کچھ روز قبل بھائی خالد احمدانصاری صاحب سے جون ایلیا کا تازہ مجموعہ کلام "کیوں" موصول ہوا۔ پہلے پہل تو یقین کرنا دشوار محسوس ہوا، گویا خواب کی سی کیفیت طاری ہو گئی ہو۔ جس شخصیت کو مدتوں سے دل و جان سے فالو کرتا آ رہا تھا، اس سے اس قدر اہم چیز کا موصول ہونا ایک ناقابلِ بیان مسرت کا باعث بنا۔ اس کیفیت کو میں جون کے الفاظ میں ہی بیان کروں گا کہ:
کبھی مجھ پیکرِ غبار کے پاس
موجہ نکہتِ صبا بیٹھے
خالد بھائی وہ شخصیت جن کی وابستگی برصغیر کی ادبی دنیا کے منفرد و یگانہ شاعر، جون ایلیا سے تھا۔ یہ وابستگی محض جون کے ذات سے نہیں تھی، بلکہ ایسا محسوس ہوتا ہےکہ یہ تعلق کسی ازلی روحانی رشتہ کا تسلسل ہے، گویا ایک غیبی رابطہ قائم ہوچکا ہو جو مکان و زمان کی قید سے ماورا ہے۔
خالد بھائی کے جون ایلیا سے تعلقات کی داستان کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ ان کی ادبی قربت، گہرے فکری روابط اور دیرینہ دوستی کے مظاہر ان کی گفتگو اور تحاریر کےہر زاویے میں جھلکتی ہیں۔ یہ وہ ہستی ہیں جنھیں جون ایلیا نے اپنے تمام غیر مطبوعہ مسودات کا امین بنایا تھا۔ ان کی رفاقت و حفاظت میں وہ مسودات محفوظ رہے، اور یوں جون ایلیا کے فن کو امر کر دینے کا سہرا بھی ان کے سر بندھتا ہے۔
جب مجھے انصاری صاحب سے یہ کتاب موصول ہوئی، تو گویا ایک خزانہ ہاتھ لگ گیا۔ پہلی فرصت میں پڑھنا شروع کر دیا اور پڑھتا ہی گیا۔ معلوم نہیں کہ کیسے وقت گزرا اور آخری صفحہ آن پہنچا! اس کتاب کے ہر ورق میں جون ایلیا کی روحانی موجودگی کا احساس ہوا۔ ایک ایسا ربط محسوس ہوا جو لفظوں سے ماورا تھا، جو دل و دماغ میں جاگزیں ہو کر دیرپا اثر چھوڑ گیا۔ یہ تجربہ میرے لیے ایک یادگار لمحہ بن گیا، جس نے میری ادبی زندگی میں ایک نیا باب کھول دیا۔
جس کا جواب ہی نہ ہو ایسا سوال کیا
کیا لکھ رہا ہوں، جانیے کیا لکھ رہا ہوں میں
'کیوں' جون کے فکر و فن کا عمیق مظہر ہے۔ یہ کتاب اسلوبیاتی تنوع اور فکری گہرائی کا مرقع ہے، جس میں جون کی بےباکی اور خود کلامی کا وہی منفرد رنگ جھلکتا ہے، جو ان کے دیگر مجموعوں میں بھی نمایاں ہے، لیکن فرق صرف اتنا ہے کہ کیوں تک آتے آتے یہ بےباکی کچھ شدید ہو گئی ہے۔اس میں موجود ہر نظم و غزل قاری کو ایک ایسے داخلی جہان کی سیر کرواتی ہے جہاں حسن، کرب اور تنہائی کے امتزاج سے وجودی جمالیات تخلیق ہوتی ہیں۔
ادبی جمالیات کے تناظر میں "کیوں" انسانی وجود کی کثیف پرتوں کو بےنقاب کرتی ہے۔ جون ایلیا کے یہاں حسن کی تلاش محض ظاہری شکل و صورت تک محدود نہیں، بلکہ وہ ذہنی، روحانی اور جذباتی پہلوؤں کی تہہ داری میں الجھے ہیں۔ ان کی شاعری میں استعاروں، پیکروں اور علامتوں کے ذریعے زندگی کے درد و مسرت کو ایسے فنکارانہ انداز میں پیش کیا گیا ہے کہ قاری مسحور ہو جاتا ہے۔ جون کا لفظوں کے ساتھ یہ بازی گری کا فن، 'کیوں' کو ادبی حسن کا ایک لازوال شاہکار بناتا ہے، جو قاری کو تفکر کی گہرائیوں میں ڈبو دیتا ہے۔
وجودیاتی نقطہ نظر سے دیکھا جائے تو "کیوں" جون ایلیا کی ایک ایسی تخلیق ہے جو زندگی کے کرب کو سوالیہ نشان کے طور پر پیش کرتی ہے۔ ان کی شاعری ایک ایسے شخص کی خودکلامی معلوم ہوتی ہے جو اپنی شناخت اور اپنے گرد و پیش سے ہم آہنگ ہونے کی ناکام کوششوں کا شکار ہے۔ ان کا یہ ادراک کہ انسان ایک ازلی تنہائی کا اسیر ہے، ان کی تحریروں میں جابجا جھلکتا ہے۔ وہ زندگی کے بنیادی سوالات پر مکالمہ کرتے ہیں اور ہر سوال کا انجام مزید سوالات میں ڈھال دیتے ہیں، جو وجودی اذیت کے ایک دائرے کا استعارہ بن جاتا ہے۔
عدمیت (Nihilism) کی جھلکیاں بھی "کیوں" میں کثرت سے نظر آتی ہیں، جہاں جون ایلیا کسی بھی مطلق سچائی ، اخلاقی اصول یا مذہبی روایت کو رد کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ ان کی شاعری میں بغاوت کا ایک ایسا آتش فشاں دہکتا ہے جو سماجی و مذہبی اقدار کو چیلنج کرتا ہے۔ ان کے یہاں ہر شے کی بےمقصدیت اور زندگی کی بےمعنویت ایک ایسا فکری سانچہ پیش کرتی ہیں جو قاری کو جھنجھوڑ کر رکھ دیتا ہے۔ یہ Nihilism نہ صرف ذہنی کرب بلکہ ایک تخلیقی بحران کی علامت بھی بن جاتا ہے، جو جون کی شخصیت کا مرکزی حوالہ ہے:
تاریخ کی قبروں میں اتر کیوں نہیں جاتے
یہ گزرے ہوئے لوگ، گزر کیوں نہیں جاتے
ہے گماں کچھ نہ تھا وہاں یعنی
کچھ نہیں ہے یہاں میاں، جی میاں
یہ جو ہے بھی ہے اور نہیں بھی ہے
ہے یہی جاوداں میاں، جی میاں
رسم کا ہر فریب کھا بیٹھے
ہم تو ہر رسم ہی اٹھا بیٹھے
وہ جو کبھی نہیں ہے، کہیں بھی نہ تھا کبھی
پھر مجھ سے رات اس کا پتا لے گیا ہے کون
اس کے علاوہ، 'کیوں' میں سیاسی موضوعات کی شدت ایک منفرد ابعاد میں نمایاں ہوتی ہے، جو ان کی بغاوت پسندانہ فکر کا آئینہ دار ہے۔ جون کے ہاں سیاسی و معاشرتی حالات پر شدید تنقید ان کے عہد کے جبر اور ظلم کے خلاف مزاحمت کا استعارہ ہے۔ ان کے ہاں اشعار میں انقلابی ولولہ اور فکری بغاوت اس انداز میں پروئی گئی ہے کہ قاری ہر لفظ میں ایک زلزلہ محسوس کرتا ہے۔ وہ سماجی و سیاسی مفاسد پر ایک گہرا طنز کرتے ہیں، گویا ہر آزار زدہ روح ان کے الفاظ میں اپنی تکلیف کی گونج سن رہی ہو:
جو لوگ کہ اس دور کا آزار ہیں وہ لوگ
مارے نہیں جاتے ہیں تو مر کیوں نہیں جاتے
سیاسی وفاداری اور قومی بیداری پر ان کی تنقید نہایت بےباک اور طنزیہ ہے، جو ان کے فکری استقلال اور مروجہ سیاسی اقدار سے بیزاری کی علامت ہے۔جون اپنے وقت کے سیاسی و سماجی ڈھانچوں کو مصلحت پسندی کا شکار سمجھتے ہیں اور اس کا رد اس شدت کے ساتھ کرتے ہیں کہ قاری کو خود سے سوالات کرنے پر مجبور کر دیتے ہیں۔ وہ نفرت انگیز سچائیوں کو بےنقاب کرنے کی جرات رکھتے ہیں۔ یہ شعر ان کی بغاوت کی انتہا کو ظاہر کرتے ہیں، جو ہر اس شے سے انحراف ہے جو سماج اور خصوصاً پاکستانی سیاست میں قبولِ عام ہے:
بے حس ہیں جو وہی ہیں وفادار قوم کے
اچھا یہ بات ہے تو وفادار نیستم
جون کے ہاں سیاسی قیادت کی نااہلی اور سماجی ناہمواری پر شدید برہمی موجود ہے۔ وہ اپنی شاعری میں سیاسی و معاشرتی رہنماؤں کو تنقید کا نشانہ بنا کر ان کی منافقت اور عوامی فریب کو بےنقاب کرتے ہیں۔ ان کے کلام میں یہ سیاسی شدت دراصل ایک ایسی فکری بغاوت ہے جو کسی بھی تبدیلی کے بغیر مایوسی اور بےچینی کی انتہا تک پہنچتی ہے۔ جون کا سیاسی شعور ان کے ہر حرف میں ایک تحریک کی صورت سانس لیتا محسوس ہوتا ہے، جو قاری کو سوچنے، سمجھنے اور مزاحمت کرنے کا حوصلہ دیتا ہے:
تین چوروں کا مال ٹھیرا ہے
اپنا ہندوستاں میاں، جی میاں
معنیاتی مطالعہ (Semantic Study) کے لحاظ سے 'کیوں' میں موجود ہر نظم و غزل گہرے فلسفیانہ اور نفسیاتی مباحث کو جنم دیتی ہے۔ جون ایلیا کے یہاں خدا، کائنات، وجود اور انسانی تعلقات کے مسائل کو مختلف جہات سے پیش کیا گیا ہے، جہاں ہر شعر ایک نئے معنیاتی امکان کو پیش کرتا ہے۔ ان کے یہاں موجود قنوطی اور وجودی رویے زندگی کے بےمعنویت کے احساس کو مزید گہرا کرتے ہیں۔ یہ اپنے اندر بےشمار معنیاتی پرتیں لیے ہوئے ہیں، جو قاری کو مختلف فکری تجربات سے گزارتا ہے۔ اس کتاب کا معنیاتی مطالعہ جون ایلیا کی گہری فکری پیچیدگیوں اور سوالیہ رویوں کو سمجھنے کے لیے ناگزیر ہے۔ درجہ ذیل اشعار میں جون کے فکر کے مختلف معنیاتی پرتیں واضح دکھائی دیتی ہیں:
ہاں کاروبارِ بود چلا ہے نبود پر
ہاں صفحہِ فضا پہ خلا لکھ رہا ہوں میں
اب تک تو میں بقا کی فنا میں فنا رہا
اس لمحے سے فنا کی بقا لکھ رہا ہوں میں
ہو دشوار زندگی اپنی
کتنی آسان ہوگئی ہو گی
ہو عشق بھی تو عقل کی بیداریوں کے ساتھ
فرصت بھی ہو تو خواب نہ دیکھا کرے کوئی
زندگی کی وضاحتیں ہیں عجیب
استعاروں کو بھول ہی جاؤ
"کیوں" کا ساختیاتی مطالعہ ہمیں جون کے کلام کی منظم فکری و فنی ترتیب کو سمجھنے کا موقع فراہم کرتا ہے۔ ساختیات کے اصولوں کے مطابق، جون کے اشعار میں زبان و بیان کی ایسی تشکیل نظر آتی ہےجو ہر مصرعے کو معنیاتی وحدت عطا کرتی ہے۔ جون خود کہتے ہیں:
میر کے خاندانِ معنی کا
جون ہی اک جوان باقی ہے
ان کی شاعری میں داخلی ربط، استعاروں کی پیچیدگی اور تکرارِ الفاظ ایک منظم شعری کائنات تخلیق کرتے ہیں:
ہم ایک ساحلِ دریائے خواب پر ہیں کھڑے
پہ جو بھی موج ہے ہم پر سراب لاتی ہے
شوقِ فزوں کو آج شام صاف جواب مل گیا
اب وہ معاشِ خدمتِ گیسوے خم بہ خم کہاں
دست بہ دست، دف بہ دف، دوش بہ دوش، صف بہ صف
نعرہِ دم بہ دم کے ساتھ، رقصِ قدم قدم کہاں
مجھ سے میری زندگی اکتا گئی
تم غزالہ آ گئیں؟ میں آ گئی
اب کہاں آن آن کا وہ ازل
ایک ابد آن آن باقی ہے
جون کا شعری انداز محض مخالفت یا انکار تک محدود نہیں، بلکہ یہ ایک نئے فکری افق کا استعارہ ہے۔ ان کی شاعری میں موجود ہر سوال اور ہر دعویٰ قاری کو اس کی اپنی فکری جمود سے جھنجھوڑ کر نکال دیتا ہے۔ وہ خالق و مخلوق کے تعلق کو نئے زاویوں سے دیکھنے پر مجبور کرتے ہیں، جہاں انسان اور خدا کے رشتے کو عام فہم عقائد سے مختلف انداز میں پیش کیا جاتا ہے:
خدا کی تو نہیں دنیا کو حاجت
خدا کو ایک دنیا چاہیے ہے
جون کی شاعری میں محبت اور وصال کا تصور بھی مروجہ تصورات سے بالکل مختلف ہے۔ وہ محبت کو محض جذباتی وابستگی یا روحانی تجربہ قرار نہیں دیتے، بلکہ اسے ایک فکری کرب اور مسلسل جستجو کا استعارہ بناتے ہیں۔ ان کے نزدیک محبت میں وصال محض ایک سہل تجربہ نہیں، بلکہ ایک پیچیدہ فکری آزمائش ہے۔ وہ محبت کو ایک ایسی کشمکش کے طور پر پیش کرتے ہیں جو انسان کی داخلی کائنات میں مسلسل حرکت پیدا کرتی ہے، اور یہی حرکت اصل محبت کا جوہر ہے:
[poetry]تو اپنا وصل کردے اور دشوار
کہ فرقت کو وظیفہ چاہیے ہے
جون ایلیا کی فکری بغاوت کا ایک اور اہم پہلو ان کی روایت شکنی ہے۔ وہ تاریخی حوالوں اور کرداروں کو نئے معنی عطا کرتے ہیں، جنھیں عام روایات میں کبھی تسلیم نہیں کیا جاتا۔ وہ ان کو اپنے منفرد فکری زاویے سے دیکھ کر قاری کو یہ احساس دلاتے ہیں کہ ہر کہانی کا ایک متبادل رخ بھی ہو سکتا ہے:
نہیں یہ داستاں گویوں کو معلوم
کہ یوسف کو زلیخا چاہیے ہے
"کیوں" پر یہ تما م تحریر ایک ابتدائی کوشش سے زیادہ نہیں، بلکہ ایک ایسے وسیع فکری دشت میں ایک معمولی ذرہ کی مانند ہے۔ جون ایلیا کی اس کتاب میں موجود خیالات، نظریات اور بغاوتی رویے اتنے پیچیدہ اور متنوع ہیں کہ ہر قاری کے لیے ان کا ادراک مختلف اور منفرد ہو سکتا ہے۔ یہ مجموعہ محض اشعار کا تسلسل نہیں، بلکہ ہر لفظ ایک زندہ سوال ہے، ہر مصرعہ ایک الگ فکری دروازہ کھولتا ہے۔ میں نے یہاں ان کے مروجہ خیالات سے بغاوت، فلسفیانہ قنوطیت، اور سیاسی و سماجی تنقید کو اپنے فہم کے مطابق بیان کرنے کی کوشش کی ہے، مگر حقیقت یہ ہے کہ جون ایلیا کے کلام کی تہہ در تہہ گہرائیاں ایک عمر بھر کے مطالعے اور مکالمے کا تقاضا کرتی ہیں۔
مزید یہ کہ "کیوں" کے اندر مضمر فکری جہات کو مکمل طور پر سمجھنے کے لیے ہمیں مختلف فلسفیانہ، وجودیاتی، اور جمالیاتی نقطہ ہائے نظر سے اس کتاب کا مطالعہ کرنا ہوگا۔ ہر شعر میں معنیاتی پرتوں اور اشارات کی ایسی کثرت ہے جو قاری کو خود اپنی زندگی کے تجربات اور خیالات سے وابستہ کر لیتی ہے۔ اس محدود مضمون میں مَیں نے ایک چھوٹی سی جھلک پیش کرنے کی سعی کی ہے، مگر یہ ادراک ہونا ضروری ہے کہ جون ایلیا کے فکری جہان کو مکمل طور پر سمجھنے کا سفر کبھی ختم ہونے والا نہیں۔ یہ کتاب، درحقیقت، ایک ایسی غیر محدود فکری کائنات ہے جو ہر بار نئے امکانات اور نئے سوالات کے ساتھ قاری کو مزید غور و فکر کی دعوت دیتی ہے۔ اب آخر میں ملاحظہ فرمائیں یہ خوبصورت اور منفرد غزل، جو جون ایلیا کے فکر و احساس کی عکاس ہے۔ اس سے محظوظ ہوں اور ان کے شعری جہان کی مزید وسعتوں کا لطف اٹھائیں!!
مانا کہ بے وفا ہے وہ، اُس میں وفا کی بُو نہیں
ہم بھی تو ہیں قصور وار، ہم بھی تو سُرخ رُو نہیں
حیف کہ میری ذات کا زور نہیں رہا کوئی
صبح کی گفتگو نہیں، شام کی گفتگو نہیں
ہم ہیں عجیب شہر کے، ہم ہیں عجیب شہر میں
شہر کی آبرو نہیں، شہر میں آبرو نہیں
صبح کے ہیں بہت ملال، شام کے ہیں بہت ملال
یعنی یہ ہے کہ میں نہیں، یعنی یہ ہے کہ تُو نہیں
جس چمنِ عجیب میں ہم پہ بہار آئی تھی
اُس چمنِ عجیب کا، نام نہیں، نمو نہیں
آپ کا رنگ و بُو ہوں میں، آپ ہی مجھ سے دُور ہیں
آپ کا آئینہ ہوں میں، آپ ہی رُو بہ رُو نہیں
وقت میں رنگ کیجیے، رنگِ عجب میں آئیے
وقت ہے مقتلِ عجب، تیغ نہیں، گلو نہیں
تبصرہ لکھیے