یہ ان دنوں کی بات ہے جب میں کراچی کے معروف اخبار روزنامہ اُمّت میں ”سفر کہانیاں“ کے عنوان سے کالم لکھ رہا تھا۔ سفر کہانیاں ان مختصر واقعات پر مشتمل ہوتی تھیں جو میرے ساتھ سفر کے دوران پیش آتے رہتے تھے۔ یہ قصے دلچسپ ہونے کے ساتھ خوش کن بھی ہوتے تھے اور پریشان کن بھی۔ ایک ہی کالم میں ایک مختصر مگر مکمل سفرنامہ فٹ ہوتا تھا۔ یعنی ان کی کوئی اگلی قسط نہیں ہوتی تھی کہ جس کا قارئین انتظار کریں۔سفر کہانیوں کا وہ سلسلہ خاصا مقبول ہوا اور بڑی پذ یرائی حاصل کی۔ بعد میں اس سلسلے کی منتخب تحریروں کو جمع کر کے میری پہلی کاغذی کتاب ”سفر کہانیاں“ بھی شائع ہوئی۔
امت میں سفر کہانیاں لکھنے کا وہ سلسلہ تین چار سال جاری رہا اور ان تحریروں کی وجہ سے میرے کئی نئے دوست بنے۔ یہ 2007ء سے 2009ء تک کے سال تھے۔ ان دنوں سوشل میڈیا، فیس بک، واٹس ایپ وغیرہ زیادہ عام نہیں ہوئے تھے۔ زیادہ تر رابطے ای میل یا پھر فون کے ذریعے ہوتے تھے۔ میرے قارئین بھی اکثر روزنامہ اُمت کے دفتر فون کر کے میرا نمبر مانگتے تھے۔ کسی کو نمبر مل جاتا کسی کو نہ ملتا۔ البتہ جن کا تعلق اخباری دنیا سے ہوتا تھا یا ان کا کوئی جاننے والا صحافی ہوتا تھا ان کو میرا نمبر مل ہی جاتا تھا اور پھر وہ مجھے بڑی محبت سے فون کرتے تھے۔ پھر ایسے کئی احباب سے دوستیاں اور ملاقاتیں ہوتی تھیں اور ان میں سے کئی پکے دوست بھی بن گئے۔ انہی دنوں کا قصہ ہے، میں اخبار کے دفتر سے گھر واپس جا رہا تھا کہ راستے میں میرے موبائل کی گھنٹی بجنے لگی۔
میں نے ایک قریبی پیٹرول پمپ پر گاڑی روک کر فون ریسیو کیا۔ دوسری طرف کوئی صدیق صاحب تھے جو کہہ رہے تھے کہ میری تحریریں بہت شوق سے پڑھتے ہیں۔ ان کا تعلق ایک ٹی وی چینل سے تھا اور زیادہ تر صحافتی سرگرمیوں میں رہتے ہیں۔ میرے سفر نامے پڑھ کر وہ مجھ سے ملنے کے مشتاق تھے۔
”صدیق بھائی آپ سے بات کر کے بہت خوشی ہوئی“میں بولا۔ ”آپ نے مجھے فون کیا، محبت کا اظہار کیا، بہت شکریہ، جب وقت ہو ملاقات کر لیں“
”آپ کہاں رہتے ہیں عبیداللہ صاحب؟“ اس نے پوچھا۔
”میں ملیر میں رہتا ہوں“میں بولا۔
”ملیر میں؟ … ملیر میں کہاں سر؟“وہ بولا۔
”ملیر رفاہِ عام سوسائٹی میں، جامعہ ملیہ کالج کے پاس“میں نے کہا۔
”اچھا … کیا آپ شروع سے وہیں رہتے ہیں؟“ وہ بولا۔
”نہیں … پہلے ہم ملیر کھوکھراپار میں رہتے تھے“ میں نے بتایا۔
”ملیر کھوکھرا پار میں؟ … “وہ کچھ چونک کر بولا۔
”سر میں بھی تو وہیں رہتا ہوں، کھوکھرا پار میں، آپ کس ایریا میں رہتے تھے؟“
”ہم تو ای ون ایریا میں رہتے تھے، کھوکھرا پار ڈاک خانے کے پاس“ میں نے جواب دیا۔
”ارے … عبیداللہ صاحب میں بھی تو وہیں رہتا ہوں … ای وَن ایریا میں“ وہ خوشی سے بولا۔
واہ وا … یعنی آپ بھی اسی ایریا میں رہتے ہیں“ میں نے کہا۔
”آپ ای ون ایریا میں کون سے سن تک رہے ہیں ؟“وہ بولا۔
”1978ء سے 1990ء تک … بارہ سال“ میں بولا۔
”آپ ای ون ایریا کی کونسی گلی میں رہتے تھے؟“ اُس نے پوچھا۔
”وہاں ہم قاسم پٹیل والی گلی میں رہتے تھے“ میں بولا۔
”قاسم پٹیل والی گلی میں؟ … “وہ کچھ بڑبڑایا۔ قاسم پٹیل والی گلی کا نام سن کر وہ چند لمحے خاموش ہو گیا، پھر سرگوشی کے انداز میں بولا :
”عبیداللہ صاحب … میں بھی تو اسی قاسم پٹیل والی گلی میں رہتا ہوں“
میں تو یہ سن کر اچھل ہی پڑا۔
”اچھا … یعنی آپ اسی گلی میں رہتے ہیں جس میں ہم رہتے تھے؟ … واہ وا“
”آپ کے گھر کا کیا نمبر تھا؟“ اُس نے مزید پوچھا۔
”ہمارے گھر کا نمبر ای ون چار بٹا چھے E1-4/6 تھا“
”ای ون چار بٹا چھے؟ … سر واقعی ای ون چار بٹا چھے؟ …“
یوں لگا جیسے وہ گھر کا نمبر سن کر اچھل پڑا ہو۔
”سر میں اسی گلی کے اسی گھر میں رہتا ہوں“ اگلے ہی لمحے وہ چلایا۔ ”سر حیرت انگیز … یعنی میں اسی گھر میں رہ رہا ہوں جہاں آپ نے بارہ سال گزارے ہیں؟ … سر حیرت انگیز … سرا ناقبلِ یقین …“
اب تو اس کی آواز کچھ کپکپا بھی رہی تھی۔
میں بھی ششدر رہ گیا تھا۔
”آپ اس گھر میں کب سے رہ رہے ہیں؟“ میں بولا۔ ”کیونکہ ہمارے ابا نے تو وہ گھر 1990ء میں فروخت کر دیا تھا“
”جی سر جی“وہ بولا۔ ”آپ کے والد صاحب نے وہ گھر جن لوگوں کو فروخت کیا تھا، بعد میں ہم نے ان سے خرید لیا تھا۔ اب اس گھر میں ہم لوگ رہتے ہیں۔ مجھے تو بالکل بھی پتہ نہیں کہ آپ بھی اسی گھر میں رہے ہیں۔ یعنی آپ نے اپنا بچپن یہاں گزارا ہے؟“
وہ حیرت اور مسرت سے بولتا چلا گیا۔
ہم دونوں ہی اس عجیب اتفاق پر حیران تھے۔ یعنی ایک شخص نے اچانک ایک اخبار میں میری تحریریں پڑھیں اور پھر مجھ سے رابطہ کیا اور یہ حیرت انگیز انکشاف ہوا کہ جس گھر کے اندر ہم نے بارہ سال گزارے ہیں اب اسی گھر میں وہ رہتا ہے! …
تو بھیا دنیا میں ایسے بھی عجیب عجیب اتفاق ہوتے ہیں۔
تبصرہ لکھیے