فیض احمد فیض کا نام آتے ہی ایک ایسا منظر آنکھوں میں بس جاتا ہے جہاں لفظ قید میں بھی آزاد محسوس ہوتے ہیں، جہاں محبت اور انقلاب ایک دوسرے میں یوں گھل مل جاتے ہیں جیسے دریا میں بہتی روشنی۔ ان کی شاعری میں ایک ایسا جادو ہے جو خوابوں کو حقیقت اور حقیقت کو خواب بنا دیتا ہے۔ وہ محبت کے شاعر تھے، مگر ایسی محبت جو صرف وصل کی تمنا میں محو نہیں تھی بلکہ جدوجہد کے خارزاروں میں چلنے کی ہمت دیتی تھی۔ وہ انقلاب کے شاعر تھے، مگر ایسا انقلاب جو گلابوں کی خوش بو میں لپٹا ہوا تھا، جو نرمی اور لطافت کے ساتھ سختی اور استقامت کا حسین امتزاج رکھتا تھا۔
یہی وجہ ہے کہ فیض کی مزاحمت محض ایک احتجاج نہیں، بلکہ ایک خوبصورت نغمہ ہے، ایک ایسا گیت جو ظالم کے در و دیوار کو ہلا دیتا ہے اور مظلوم کے دل میں امید کا دیا جلا دیتا ہے۔ وہ احتجاج کی تپش کو بھی ایک ایسے آہنگ میں ڈھال دیتے تھے کہ وہ دل میں اتر جاتا تھا۔ شاید یہی ان کا سب سے بڑا کمال تھا کہ وہ ظلم کے خلاف بھی گلاب کی خوش بو کے ساتھ برسرِ پیکار رہے۔
ہم پرورشِ لوح و قلم کرتے رہیں گے
جو دل پہ گزرتی ہے رقم کرتے رہیں گے
یہی تو وہ مزاحمت تھی جو کسی ہتھیار کی محتاج نہیں تھی، جو کسی جلسے جلوس کے نعرے کی پابند نہیں تھی۔ یہ وہ مزاحمت تھی جو دلوں میں اتری ہوئی تھی، جو ہر اس جگہ زندہ تھی جہاں کوئی ناانصافی کے خلاف اٹھ کھڑا ہوتا تھا۔
فیض کی شاعری محبت کا ذکر کرتی ہے، مگر یہ محبت صرف ایک محبوب کے گرد نہیں گھومتی، یہ محبت زندگی کے ہر اس چہرے سے ہے جو دکھ اور کرب میں لپٹا ہوا ہے۔ وہ محبت کو بھی مزاحمت کا رنگ دیتے ہیں، وہ وصل کی رات کو بھی جدوجہد کی علامت بناتے ہیں، وہ خوابوں کو بھی حقیقت کے قریب لا کھڑا کرتے ہیں۔ ان کے ہاں محبت محض ایک شخص تک محدود نہیں، بلکہ پوری انسانیت کے دکھ درد کو سمیٹتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کا کلام پڑھتے ہوئے ایک انوکھا احساس جنم لیتا ہے کہ یہ صرف ایک عاشق کی فریاد نہیں، بلکہ ایک ایسی صدا ہے جو ظلم اور جبر کے خلاف احتجاج بھی ہے اور امید بھی۔
یہ داغ داغ اجالا، یہ شب گزیدہ سحر
وہ انتظار تھا جس کا، یہ وہ سحر تو نہیں
فیض کا بیشتر کلام اسی دور میں تخلیق ہوا جب وہ قید میں تھے۔ "زنداں نامہ" اس حقیقت کا سب سے بڑا ثبوت ہے کہ جیل کی کوٹھری میں بیٹھا ہوا شاعر بھی ایک پورے معاشرے کی نبض پر ہاتھ رکھے ہوئے تھا۔ ان کی شاعری میں صرف ذاتی دکھ نہیں، بلکہ اجتماعی درد بھی ہے۔ وہ ایک ایسی زبان میں لکھتے ہیں جو دل میں اترتی ہے، جو سیدھی روح پر دستک دیتی ہے۔
متاعِ لوح و قلم چھن گئی تو کیا غم ہے
کہ خونِ دل میں ڈبو لی ہیں انگلیاں میں نے
فیض کا کلام آج بھی زندہ ہے، آج بھی احتجاجی بینرز پر لکھا جاتا ہے، آج بھی گلیوں میں گونجتا ہے، آج بھی ہر اس جگہ سنائی دیتا ہے جہاں کوئی سچ بولنے کی کوشش کر رہا ہو، جہاں کوئی نیا خواب دیکھنے کی جسارت کر رہا ہو، جہاں کوئی زنجیریں توڑنے کا حوصلہ کر رہا ہو۔
ہم دیکھیں گے
لازم ہے کہ ہم بھی دیکھیں گے
وہ دن کہ جس کا وعدہ ہے
نئی نسل کے لیے فیض کا کلام صرف ایک ادبی سرمایہ نہیں بلکہ ایک فکری رہنمائی بھی ہے۔ آج جب دنیا میں جبر کی نئی شکلیں سامنے آ رہی ہیں، جب آزادی اظہار کو دبایا جا رہا ہے، جب سچ بولنا مشکل ہوتا جا رہا ہے، تو فیض کی شاعری پہلے سے زیادہ ضروری ہو گئی ہے۔ وہ ہمیں سکھاتے ہیں کہ ظلم کے خلاف کھڑا ہونا ایک فن ہے، ایک حوصلہ ہے، ایک خواب ہے جسے زندہ رکھنا ضروری ہے۔
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے
بول، زباں اب تک تیری ہے
یہی فیض کی وراثت ہے، یہی ان کی شاعری کا اصل رنگ ہے، یہی ان کے لفظوں کی روشنی ہے جو صدیوں تک زندہ رہے گی۔
تبصرہ لکھیے