشتر شاعروں نے اپنے دل کا لاوا اگلنے کے لیے سخنوری کا انتخاب کیا۔پھر ہر وہ عاشق جسے محبوب کی گلی سے دھکے دے کر نکال دیا جاتا ،ان پیشہ ور شاعروں کا تلمذ اختیار کرتا اور چند مہینے کی ریاضت کے بعد ایک عظیم شاعر بن کر ابھرتا۔اس طرح معاشرے میں سستے شاعروں کی بہتات ہونے لگی اور نئی نئی بحور وجود میں آنے لگیں۔پھر نذیر دہلوی کی تحریروں کے پلندے اور پطرس بخاری کے مضامین کے انبار دھرے کے دھرے رہ گئے، اور ان گھنٹے کے شاعروں کے بے ڈھنگے اشعار کے سامنے غالب اور شیفتہ کی غزلیں بے وقعت ہوگئیں۔ ایسے شاعروں کی ایک لمبی قطار ہے جنھوں نے محبوب کے گھر سے اصلاح و مرمت کروانے کے بعد معاشرے کی اصلاح کا بیڑا اٹھایا اور در پردہ اردو ادب کا تیا پانچا کرنے لگے۔

خیر اتنا تو معلوم ہو ہی گیا ہوگا کہ یہ ناکام عاشق ہی تھے جنہوں نے اردو ادب کا بیڑا غرق کیا ، اور انھی کی کارستانیاں ہیں کہ آج ہم اردو ادب کے لطافت کو محسوس نہیں کر پا رہے . نئی نسل تو اس سے بالکل محروم نظر آتی ہے۔ بہرحال "اےاردو ہم شرمندہ ہیں"