ہوم << قصہ اک علاج کا - گل رعنا صدیقی

قصہ اک علاج کا - گل رعنا صدیقی

دیگر کاروبار زندگی کی طرح ہمارے طبی شعبے میں بھی پروفیشنل ازم مفقود ہوتا جا رہا ہے۔ اگر آپ کو کسی بھی کلینک یا ہسپتال جانا پڑے تو تین سے چار گھنٹے ضائع ہونے لازمی ہیں۔ ڈاکٹر سمیت ہسپتال کا سارا عملہ ضروری کاموں میں اس قدر مصروف ہوتا ہے کہ اس کے پاس مریض کو اٹینڈ کرنے کا فالتو وقت نہیں ہوتا۔

گزشتہ دنوں کی بات ہے، کسی ڈاکٹر صاحب کے پاس حاضری دینا پڑی۔ کافی دیر تک تو ہم ڈاکٹر صاحب کے اسسٹنٹ کا فون ختم ہونے کا انتظار کرتے رہے تاکہ اپنا نام مریضوں کی فہرست میں درج کرا سکیں۔جب اسسٹنٹ صاحب کھیل اور سیاست سمیت دنیا کے ہر موضوع پر گپیں ہانک چکے تو موصوف نے فون بند کیا اور پیشگی فیس وصول فرما کر شکرئیے کا موقع عطا کیا۔ فہرست میں پہلا نمبر ہونے کے باوجود ہم ایک غیر آرام دہ کرسی پر بیٹھے بور ہونے میں مصروف رہے اور اسسٹنٹ صاحب مختلف فارما کمپنیز کے نمائندوں کو ڈاکٹر صاحب سے نیاز حاصل کرنے کمرے میں بھیجتے رہے۔ اللہ اللہ کر کے ہمارا ”پہلا“ نمبر آیا اور ایک گھنٹے کے انتظار کے بعد ڈاکٹر صاحب نے ایک منٹ میں نسخہ گھسیٹ دیا۔ ساتھ میں ایک انجیکشن بھی تجویز کیا۔ انجیکشن لگوانے سے ویسے بھی ہماری روح فنا ہوتی ہے۔ ڈاکٹر صاحب سے عرض کیا کہ جناب، اب ہم کراچی کے پلوں کے نیچے بیٹھے ان بہادروں جیسے تو ہرگز نہیں ہیں جو سر پر چادر ڈالے اپنے آپ کو خود ہی انجیکشن لگاتے رہتے ہیں تو یہ انجیکشن ہم کہاں لگوانے جائیں گے۔ اس کی جگہ کوئی دوا ہی تجویز کر دیجییے۔ مگر ڈاکٹر صاحب نے قطیعت سے فرمایا کہ انجیکشن لگوانا تو بہت ضروری ہے۔ آپ اسی ہسپتال کی پہلی منزل پر چلی جائیں وہاں جنرل فزیشیین کے کلینک میں نرس ہوتی ہیں، وہ انجیکشن لگا دیں گی۔

خیر صاحب، ہم نے فارمیسی سے دوا اور سرنج خریدی اور پہلی منزل کا رخ کیا۔ مطلوبہ ریسیپشن پر جا کر اپنی درخواست پیش کی تو وہاں موجود صاحب نے کہا کہ ذرا صبر کریں۔ ابھی نرس کو بلواتا ہوں۔ ہم ایک اور غیر آرام دہ کرسی پر بیٹھ کر صبر کرنے لگے۔ ریسیپشنٹ نے چیخ کر نرس کو آواز دی مگر نرس نے، جو اندر والے کمرے میں کسی الماری کی سیٹنگ کر رہی تھی، اس آواز پر کان نہ دھرا۔کئ مرتبہ آواز دینے کے بعد آخرکار جواب ملا کہ وہ مصروف ہے اور جب دواؤں کا سارا نیا اسٹاک الماری میں سیٹ ہو جاے گا، تب ہی وہ اس کمرے سے برآمد ہو سکے گی۔ یہ سن کر ہم خون کے گھونٹ پی کر رہ گۓ۔ غالباً ان ہسپتالوں میں سب سے فارغ لوگ خود مریض ہی ہوتے ہیں جو وقت گزاری کے لیے تفریحاً یہاں کے ویٹنگ لاؤنج میں بیٹھنے آ جاتے ہیں۔

وہ بی بی اپنی زبان کی پکی نکلی اور اپنا کام نمٹانے کے بعد ہی اس نے باہر نکل کر ہمیں ریسیپشن پر طلب کیا۔ ہم نے انجیکشن کا سامان اس کی طرف بڑھایا تو تنک کر بولی، ”ذرا صبر کر لیں، پہلے میں ریکارڈ تو بنا لوں۔“ ( وہ پتا نہیں کس چیز کا ریکارڈ بنا رہی تھی، ہم نے تو اس دن صبر کا ریکارڈ بنایا!)

اس کے بعد اس نے ہم سے نام، پتا، عمر، تعلیم، جاۓ رہائش جیسے کوائف معلوم کر کے کمپیوٹر میں فیڈ ان کرنے شروع کیے۔ گو ہم نے اسے یقین دلایا کہ ہم وہاں ملازمت حاصل کرنے نہیں بلکہ صرف ایک انجیکشن لگوانے آۓ ہیں ورنہ اپنا سی وی ضرور ساتھ لاتے مگر اس بی بی نے ان سنی کر دی۔ ہمارا بایو ڈیٹا لینے کے بعد آخرکار اس نے اندرونی کمرے کی جانب اشارہ کیا کہ آئیں، انجیکشن لگا دوں۔ سکون کا سانس کھینچ کر ہم اندر پہنچے اور ایک تیسری غیر آرام دہ کرسی پر براجمان ہوے۔ اب نرس نے بازو میں ہماری نس دریافت کرنے کی مہم جوئی کا آغاز کیا جو انجیکشن لگنے کے خوف سے شاید کہیں رفو چکر ہو چکی تھیں۔ دس منٹ تک ناکام کوشش کے بعد ناراض ہو کر بولی کہ آپ کی نسیں انتہائی باریک ہیں، نظر نہیں آ رہیں اور ہم نے اپنی اس کوتاہی پر ندامت سے سر جھکا لیا۔ پھر مزید جھڑک کر اگلا الزام عائد کیا کہ لوگ سردیوں میں پانی کم پیتے ہیں تو نسیں خشک ہونے لگتی ہیں۔ انجیکشن کے خوف سے اس وقت تو واقعی ہمارا خون خشک ہو رہا تھا لہذا موصوفہ کی بات سے اختلاف کرنے کی جرات پیدا نہ کر سکے ورنہ کراچی میں نہ تو سردیاں آتی ہیں اور نہ اہل کراچی کے پانی پینے کی رفتار میں کوئی کمی آتی ہے۔ خدا خدا کر کے نرس نے ہماری دکھتی نس تلاش کر ہی لی تو ہم نے خود کو ذہنی طور پر انجیکشن لگوانے کے لیے تیار کیا۔

منصوبہ ہمارا یہ تھا کہ آنکھیں یا تو بند کر لیں گے یا منہ دوسری طرف کر لیں گے اور کسی مزید پریشان کن بات کے متعلق سوچنے لگیں گے مثلاً دفتر میں پڑے بیسیوں ادھورے کاموں کے متعلق تاکہ ذہن انجیکشن کی خوفناک سوئی کی طرف متوجہ نہ ہو پاۓ۔ مگر یہ کیا! ہماری ساری منصوبہ بندی دھری کی دھری رہ گئی۔ جیسے ہی نرس نے دوا سرنج میں بھرنا شروع کی، پردے کے پیچھے سے آواز آئی۔
”میڈم؛ چاۓ!“
نرس صاحبہ یہ آواز سن کر سرنج میز پر پٹخ، باہر لپکیں اور غالباً ٹی بواۓ سے مخاطب ہوئیں:
”سراج بھائی، میں نے آپ سے کہا تھا کہ بسکٹ بھی لا کر دیں، میں نے آج ناشتہ نہیں کیا تھا اور آپ صرف چاۓ لے آۓ۔“
سراج کی کسی وضاحت کے بعد ( کیونکہ اس کی آواز نسبتاً دھیمی تھی) نرس نے دوبارہ ڈانٹا،
” ارے بھئی، ابھی پیشنٹ کو چھوڑ کر کیسے جاؤں، آپ لے تو آئیں، میں بعد میں پیسے دے دوں گی۔“
( حالانکہ یہ سارا مکالمہ پیشنٹ کو ”چھوڑ“ کر ہی ہو رہا تھا۔)
پھر نرس صاحبہ نے اندر آکر سرنج اٹھائی۔ ہم نے پھر دانت پر دانت جماۓ، دل مضبوط کیا اور انجیکشن لگوانے کو تیار ہوۓ۔ انجیکشن تقریباً لگنے ہی والا تھا کہ مستعد سراج بھائی نے بسکٹوں کی آمد کا مژدہ سنا دیا اور نرس پھر سرنج پھینک پھانک کر باہر بھاگیں۔
”سراج بھائی، یہ والے نہیں کہے تھے، میٹھے بسکٹ لا کر دیں اور کل بھی آپ نے مجھے آدھا کپ چاۓ دی تھی۔ مجھے پورا کپ چاۓ دیا کریں۔ کتنی بار بتا چکی ہوں۔“
سراج بھائی منمناتے ہوۓ وضاحت دینے لگے اور ہم اندر بیٹھے انجیکشن کو کبھی خوف اور کبھی حسرت بھری نظروں سے دیکھتے رہے۔

قصہ طویل ہوا جا رہا ہے، اس لیے بتا دیتے ہیں کہ قریباً نصف گھنٹے کی آنکھ مچولی کے بعد مصروف نرس سے انجیکشن لگوانے کی سعادت باکرامت حاصل ہو سکی اور ہم ہسپتال سے یوں نکلے کہ طبیعت پہلے سے زیادہ خراب محسوس ہو رہی تھی۔ بس شکر اس بات کا کیا تھا کہ چاۓ نوشی کی شوقین نرس صاحبہ نے ہمیں دوا کے بجاۓ چاۓ کا انجیکشن نہیں لگا دیا۔
نیت ہے چارہ گر کی جو منشا قضا کا ہے
یہ مرحلہ دوا کا نہیں ہے دعا کا ہے