ہوم << پارسائی کے زعم میں مبتلا استاد کا طریق واردات - جویریہ ساجد

پارسائی کے زعم میں مبتلا استاد کا طریق واردات - جویریہ ساجد

جب ہم ماسٹرز ان اکنامکس کر رہے تھے تو یونیورسٹی میں ہمارے ڈپارٹمنٹ میں دو طرح کے اساتذہ تھے، ایک نئی اپائنٹمنٹس تھیں ینگ اساتذہ کی جو خود بھی چند سال پہلے یونیورسٹیوں سے گولڈ میڈل لے کے پاس آؤٹ ہوئے تھے، دوسری طرف بہت سینئر بزرگ اساتذہ۔

ہمارے ینگ اساتذہ بہت قابل اور محنتی تھے ان کا معیار بہت بلند تھا انہوں نے ہمیں ہر سبجیکٹ کے لیے فارن آتھرز کی بکس خریدوائیں اور ریفرینس کے لیے بھی فارن اتھرز ریکمنڈ کیے۔ شاندار طریقے سے پڑھاتے اور اس کے بعد انتہائی ٹیکنیکل اسائنمنٹس دیتے۔ اکثر سٹیٹمنٹس دیتے ہمیں ان کی گرافیکل ری پریزینٹیشن کرنی ہوتی جن کو بنانے میں ہمارا دماغ پلپلا ہو جاتا۔ غرض انہوں نے ہم سے خوب محنت کروائی۔ اور میتھمیٹکل اکنامکس، انٹرنیشنل ٹریڈ، مائیکرو میکرو اکنامکس، بینکنگ اینڈ فائنانس، پلاننگ اینڈ ڈویپلمنٹ پہ ہمیں مکمل گرفت دلوا دی۔ یہی نہیں ان کے دور سے چولاستان اکانومسٹ سوسائٹی CES بنی جس کے باقاعدہ الیکشن ہوتے انٹرویو کے زریعے آفس بئیرر سلیکٹ کیے جاتے جس کا کام سیمنار اور ورکشاپس کروانا ہوتا اور تمام co-curricular activities کا انعقاد۔

میں فائنل ایئر میں CES چولستان اکانومسٹ سوسائٹی کی جنرل سیکرٹری تھی۔ دوسری طرف ایک سینئر بزرگ استاد تھے جن کے پاس گزشتہ سال میں اسلامک اکنامکس کا سبجیکٹ تھا اور فائنل میں اکانومیٹرکس economatrics کا۔ ان کے سبجیکٹ میں پاس ہونے کا واحد طریقہ یہ رائج تھا کہ ان کے پاس ٹیوشن پڑھی جائے. ٹیوشن پڑھانے کے لیے سٹوڈنٹ کی حیثیت کے حساب سے بھاری بھرکم فیسیں لیتے . ہمیں پتہ چلا کچھ زمیندار گھرانوں کے سٹوڈنٹ سے تو بھینس ہی منگوا لی تھی۔ ٹیوشن پڑھانے کا انداز بھی نرالا کہ یہ اپنے پاس پڑھنے والے ہر سٹوڈنٹ سے باقاعدہ حلف لیتے کہ وہ ان سے جو کچھ بھی پڑھے گا وہ آؤٹ نہیں کرئے گا . بہت منجھے ہوئے کھلاڑی تھے ، ٹیوشن پہ ایک بھی لفظ نہ پڑھاتے ، آخر میں امتحان کے نزدیک پانچ حل شدہ سوال ہاتھ میں پکڑا دیتے ، جو امتحان میں آنے ہوتے۔ کبھی بھی یہ سوال اکھٹے نہ دیتے . پہلے ایک سوال دیتے اور اس بات پہ کڑی نگاہ رکھتے کہ وہ سوال لیک آؤٹ تو نہیں ہوا ، ان کے بے شمار مخبر سٹوڈنٹ بھی پھیلے ہوتے جو مشکوک سٹوڈنٹس کے دوسرے سٹوڈنٹس سے میل ملاپ پہ بھی کڑی نگاہ رکھتے، اور استاد محترم کو باخبر رکھنے کا فریضہ سر انجام دیتے۔ ہر منفی اور اپنے کام میں بد دیانت شخصیت کی طرح ان کے پاس بھی ان کے وفاداروں کا ایک لمبا چوڑا ٹولہ تھا، جس کو وہ بوقت ضرورت استعمال کرتے اور اس کو اپنے پہ اللہ کا فضل گردانتے جس نے انہیں اتنے وفادار لوگوں سے نوازا تھا۔ اس کے بعد مکمل تسلی کر کے اگلا سوال دیا جاتا، پھر تیسرا ،پھر چوتھا، اس عرصے میں ان کے ٹیوشن زدہ سٹوڈنٹس کو دوسرے سٹوڈنٹس سے فاصلہ رکھنے کی پابندی ہوتی۔ جو عمل نہ کرتا اسے اگلا سوال نہ ملتا۔ ملتا تو غلط ملتا۔ پھر جو سٹوڈنٹس حلف کی پاسداری کرتے ہوئے، امتحانی سوالوں کی مکمل پرائیویسی قائم رکھتا ، ان کو اچھے نمبروں سے پاس کیا جاتا۔ ٹیوشن نہ پڑھنے والے سٹوڈنٹس کو وہ بڑے آرام سے فیل کر دیتے۔

شروع سے ہی ہمارا سارا حلقہ اصولوں پہ ڈٹ جانے والے لوگوں پہ مشتمل تھا، وہ لوگ جو کسی بھی کام کے لیے اپنے زور بازو پہ یقین رکھتے ہیں نا کہ ان کی پرواز دوسروں کے دیے گئے پروں کی مرہون منت ہوتی ہے. چیلنجنگ ماحول میں تو ہم اور بھی نکھرتے ہیں. ہم نے گزشتہ سال میں سوچا تھا کہ اسلامک اکنامک کون سا کوئی راکٹ سائنس ہے، جو ہم سیکھ نہ سکیں، تھیوریٹیکل سبجیکٹ ہے، سلیبس کے حساب سے کتابیں پڑھیں، نوٹس بنائے اور تیاری کر لی۔ دوسری طرف ہمارے کچھ ہماری ہی طرح کے سینئرز نے یہ بات ہمیں اچھی طرح سمجھا دی تھی بلکہ گھول کر پلا دی تھی کہ کچھ بھی ہو جائے، ان کو اپنی رائٹنگ مت دینا، کیونکہ ان کا طریقہ واردات یہ تھا کہ یہ پہچان کے لیے ٹیوشن پڑھنے والوں اور نہ پڑھنے والوں کی رائٹنگز کا ریکارڈ اپنے پاس رکھتے، سارا سال پڑھاتے وڑھاتے کچھ نہیں تھے۔ اسائنمنٹس کے ذریعے رائٹنگز کا ریکارڈ لازمی رکھ لیتے تھے، ہم بھی سیکھ پڑھ چکے تھے، ہاسٹل میں دوسری لڑکیوں کا منت ترلہ کرکے اور کبھی بریانی کھلا کے اسائنمنٹ ان سے لکھوا کے جمع کرا دیتے۔

پھر ہمارے گروپ نے ایک ٹیکنیکل غلطی کی جس کو یہ بھانپ گئے اور چوکنے ہو گئے کہ ہم نے دو مختلف اسائنمنٹس الگ الگ لڑکیوں سے لکھوا لیں. جب انہوں نے گھر جا کے رائٹنگز میچ کیں تو چکرا گئے۔ اب انہوں نے رائٹنگز لینے کا نیا حربہ نکالا کہ کلاس میں ڈکٹیشن لکھوانی شروع کر دی. ایک سادہ کاغذ پہ اپنی نگرانی میں پوری کلاس سے نام اور رول نمبر لکھوائے اور کہا کہ میں بول رہا ہوں، آپ لکھتے جائیں، اور وہ کاغذ ہم سے لے لیے، یہاں بھی ہمارے عقل نے کام کیا اور ہم نے ٹوٹے ہوئے ہاتھوں سے رائٹنگ بدل کے لکھا اور اپنی رائٹنگ کے شناخت والے حرف بالکل بدل دیے۔ نتیجتاً ہمارا دس بارہ لوگوں پہ مشتمل سارا گروپ پچھلے سال میں اسلامک اکنامکس میں شاندار نمبرز سے فیل ہونے کے بجائے مر پٹ کے پاس ہو گیا جس کا ان کو بہت صدمہ تھا۔

اصل مسئلہ فائنل ایئر میں ہوا جب انھوں نے اکانومیٹرکس economatrics جیسا انتہائی ٹیکنیکل سبجیکٹ پڑھانا تھا . ڈپارٹمنٹ میں ان کی اس قدر مناپلی تھی یا بقول ان کے اللہ کا ان پہ خصوصی کرم تھا کہ سالہا سال سے ان کے سبجیکٹس کسی بھی اور ٹیچر کو پڑھانے نہیں دیے جاتے تھے. economatrics کی الف ب بھی کسی کو معلوم نہیں تھی. فائنل ایئر میں یہ اپنے طور پر ہمارے پکے دشمن بن چکے تھے. اب تو یہ ہمیں ٹیوشن پڑھانے پہ بھی راضی نہیں تھے، بلکہ سبق سکھانا چاہتے تھے کہ اب تو آیا اونٹ پہاڑ کے نیچے ، سب کو مزہ چکھاؤں گا۔ خیر بڑی مشکل سے شہر میں ایک ماڑی موٹی سی نالج والا ٹیچر ملا جس نے کچھ نوٹس کے ذریعے بنیادی سی چیزیں سمجھا دیں، اتنی کہ پاس ہوا جا سکے. پھر شاید قسمت نے ہمارا بھی ساتھ دیا کہ ہم سب اکانومیٹرکس میں پورے پورے 40 نمبر لے کے پاس ہو گئے. میرے سب سے زیادہ 41 نمبر تھے جس پہ مجھے رشک سے دیکھا گیا اور مبارکباد پیش کی گئی۔ خیر اخبار میں اپنا رزلٹ دیکھا ، کانوکیشن میں ڈگری لی، لیکن آج تک اکانومیٹرکس سے اجنبیت قائم ہے، اس واحد سبجیکٹ کا کچھ بھی اتا پتا نہیں، دوسرے تمام سبجیکٹس میں ہائی فرسٹ ڈویژن لے کے اکانومیٹرکس کے پاسنگ مارکس نے اوور آل پرسنٹیج بھی خراب کی۔ باہرحال ماسٹرز ان اکنامکس ہو گیا۔

یونیورسٹی چھوڑنے کے چھ سال بعد اپنی ہی یونیورسٹی کے مینجمنٹ سائنس ڈپارٹمنٹ میں بارہ سال گریجویشن اور ماسٹرز لیول پہ اکنامکس کا ہر سبجیکٹ پڑھایا سوائے اکانومیٹرکس کے۔ ہمارے تمام محترم اساتذہ کرام جو محنتی اور قابل تھے ، ان میں سے ایک ڈاکٹر عمران شریف صاحب جو بعد میں زکریا یونیورسٹی چلے گئے اور جب بہاؤ الدین زکریا یونیورسٹی ملتان نے اپنا سکول آف اکنامکس الگ کیا تو وہ اس کے پہلے چئیرمین بنے۔ ہمارے دوسرے استاد محترم ڈاکٹر ندیم جاوید صاحب نے بھی بعد میں ہماری یونیورسٹی چھوڑ کے پنجاب یونیورسٹی جوائن کر لی، پھر لمز میں پڑھایا۔ کئی سال پاکستان پلاننگ کمیشن میں اعلیٰ عہدے پہ فائز رہے اور سی پیک کے کرتا دھرتاؤں میں رہے ، اب اسلام آباد کی ایک یونیورسٹی کے وائس چانسلر ہیں۔ اور یہ بزرگ استاد محترم ساری عمر اسی ڈیپارٹمنٹ میں علم پہ پہرے بٹھاتے رہے، سیاست اور سازشیں کرتے رہے، اپنا مال کھرا کر کے آخر کار ریٹائر ہو گئے۔ جنہوں نے علم کو کھلے دل سے محنت اور جانفشانی سے بانٹا اور ترقی کے لیے جائز راستہ اختیار کیا ، وہ اپنے کیرئیر کی معراج پہ پہنچے ان کی عزت و قدر آج بھی ان کے سٹوڈنٹس کے دلوں میں موجود ہے، انہوں نے اپنی نیک نیتی اور اخلاص سے نیک نامی کمائی اور کیرئیر میں بھی اعلیٰ مقام حاصل کیا۔ دوسری طرف پارسائی کے زعم میں مبتلا والوں کی عزت وہ بھی نہیں کرتے جن کو انہوں نے بھاری معاوضے کے عوض حلف لے کے 5 حل شدہ سوال عنایت فرما کے ہائیسٹ نمبرز میں پاس کیا تھا۔