ہوم << احمد جاوید صاحب کی تنقید اور فیصلہ جہاد - حسان بن علی

احمد جاوید صاحب کی تنقید اور فیصلہ جہاد - حسان بن علی

جہادِ طلب (جہادِ قدومى يعنى جب مسلمان کفار کے علاقے کو اپنے زیر نگین لانے کے لیے چڑھائی کریں) کا مسئلہ جہادِ دفاع (جب دشمن مسلمانوں کے علاقے میں چڑھائی کریں) سے مختلف ہے کہ جہادِ طلب کی فرضیت علی سبیل الکفایہ ہے جبکہ جہادِ دفاع کی فرضیت على سبيل الأعيان ہے یعنی جہادِ طلب کی فرضیت سب اہل علاقہ پر عائد نہیں ہوتی جبکہ جہادِ دفاع کی فرضیت سب اہل علاقہ پر عائد ہوتی ہے اور اگر وہ بھی اس کے لیے نا کافی ہوں تو ان کے قریب تر والوں پر. اسی طرح شرائط جہاد میں فرق، مثلا یہ کہ جہاد طلب کے لیے والدین کی مرضی لازم ہے جبکہ جہادِ دفاع کے لیے والدین کی مرضی لازم نہیں. اسی طرح جہادِ طلب کے لیے اذنِ امام ضروری ہے جبکہ جہادِ دفاع کے لیے امام کا ہونا ضروری نہیں.

اور جب امام یا حکمران اس چیز کا فیصلہ (decision) کر لے کہ جہادِ طلب کیا جائے گا تو مطلوب تعداد و وسائل سے اس طلب پر لبیک کہنا لازم ہے کہ اس میں اصل یہ حديث ہے کہ "إذا استنفر الإمام فانفروا ...کہ جب جہاد کے لیے طلب کیا جائے تو نکل کھڑے ہو (صحيح البخاري)". رہا یہ امر کہ جہادِ طلب کا فیصلہ (decision) کس صورت کیا جائے تو اس کے لیے نہ صرف تیاری ہونا شرط ہے بلکہ نصرت کا امکان غالب ہونا بھی ضروری ہے کہ اس میں اصل وہ حدیث ہے کہ مومن اپنے آپ کو ذلیل نہیں کرتا کہ اپنے آپ کو ایسی مشکل میں ڈالے جس کا وه تحمل نہ رکھتا ہو. لہذا امام کو چاہیے کہ اپنی تعداد و وسائل اور اسی طرح مخالف کے تعداد وسائل کو دیکھ کے اس کا فیصلہ کرے نیز اس میں اہل ایمان کى ثابت قدمی کا اعتبار بھی ضروری ہے کہ اس میں یہ شرط نہیں کہ دونوں طرف برابر کے قوتیں ہوں يعنى ہم پلہ طاقتیں ہوں بلکہ اہل ایمان اگر جنگ کا تحمل رکھنے والے ہوں (الصابرون) تو وہ ہم پلہ نہ ہوتے ہوئے تو بھی کفار پر غالب آ سکتے ہیں. لہذا دونوں طرف کے تعداد وسائل میں اس كا اعتبار کیا جانا فیصلے سے قبل ضروری ہے (دیکھیے سورۃ انفال آیت ٦٥)

رہا جہادِ دفاع کا معاملہ تو اس کے لیے تیار ہونا یا تیار رہنا تو دشمن کے حملے سے پہلے ہى لازم ہے کہ اس میں اصل یہ ہے کہ "وأعدوا لهم ما استطعتم من قوة ومن رباط الخيل ... اور ان کے لیے جتنی قوت ہوسکے تیار رکھو اور جتنے گھوڑے باندھ سکو (سورۃ انفال آیت ٦٠)" اور یہاں مزید وقت اس تیاری کے لیے لیا جا سکتا ہے کہ موجود تعداد و وسائل کو حکمت عملی کے تحت بروئے کار لايا جائے نہ کہ ایسی تیاری میں لگ جانا جس سے دشمن مسلمانوں پر مزید تمکن حاصل كر لے کہ اس میں اصل یہ ہے "کہ اے ایمان والو جب کافروں سے تمہارا آمنہ سامنا ہو جائے جبکہ وہ چڑھائی کر کے آ رہے ہوں تو ان کو پیٹھ مت دکھاؤ (سورۃ انفال آیت ١٥)" اسى طرح یہ حديث کہ "دشمن سے ملاقات کی تمنا نہ کرو لیکن اگر دشمن سے سامنا ہو جائے تو ثابت قدمی دکھاؤ ( صحيح البخاري)". يعنى جہادِ طلب میں جہاد سے پہلے ثابت قدمی جانچنے کا حکم ہے جبکہ جہادِ دفاع میں ثابت قدمی دکھانے کا. اسى طرح جہادِ دفاع میں كاميابى کا امکان غالب ہونا بھی ضروری نہیں البتہ حکمت عملی ضرور ایسی ترتیب دی جائے گی جو كاميابى کے امکانات کو یقینی بنائے.

-دو چیزوں میں فرق واضح رہنا ضروری ہے، ایک ہے Oct حملے کی حقیقت يا اپنی اصل کے لحاظ سے اس حملے کا تعین، تو حقیقت یا اپنی اصل کے لحاظ سے يہ شرعا درست اقدام تھا اور دوسرى چیز بطور حکمت عملى Oct حملے کو اختیار کرنا یا حملے کے بعد کی کامیاب یا ناکام حکمت عملی پر بحث تو یہ الگ موضوع ہے. احمد جاوید صاحب نے دونوں چیزوں کو ملا کر ایک شعرى ملغوبہ بنا ڈالا ہے جو کہ شرعی (فقہى) ملغوبے (تلفيق) سے زیادہ خطرناک ہے. کیونکہ اگر احمد جاوید صاحب انہیں مظلوم مانتے ہیں تو مظلوم کا حق دفاع تو مسلم حق ہے اب اس حق کو کیسے اور كس صورت استعمال کیا جائے کہ ظلم سے نجات ممكن ہو تو اس میں اختلاف رائے تو ہو سکتا ہے لیکن یہ اختلاف رائے حکمت عملی کے دائرہ کار سے متعلق ہے نہ کہ اصل مسئلے کی شرعی حیثیت سے متعلق. چنانچہ اس میں ان كا اس فعل کو درندگی سے موصوف کرنا قطعا مناسب نہیں اور ايسا كرنا اس حملے کو اپنی اصل میں یا حقیقت کے لحاظ سے ہى غلط ٹھہرانے کے مترادف ہے.

-احمد جاوید صاحب کے اعتراضات کا بنیادی محور یہی معلوم ہوتا ہے کہ اہل رباط نے قابض ریاست پر Oct حملے سے قبل ہم سے ہماری رائے معلوم نہیں کی یعنی مسلم ممالک کو اعتماد میں نہیں لیا، مطلب یہ کہ ہم سے پوچھے بغیر ہم پر ذمہ داری ڈال دی گئی. تو اس معصومیت پر تو یہی کہا جا سکتا ہے کہ ایسے میں تو قابض ٹولے کو چاہیے تھا کہ قبضے سے قبل ہی ہم سے ہماری آمادگی معلوم کر لیتے کہ آيا ہم اس کے لیے تیار بھی ہیں يا نہیں اور اگر ايسا نہیں تو پھر گلہ خدا سے ہی بنتا ہے کہ اس نے ایسی جابر قوم کو اس مقدس مقام پر مسلط کر دیا. (ان فيها قوما جبارين). ویسے قرآن پاک بھی کیا خوب آفاقی کلام ہے کہ سورۃ آل عمران کی آیت 154 ایک بار پھر تازہ ہو گئی کہ اگر ہم سے پوچھ لیا جاتا اور ہماری بات مان لی جاتی تو ہم یہاں (اس طرح) مارے نہ جاتے.

-درحقيقت مقدس مقام اور اس سے جڑے مظلوموں کا مسئلہ امت مسلمہ مرحومہ کا مسئلہ ہے ليكن عملا امت کا نہ كوئى ايک امام (نمائندہ) موجود ہے نہ ہی امت (مسلم ممالک کا) کا کوئی موثر وفاق ہے اور صورتحال یہ ہے کہ عملا اكثر عرب ممالك اس مسئلے سے لا تعلق ہیں يا کیمپ کے دوسرے طرف. تو ایسے میں مقدس مقام کی آزادی کے لیے انہی کو نمائندہ سمجھا جائے گا جو نہ صرف یہ کہ حالت جنگ میں ہیں بلکہ اس فریضے کو قیادت کی سطح پر کردار ادا کر رہے ہیں. لہذا یہ کہاں کی منطق ہے کہ الٹا انہی سے مطالبہ کیا جائے کہ وہ یہ چوکیداری چور ممالك کے حوالے کر دیں اور یہ اختيار ان چوروں کو سپرد کر دیں کہ وہ سر جوڑ کے راست اقدام کا تعين کریں. كيا آپ یہ چاہتے ہیں کہ جہاں اکثر کانے ہیں وہاں سبھی کانے ہو جائیں تاکہ یکسانیت برقرار رہے اور کانوں کو کم مائیگی کا احساس نہ ہو!

-اسی طرح احمد جاوید صاحب کا یہ تاثر دینا کہ اہل رباط (قيادت) کا مسئلہ اور ہے اور مظلوموں کا مسئلہ اور ہے اور یہ دونوں جداگانہ شناختیں ہیں درست نہیں. درحقیقت اہل رباط باہر سے مسلط نہیں کیے گئے بلکہ انہی میں سے وہ جواں مرد ہیں جنہوں نے ذمہ داری نبھانے کے لیے نہ کہ مزے لوٹنے کے لیے قیادت کو سنبھال رکھا ہے. اگر اُدهر بستى والوں کو ان کی قیادت پر کوئی اعتراض نہیں، نہ ہی ان کے اس Oct حملے پر کوئی تشويش تو چوتھے محلے سے Oct حملے پر اعتراض مناسب معلوم نہیں ہوتا. (الإمام جنة يقاتل من ورائه ويتقى به ...امام ڈھال ہے، اس کے پیچھے جنگ کی جاتی ہے، اس کے ذریعے سے تحفط حاصل کیا جاتا ہے. صحيح مسلم)

-اسى طرح اقدام اور احجام کے درمیان ترجیحی صورتحال سے وہ لوگ زیادہ واقف ہیں جو کہ میدان جنگ میں ہیں نہ کہ وہ لوگ جو کہ میدان سے دور. آپ صلی اللہ علیہ وسلم بھی جب جنگ کے لیے کسی لشکر پر امیر مقرر کرتے تو حکمت عملی کے اختیارات بھى اس کو تفویض کر تے اور مسلمان لشکر کو پابند کرتے کہ وہ ان اختیارات میں اپنے امیر کی اقتدا کریں. (وإذا جاءهم أمر من الأمن أو الخوف أذاعوا به ولو ردوه إلى الرسول وإلى أولي الأمر منهم لعلمه الذين يستنبطونه منهم...اور جب ان کے پاس امن یا خوف کی کوئی خبر پہنچتی ہے تو اس کو مشہور کردیتے ہیں اور اگر اس کو پیغمبر اور اپنے امراء کے پاس پہنچاتے تو تحقیق کرنے والے اس کی تحقیق کر لیتے)

کیا اہل رباط کو چاہیے تھا کہ پہلے مسلمان ملکوں کی گول میز کانفرنس بلاتے کہ دشمن بھی ان کی چال پر مطلع ہو جاتا. ہرگز نہیں، بلکہ مسلم قیادت کو تو چاہیے کہ حملے کی کانوں کان خبر نہ ہونے دے تاکہ دشمن اس سے فائدہ نہ اٹھا سكے اور عوام کو چاہیے کہ ان كى تدبير پر بھروسہ رکھیں اور یہی چیز ہمیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ سے بھی ملتی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم جس جگہ کا جنگ کا ارادہ کرتے تو اس کو صیغہ راز میں رکھتے (صحيح البخاري) اور اسی طرح یہ عمل بھی ملتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم جب کسی مہم کے لیے روانہ ہوتے تو یہ کہتے کہ ہمیں ایک ضرورت نے آ ليا ہے تو جس کے پاس سواری تيار ہو تو وہ ہمارے ساتھ چلے.

-رہا احمد جاوید صاحب کا یہ اشکال کہ کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھى عورتوں اور بچوں کو ایسی مشکل میں ڈالا تھا؟

تو اولا اس پر عرض یہ ہے کہ درحقيقت تو اكثر عرب ممالک نے ان عورتوں اور بچوں کو قابض ریاست کے رحم و کرم پر چھوڑ رکھا ہے. اہل رباط نے تو انہیں Oct حملے کے ذریعے قابض رياست کے ظلم و ستم سے نکالنے کی تدبیر چاہی تھی.

دوسرا یہ کہ جب بدر میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم لشکر کو لے کر پہنچے تو اگر کفار قریش اس لشکر کو ختم کر دیتے تو خود فرمان نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے مطابق وہ جماعت اگر ختم ہو جاتی تو خدا کا نام لینے والا کوئی نہ بچتا (صحيح مسلم) لیکن اس کے باوجود جرات اور ثابت قدمی کے ساتھ اقدام کیا گیا. جبکہ اگر یہاں اہل رباط (قيادت) اور مظلومین مٹا بھی دیے جاتے تب بھی پوری کی پوری بقايا امت اپنے اچھے اور بروں کے ساتھ باقی رہتی. تو جس سوال کو انہوں نے اہل رباط کی طرف متوجہ کیا ہے وہ سوال تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف بدرجہ اولی متوجہ ہے!

تيسرى بات یہ کہ اصل تو یہى ہے کہ جنگ کے لیے مرد ہی بروئے کار آئیں اور مردانہ وار آئیں يعنى مرد ہی صف اول میں ہوں. لیکن اگر دشمن علاقے میں گھسا آئے تو مردوں کے ساتھ عورتوں پر بھی بقدر استطاعت ضروری ہو جاتا ہے کہ وہ اپنی صلاحیت کے مطابق عمل جہاد میں شریک ہوں. چنانچہ ہمیں سیرت میں ملتا ہے کہ عورتیں اپنے انداز میں میدان جہاد میں شریک ہوتی تھی کہ زخمیوں کی دیکھ بھال کرتی تھیں اور ان کے لیے پانی کا بندوبست رکھتی تھیں (صحيح مسلم). جیسے ام سلیم رضی اللہ تعالی عنہا نے غزوہ حنین کے دن اپنے پاس ایک خنجر رکھ لیا تو جب رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے سے پوچھا یہ خنجر کیسا ہے انہوں نے کہا میں نے یہ اس لیے لیا ہے کہ اگر مشرکوں میں سے کوئی میرے قریب آیا تو میں اس سے اس کا پیٹ چاک کر دوں گی یہ سن کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہنسنے لگے (صحيح مسلم). اسی طرح امام بخاری نے یہ باب باندھا ہے کہ (باشعور) بچے کو خدمت کے لیے جہاد پہ لے جایا جائے اور اس کے تحت حدیث لے کر آئے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ابو طلحہ کو کہا کہ میرے لیے اپنے بچوں میں سے کوئی (باشعور) بچہ میرے ساتھ کر دو جو کے غزوہ خیبر میں میری مدد کرے (صحيح البخاري). اسی طرح امام بخاری نے یہ باب باندھا ہے کہ جنگ میں کمزوروں اور نیکوکاروں کے ذریعے مدد حاصل کی جائے کہ ان کی موجودگی جنگ میں نصرت کا باعث ہے اور اسى طرح شہنشاہ روم کا حضرت ابو سفیان کے ساتھ مکالمہ ذکر کیا ہے کہ رسولوں کے ابتدائی متبعین کمزور لوگ ہی ہوا کرتے تھے. لہذا جہاں بستی والوں نے بشمول عورتوں اور بچوں کے ثابت قدمی دکھائی تو وہاں ان مسلمان ملکوں کو سوچنا چاہیے جو کہ عورتوں کی طرح بیٹھ رہے. (اقعدوا مع القاعديں). اسى طرح مبارک باد کے مستحق ہیں وہ ممالک جنہوں نے جہاد کی مختلف صورتوں میں سے کسی صورت اهل رباط کا ساتھ دیا کہ جہاد میں شرکت کی متعدد صورتیں ہیں، جن میں سے کچھ صورتیں جیسے میڈیا وار كو بعض مسلم ممالک جیسے قطر باقاعدگی سے نبھاتے رہے اور اسلامی تاریخ میں اس کی مثالیں حضرت حسان بن ثابت، عبداللہ بن رواحہ، کعب بن مالک رضی اللہ عنہم کی صورت میں موجود ہیں. اسی طرح بعض ممالک نے قابض ریاست کے جنگی جرائم کو آشکار کرتے ہوئے فوری جنگ بندی کے لیے راہ ہموار کی.

-اسى طرح اہل رباط کی طرف سے دشمن کى بعض عورتوں اور بچوں کا مارا جانا بھی سمجھ لیجئے. اس میں جاننا چاہیے کہ اگر نشانہ بناتے وقت انہی (معصوم عورتوں اور بچوں) کا قصد کیا جائے تو یہ جائز نہیں لیکن اگر وہ نشانے کی زد میں آ جائیں کہ دشمن اور ان کی عورتوں اور بچوں کے درمیان تفریق کرنا ممکن نہ ہو تو شریعت نے اس کی اجازت دے رکھی ہے جیسے کہ ایک حدیث میں آتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا کہ ہم نے جس وادی میں شب خون مارنا ہے تو کیا ہو اگر ان كى عورتیں اور بچے اس حملے کی زد میں آ جائیں. تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے میں فرمایا وہ انہی میں سے ہیں یعنی اس معاملے کو روا رکھا کہ اندھیرے میں یہ ممکن نہیں کہ دشمن اور ان کی عورتوں، بچوں کے درمیان تفریق کو روا رکھتے ہوئے حملے کو کامیاب بھی بنایا جا سکے (صحيح البخاري)

-اسى طرح احمد جاوید صاحب نے يہ تاثر دینے کی کوشش کی ہے کہ جيسے اہل رباط نے مسلم ممالک کی طرف سے مدد نہ کیے جانے کا شکوہ کیا ہو اور ان پر اس جنگ میں بالفعل کودنا لازم قرار دیا ہو، جبکہ ان كى یہ بات بھى خلاف واقعہ ہے.

-باقی رہا جنگ میں فتح وشکست کا دارومدار تو وہ محض مال و جان کے نقصان پر موقوف نہیں بلکہ مال و جان کے نقصان کے ہوتے ہوئے عزیمت دکھانے والے یقینا سرخرو ٹھہرتے ہیں. متنبی کے ايک شعر کا بڑا خوبصورت مصرع ہے... عَلى قَدرِ أَهلِ العَزمِ تَأتي العَزائِمُ...کہ بندوں کو ان کی بڑائی کے بقدر ہى بڑے حالات کا سامنا ہوتا ہے.