ہوم << سچائیوں کا تصادم اور بقائے باہمی- ابو الحسین آزاد

سچائیوں کا تصادم اور بقائے باہمی- ابو الحسین آزاد

سچائی سے متعلق روایتی تصورات اور سچائی تک رسائی کے لگے بندھے طریقوں کو جھٹلا کر پچھلی کچھ صدیوں میں جدید علوم اور وسائل نے ہمیں اس خوش گمانی میں مبتلا کیا کہ خارج میں سچائی، نیکی اور حسن کا ایک اور مہابیانہ موجود ہے جسے عنقریب نیا علم پوری طرح دریافت کر لے گا۔ سب کچھ یوں منکشف ہوجائے گا کہ مزید یقین اور تسلی کے لیے آنکھوں سے دیکھنے کی ضرورت باقی نہیں رہے گی۔لیکن بہت جلد یہ سب ایک فریب ثابت ہوا، اب صورتِ حال یہ ہے کہ تشکیک کی تند ہوا چل رہی ہے، مہا بیانیے کی امید تیزی سے مضمحل ہو رہی ہے اور کہانیاں مکمل ہونے سے پہلے ہی جھٹلائی جانے لگی ہیں۔

اس صورتِ حال میں یہ فطری سی بات ہے کہ لوگوں کی بڑی تعداد کا اعتماد اپنی روایتی سچائیوں پر بڑھ رہا ہے اور ”بھٹکے ہوئے“ آہو سوئے حرم لوٹ رہے ہیں لیکن سوال یہ ہے کہ جدید ترین ذرائعِ ابلاغ، رابطوں کے تیز ترین وسائل اور ایک اسکرین میں سمٹ آئی اس دنیا میں اتنے سارے متضاد اور متحارب نظریوں کے ماننے والوں کی بقائے باہمی کی کیا صورت ہو گی؟ نظریوں اور عقیدوں کا ایک لامتناہی سلسلہ ہے جس میں زید کی سچائی عمرو کے لیے بدترین گمراہی بلکہ بسا اوقات اہانت اور ہتکِ حرمت بھی ہو سکتی ہے۔ جدید وسائل کی پیدا کردہ مصیبت یہ ہے کہ اب زید کے منھ سے نکلنے والا ایک ایک لفظ ساری دنیا کے سامنے نشر ہو رہا ہے، اس کی سچائی ہر آن عمرو کے دل و دماغ پر ہتھوڑے برسا رہی ہے۔ آپ فیس بک کھولتے ہیں تو دس بارہ منٹ کی اسکرولنگ میں آپ بیسیوں ریلز، تحریرں اور کمنٹ ایسے دیکھ لیتے ہیں جو آپ کے عقیدے، نظریے، عصبیت یا سیاسی رجحان کو بے دردی سے مسترد کر رہے ہوتے ہیں۔ اس کے نتیجے میں منافرت کا گراف نفاقِ عظیم کی طرف جا رہا ہے۔

تصادم اور تقسیم کے خدشوں سے بھری اس نئی دنیا میں، شعور کی ریاضت اور اخلاقی تربیت کی ضرورت پہلے سے کئی گنا بڑھ چکی ہے۔ اخلاقی تربیت میں ہم نے اظہار کا قرینہ سیکھنا ہے کہ میں اپنی سچائی کو بیان کیسے کروں۔ جب کہ شعوری ریاضت میں اپنی اور دوسروں کی سچائی کی درست نسبت تلاش کرنی ہے۔ ہمارا معاشرہ (دین دار نہ سہی) لیکن شدید مذہبی معاشرہ ضرور ہے۔ مختلف مسالک و مکاتب کی باہمی چپقلش سارا سال چلتی رہتی ہے، سیاست اور قوم پرستی کی بُل فائٹنگ اس پہ مستزاد ہے اور اب ایمان و الحاد اور کی بحثیں بھی گاہے شیریں گاہے تلخ انداز میں چل پڑتی ہیں۔ یہ معرکہ آرائی اگر اخلاق اور شعور کی تربیت کے بغیر جاری رہی تو بقائے باہمی کے امکانات مسدود ہوتے چلے جائیں گے۔ ہر آنے والی صبح تقسیم اور منافرت کے اندھیروں کو مزید گہرا کرے گی۔ دکھ کے موقع پہ پرسہ، وفات پہ تعزیت اور خوشی کی تہنیت، یہ سب وسیع پیمانے پر ادا کی جانے والے سماجی سرگرمیاں ہیں لیکن منافرت کی نئی لہر دن بہ دن انھیں مختلف اعتقادی اور نظریاتی دائروں میں محدود کرنا چاہتی ہے۔

شعور کی ریاضت یہ ہے کہ ہمیں وسعتِ ظرفی کے ساتھ یہ حقیقت ماننی چاہیے کہ وہ سچائیاں جن پہ ہمیں ادنیٰ برابر بھی شک نہیں۔ یہ ہمیں خود بخود نہیں ملتیں بلکہ مختلف طرح کے خاندانی، تعلیمی، سماجی، مطالعاتی اور نفسیاتی عوامل انھیں ہمارے دل و دماغ میں راسخ کرتے ہیں ۔ اگرہم ایک لمحے کے لیے ان تمام عوامل کی نفی کر دیں، اوریوں فرض کرلیں کہ ہم اس خاندان کے بجائے کسی اور خاندان میں پیدا ہوئے ، کسی اور ادارے میں تعلیم پائی ، ایک مختلف سماج میں پلے پڑھے اور ان کتابوں کے بجائے ان سے متضاد کتا بیں پڑھی ہیں تو حق اور باطل کے معیار یکسر بدل جائیں گے اور ہم ایک اور ”سچائی“ کے فریفتہ ہو جائیں گے۔

جو شخص ہم سے مختلف ہے، ہماری سچائی کا منکر ہے، جس کے نظریے ہم سے متضاد ہیں اور جو ہمیں صریح غلطی اور گمراہی پہ دیکھ رہا ہے اس کی مصیبت یہی ہےکہ اس کے شعور کے تشکیلی عناصر ہمارے عناصر سے یکسر مختلف ہیں۔ وہ ایک اور زمین میں اگا ہے، ایک اور چشمے سے سیراب ہوا ہے اور ایک اور فضا میں پھلا پھولا ہے۔ ہر زمین، ہر زمان اور ہر فضا کی اپنی خصوصیات ہیں۔ پہاڑوں پہ آڑو اور چیری اگتی ہے ، میدانوں میں آم اور مالٹے، ریگستانوںمیں کھجور اور انار اور ساحل پہ ناریل اور انناس۔ یہ تنوع فطرت کی سب سے بڑی سچائی ہےجو محسوسات سے لے کر معانی تک ہر جگہ پھیلا ہوا ہے۔اگر ہم اخلاق اور شعور کو تربیت کے جوہر سے آراستہ کرتے رہے تو بہت حد تک یہ تنوع ہمارے لیے قابلِ برداشت ہو جائے بلکہ ممکن ہے کہ کسی دن ہمیں اس میں ایسا ہی حسن اور ایسی ہی مٹھاس محسوس ہونے لگے جو مختلف خطوں اور موسموں کے مختلف پھلوں میں محسوس ہوتی ہے۔ ثم إلى الله مرجعكم فينبئكم بما كنتم تعملون.

Comments

ابوالحسین آزاد

ابو الحسین آزاد عربی اور اردو ادب سے گہرا شغف رکھتے ہیں۔ ہمہ جہت وسعت مطالعہ اور منفرد اسلوب تحریر کی وجہ سے علمی حلقوں میں جانے جاتے ہیں۔ کالج میں علوم اسلامیہ کی تدریس سے وابستگی ہے، ایم فل کے طالب علم ہیں۔ دارالعلوم کراچی سے فارغ التحصیل ہیں۔

Click here to post a comment