وہ دن بھی آ ہی گیا جب اس غریب الدیار ،اکیلے،مگر بہت ذہین و فطین یمنی نوجوان یاسر کا اپنا گھر آباد ہونا تھا۔
یاسر صبح سویرے بیدار ہوتے،اور صحن کعبہ جا پہنچتے،وہاں رکھے اور گھڑے اور گاڑے گئے بتوں سے تو وہ پہلے ہی بیزار و متنفر تھے،البتہ کعبۂ مقدسہ کے طواف کی سعادت وہ ضرور حاصل کرتے۔،پھر کچھ دعا و مناجات بھی کرتے،مگر بتوں سے نہیں ،ان دیکھے اور تاحال غیر مفہوم و معلوم خدا سے۔۔
اتنی دیر میں اشراف عرب کی صباحی مجالس کعبہ کے اردگرد جم جاتیں،اور سب ہی منتظر ہوتے کہ یہ یمنی نوجوان آج ان کی مجلس میں آبیٹھے۔
یاسر نے اپنے لیئے نہ کوئی خاص گروپ چُن رکھا تھا،نہ خود کو کسی خاص مجلس سے نتھی کیا تھا۔جہاں جی چاہتا،جا بیٹھتے،یا جہاں انہیں اپنے لیئے اشتیاق و طلب زیادہ محسوس ہوتی،شاملِ محفل ہوجاتے۔۔کبھی یہاں ،کبھی وہاں۔۔کبھی بنو ہاشم کے پاس ،تو کبھی بنو مخزوم کے،کبھی اس قبیلے،تو کبھی کسی دوسرے۔
وہ جہاں جاتے ہاتھوں ہاتھ لیئے جاتے،سب ان کی طرف متوجہ ہوتے،سب انہیں سننا ہی پسند کرتے۔وہ باتیں ہی نئی اور انوکھی اور دلچسپ کرتے،جو مکہ والوں نے پہلے نہ سنی ہوتیں۔۔
زیادہ تر یمن کی باتیں،
اپنے گمشدہ بھائی کی تلاش میں کیئے گئے ، دنیا جہان کے طویل سفر کی باتیں،
دلچسپ واقعات،مختلف قوموں،قبیلوں،ان کی تہذیب و ثقافت،رسوم و رواج اور مہمان نوازیوں کی باتیں۔
سفر و حضر کی صعوبتیں اور ان قوموں کا اہل مکہ سے موازنہ،جو بالعموم اہل مکہ کی برتری کا رنگ لیئے ہوتا،جسے سن کر قریشیوں کی گردن کچھ زیادہ ہی اکڑ جاتی،اور وہ فخر کے جذبوں سے معمور ہوکر یاسر کے سامنے بچھ بچھ جاتے۔اس پر مستزاد یاسر کی چرب زبانی یا طلاقتِ لسانی اور بیچ بیچ میں دینی معاملات پر اپنے اضطراب اور فکری ارتعاش کے ہلکے اور غیر واضح سُر۔۔
بس یوں سمجھ لیجیئے ۔۔
یاسر ان محفلوں کی رونق اور مرکز نگاہ اور اہل مکہ کی آنکھ کا تارا تھے۔
دن چڑھےحسب معمول یہ صباحی مجلسیں برخواست ہوتیں،اور شرکاء اپنی چادریں جھاڑ کر گھروں کو روانہ ہوتے،تو یاسر کبھی اکیلے اور کبھی ابو حذیفہ کے ہمراہ ان کے گھر پلٹ آتے،جہاں وہ بطور مہمان بصورت حلیف وقت گزار رہے تھے،مگر یہاں پہنچ کر یاسر کچھ سنجیدہ اور متفکر ہوجاتے،ان کی ساری شگفتگی بھی جاتی رہتی اور زبان کو بھی قدرے چپ لگ جاتی۔
بات دراصل یہ تھی کہ یاسر اب اس طویل مہمان نوازی کے بوجھ سے خاصے بوجھل سے ہوگئے تھے،اور جلد سے جلد اس سے خود کو آزاد کرنا چاہتے تھے۔
کچھ آرام اور کچھ طعام کے بعد یاسر بازار و باغ اور دیگر کاروباری مراکز کی طرف نکل جاتے ۔ وہاں رزق بھی تلاش کرتے اور مختلف لوگوں کی شخصیات،معاملات اور رویوں کا مشاہدہ و مطالعہ بھی کرتے ۔یاسر یہاں بھی مقبول و معروف تھے،یہاں انہیں کام بھی ملتا،اور روزگار بھی، اور مکے والوں کی قربت و شناسائی بھی۔
وہ دن ڈھلے چار پیسے کما کر گھر لوٹتے تو معمول کے مطابق وقت گزارتے،جس میں کچھ نیا یا انوکھا نہ ہوتا۔
پھر ایک روز وہ نیا اور انوکھا ہو ہی گیا،جس کا یاسر بے قراری سے انتظار کر رہے تھے۔۔مگر یہ نہ پہلا نیا اور انوکھا تھا،نہ آخری۔۔کہ یاسر کے ساتھ ایسے نئے اور عجیب کئی واقعات پیش آنا باقی تھے،اور ان میں سب سے عجیب ایک خوفناک خواب تھا،اور اسی روز شام سے پہلے اس کی خونیں اور آتشی تعبیر،۔۔۔
لیکن آج کا انوکھا واقعہ تمہید تھی،ایک خوشگوار اور زندگی کے اہم سفر کی ابتداء اور کلیدی موڑ کی۔
انہوں نے ایک روز ابوحذیفہ سے ذکر کیا کہ چار پیسے جمع ہوگئے ہیں،اور اب میں اپنا علیحدہ گھر بسانا اور وہاں منتقل ہونا چاہتا ہوں۔
ابوحذیفہ اس اطلاع پر خوش بھی ہوئے کہ نوجوان اپنے پاؤں پر کھڑا ہونا چاہتا ہے ،اور بصد مسرت و حسرت یاسر کو اس کی اجازت بھی دے دی۔
اگلے روز یاسر نے اپنے نئے گھر منتقل ہونا تھا،مگر وہ ابوحذیفہ کے مہمان خانے میں کچھ خاموش اور پریشان سے بیٹھے چاروں طرف نظریں دوڑا اور دیدے مٹکا رہے تھے۔،کبھی انگلیاں چٹخنے لگتے اور کبھی گردن جھکائے کسی سوچ میں گم ہوجاتے۔
ابو حذیفہ یہ دیکھ کر متوجہ ہوئے اور پوچھا۔۔کیا ہوا یاسر۔۔اتنے پریشان کیوں ہو،کیا کچھ کھو گیا ہے تمہارا،یا مجھ سے یا میرے اہل خانہ سے تمہیں کچھ دکھ پہنچا ہے،یا کچھ ناگوار لگا ہے،یا ہم سے تمہاری مہمان نوازی میں کوئی کوتاہی سرزد ہوئی ہے۔۔؟
یاسر خاموش رہے، نہ کچھ بولے، نہ کوئی تأثر دیا۔بس وہی اپنی سوچوں میں گم ، نظریں اِدھر اُدھر گھماتے رہے۔
ابوحذیفہ بولے۔۔
میاں۔۔ کچھ تو کہو۔۔آخر معاملہ کیا ہے،کیوں یوں پریشان اور گم سم بیٹھے ہو۔۔؟
یاسر بولے:
نہیں ،مجھے آپ سے نہ شکوہ ہے کوئی،نہ شکایت ۔ آپ اور آپ کے اہل خانہ کے تو مجھ پر احسانات ہی اتنے ہیں کہ میں ان کا حق اور بدلہ نہیں چُکا سکتا۔
میں نے غلط نہیں کہا تھا کہ آپ ایک معزز و محترم سردار،بنو مخزوم کا وقار،وادئ بطحا کی شان ہیں۔
ابوحذیفہ کہنے لگے ۔
نوجوان تم نے بہت تعریف کرلی،بلکہ۔۔
أسرفتَ فی الثَناء ۔۔
تعریف میں بھی اسراف ہی کردیا۔
اصل بات بتاؤ کہ اتنے اداس اور پریشان اور گُم سُم کیوں ہو۔۔؟
یاسر نے جھجکتے جھجکتے کہا۔۔
حضور آپ کے گھر میں میری ایک ضرورت اٹکی ہوئی ہے میں نے خود کو بہت سمجھایا اور آمادہ کیا کہ اس کے بغیر ہی نئے گھر میں منتقل ہوکر زندگی کا سفر شروع اور طے کرسکوں۔مگر میرے دل کو اس کے بغیر قرار نہیں آ پا رہا۔
کھل کر کہو۔۔کیا چیز ہے وہ؟
ابوحذیفہ نے کچھ سوچتے اور سمجھنے کی کوشش کرتے ہوئے کہ آخر ایسی کون سی ضرورت ہوگی جس کے بغیر یاسر کی یہ کیفیت و حالت ہے، قدرے شفقت و محبت سے کہا۔۔
یاسر نے سر جھکا دیا ،کچھ ہمت جمع کی۔اس کے چہرے پر حیاء کی سرخی سی دوڑ گئی،اس نے دل اور زبان کو بہت قابو میں رکھتے اور جھجھکتے ہوئے ،لڑکھڑاتے الفاظ میں کہا۔۔
أمَتُک ھذہ السوداء التی تسمونھا سُمیۃ۔
آپ کی سیاہ فام لونڈی،سُمیّہ،جس کے بغیر اب میرا گزارا نہیں
میں اس کی محبت کا اسیر ہوچکا ہوں ۔
میں آپ کو یقین دلاتا ہوں۔۔ولا واللہ ماکانت مِنّی الیھا ریبۃ فی نظر أو حدیث۔
بخدا۔۔میں نے اسے ہمیشہ پاکیزہ جذبوں اور نظروں سے ہی دیکھا ہے۔
ابوحذیفہ بولے۔۔
تم کیا چاہتے ہو کہ یہ لونڈی تمہیں تحفۃً دے دوں؟
یاسر بولے۔۔
نہیں ،میں آپ کے مال میں کسی قسم کی کمی نہیں چاہتا۔
ابو حذیفہ کہنے لگے۔۔
نہیں تم میرے مال (زر خرید غلاموں اور لونڈیوں ) کا ہرگز نقصان نہیں کروگے۔۔کیونکہ وہ ایک لونڈی ہی تو ہے ،اور گھر میں کئی غلام اور لونڈیاں موجود ہیں۔
یاسر کہنے لگے۔۔
نہیں نہیں۔میں نہیں چاہتا کہ لوگ مجھے طعنہ دیں کہ یاسر، ابوحذیفہ کے گھر مہمان بن کر رہا اور جاتے ہوئے ان کا مال لے اُڑا۔۔نہیں۔۔میں آپ کے احسانات کا بدلہ یوں نہیں دینا چاہتا۔۔
اب آخری ایک ہی صورت باقی تھی جس کی پیشکش ابوحذیفہ نے کر دی۔۔
کہنے لگے۔۔ اگر چاہو تو میں اسے تمہاری بیوی بنادوں،تمہاری اس سے شادی کردوں۔!؟
تجویز تو بہت معقول تھی اور یاسر کی خواہش بھی بَر آئی تھی،مگر یاسر نے اس سے بھی انکار کردیا
مسلسل ہنستے ہوئے،یہ کہہ کر کہ ابو حذیفہ ۔۔کیا آپ چاہتے ہیں کہ میں آپ کی لونڈی سے آپ کے لیئے بقیہ ساری عمر مزید غلام اور لونڈیاں ہی پیدا کرتا رہوں ۔
آترید أن ألد لک الاِماء و العبید؟
(سمیہ چونکہ زرخرید غلام اور مِلک تھیں ابو حذیفہ کی،لہذا ان کی اولاد بھی غلام ہی قرار پاتی اور ابوحذیفہ کی ملکیت.اور یاسر چاہتے تھے کہ وہ یا تو سمیہ کو اثزادی دے دیں یا کوئی اور قابل قبول صورت بن جائے)
ابو حذیفہ نے یاسر کے کندھے پر ہاتھ رکھا اور مسکراتے ہوئے قدرے خوش دلی سے اعلان صادر کیا۔
نوجوان ۔۔۔آج تو تم نے مجھے بے بس ہی کردیا۔۔۔چلو یوں کرتے پیں کہ تم سمیہ سے شادی کرلو، تمہاری جو بھی اولاد ہوگی،اسے میں نے ابھی سے آزاد کیا۔
تزوّجھا،وما ولدت لک من ولد فھو حّرّ۔
یوں یاسر اور کچھ نہیں، تو کم از کم اپنی آئندہ اولاد کو ان کے پیدا ہونے سے پہلے ہی آزادی دلوانے میں کامیاب ہوگئے۔انہوں نے ابوحذیفہ کا کچھ مالی نقصان بھی نہ ہونے دیا اور منزلِ محبوب و مراد پانے کا باوقار رستہ بھی نکل آیا۔۔تو لگے پھر سے ابوحذیفہ کی سخاوت،عزت،عظمت اور دریا دلی کے قصیدے پڑھنے۔
جناب ابو حذیفہ نے انہیں اس قصیدہ خوانی سے روکتے ہوئے کہا۔۔
شام کو تم دونوں میرے پاس آجانا،میں تمہاری شادی کرکے تم دونوں کو نئے گھر منتقل اور زندگی کے نئے سفر پر روانہ کردوں گا۔
یاسر کی باچھیں کِھل گئیں اور وہ بے چینی سے شام کا انتظار کرنے لگا۔
یہ پہلی اور بڑی خوشی تھی جو اس پردیسی کو بے شمار غموں اور دکھوں کے بعد دیار غیر میں نصیب ہونے جارہی تھی۔
جوں ہی یاسر اور سمیہ زندگی کے نئے سفر پر روانہ ہوئے،تاریخ نے ان سے ایسا منہ موڑا کہ لگ بھگ تیس سال تک ان کی خبر لی،نہ ان کی زندگی کا ایک بھی لمحہ محفوظ کیا۔۔۔۔
جاری۔۔۔
تبصرہ لکھیے