دین کی حقیقت یہ ہے کہ یہ محض چند عبادات، روایات، یا ذاتی اخلاقیات کا مجموعہ نہیں، بلکہ ایک مکمل ضابطہ حیات ہے۔ یہ انسان کی انفرادی، خاندانی، سماجی، سیاسی اور اقتصادی زندگی کے تمام پہلوؤں پر محیط ایک جامع نظام ہے۔ دین کا بنیادی مقصد اللہ تعالیٰ کی حاکمیت کو تسلیم کرنا اور اس کے احکامات کے مطابق زندگی گزارنا ہے۔ یہ ایک ایسا نظام ہے جو انسانوں کو نہ صرف ان کے خالق سے جوڑتا ہے بلکہ انہیں آپس میں ایک مضبوط رشتہ قائم کرنے کی بھی تعلیم دیتا ہے۔
دین کی بنیاد اللہ تعالیٰ کی ربوبیت، حاکمیت اور الوہیت کے تصور پر ہے۔ یہ انسان کو اس حقیقت کا شعور دیتا ہے کہ وہ اس دنیا میں محض اپنی مرضی سے زندگی گزارنے کے لیے آزاد نہیں بلکہ اسے اپنے اعمال اور فیصلوں میں ایک اعلیٰ مقصد کو مدنظر رکھنا ہے۔ یہ مقصد اللہ کی رضا اور اس کے قوانین کے مطابق زندگی گزارنا ہے۔
دین کی وسعت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ یہ انسان کو انفرادی سطح پر تزکیہ نفس کی تلقین کرتا ہے، تو دوسری جانب اجتماعی سطح پر عدل و انصاف، مساوات، اور خیر و بھلائی کے اصولوں کو فروغ دیتا ہے۔ دین انسانی معاشرت کو ایک مربوط اور متوازن شکل دینے کی صلاحیت رکھتا ہے، جہاں ہر فرد نہ صرف اپنی ذمہ داریوں کو پہچانتا ہے بلکہ دوسروں کے حقوق کا بھی احترام کرتا ہے۔
دین کے بغیر زندگی ایک بے سمت سفر کی مانند ہے، جس میں انسان مقصدیت سے محروم ہو کر بے چینی، انتشار، اور خود غرضی کا شکار ہو جاتا ہے۔ اس کے برعکس، دین انسان کو انفرادی طور پر سکون اور اجتماعی طور پر ایک منظم معاشرہ عطا کرتا ہے۔ اس لیے دین کو محض چند عبادات یا رسم و رواج تک محدود سمجھنا اس کے حقیقی مفہوم اور اس کی جامعیت کو نظرانداز کرنے کے مترادف ہے۔
دین کی حقیقت یہ ہے کہ یہ انسان کی روحانی اور مادی دونوں ضروریات کا احاطہ کرتا ہے اور ایک ایسا متوازن نظام فراہم کرتا ہے جس کے ذریعے انسان نہ صرف اپنی دنیاوی زندگی کو کامیاب بنا سکتا ہے بلکہ اپنی آخرت کی بھلائی بھی حاصل کر سکتا ہے۔ یہی دین کی حقیقت اور اس کی بنیاد ہے، جو ہر دور کے انسان کے لیے رہنمائی کا ذریعہ ہے۔
اللہ کی حاکمیت، دین کی بنیاد:
اللہ تعالیٰ کی حاکمیت دینِ اسلام کا وہ بنیادی اصول ہے جو انسان کی انفرادی اور اجتماعی زندگی کو ایک مضبوط اور منظم نظام عطا کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس کائنات کو پیدا کیا اور زمین کو انسان کے لیے ایک سازگار ماحول، وسائل اور نعمتوں سے مالا مال کیا۔ لیکن ان نعمتوں کا صحیح استعمال اور انسانی زندگی کو ایک منظم راہ پر گامزن کرنے کے لیے اللہ نے دینِ اسلام کا نظام ہمیں عطا کیا، جو سراسر فلاح، عدل اور توازن پر مبنی ہے۔ اسلامی نظام میں اللہ کی حاکمیت وہ مرکز و محور ہے جس پر زندگی کے ہر پہلو کو ترتیب دیا جاتا ہے۔ یہ اصول واضح کرتا ہے کہ حاکمیت کا اصل حق صرف اللہ کا ہے، کیونکہ وہی خالق و مالک ہے۔ اس کی حاکمیت کا مطلب یہ ہے کہ انسان اپنی انفرادی خواہشات، جذبات یا کسی انسانی بنائے ہوئے قانون کے بجائے اللہ کے احکامات اور اس کے نازل کردہ قوانین کی پیروی کرے۔
یہی اصول انسان کو اس کے حقیقی مقام پر فائز کرتا ہے اور اسے ہر قسم کی غلامی، خواہ وہ انسانی ہو یا مادی، سے آزاد کرتا ہے۔ اللہ کی حاکمیت انسان کو اس حقیقت کا شعور دیتی ہے کہ دنیا میں اس کی زندگی آزمائش ہے، اور کامیابی صرف اسی وقت ممکن ہے جب وہ اپنے اعمال اور فیصلے اللہ کے احکامات کے تابع کرے۔ اگر اس اصول کو نظرانداز کر دیا جائے، تو اسلامی نظام کی بنیاد کمزور ہو جاتی ہے اور زندگی انتشار کا شکار ہو سکتی ہے۔ اللہ کی حاکمیت ہمیں یہ سکھاتی ہے کہ زندگی کے ہر شعبے میں عدل، رحم، اور حق کے اصولوں پر عمل کیا جائے، تاکہ ایک مثالی معاشرہ تشکیل دیا جا سکے جہاں امن اور انصاف کا بول بالا ہو۔ لہٰذا، اللہ کی حاکمیت نہ صرف دینِ اسلام کا بنیادی ستون ہے بلکہ ایک ایسی روشنی ہے جو انسان کی انفرادی اور اجتماعی زندگی کو روشن کرتی ہے اور اسے مقصدیت اور کامیابی کی جانب لے جاتی ہے۔
انفرادی اعمال اور ان کا اجتماعی مقصد:
اکثر لوگ دین کو محض انفرادی عبادات اور اعمال تک محدود سمجھتے ہیں اور خیال کرتے ہیں کہ نماز، روزہ، زکوٰۃ اور حج جیسے اعمال ہی دین کا اصل مقصد ہیں۔ لیکن درحقیقت یہ اعمال دین کے جامع نظام کا ایک حصہ ہیں اور ان کا بنیادی مقصد فرد کی ایسی تربیت کرنا ہے، جو اسے اخلاقی، روحانی اور عملی طور پر اس قابل بنا دے کہ وہ ایک مضبوط اور صالح معاشرے کی تشکیل میں کردار ادا کر سکے۔ یہ عبادات انسان کے اندر دیانتداری، احساسِ ذمہ داری، اور اعلیٰ اخلاقیات کو پروان چڑھاتی ہیں، تاکہ وہ زندگی کے ہر میدان میں اللہ کے احکامات کے مطابق عمل کرے۔ انفرادی اخلاقیات اور کردار سازی کا مقصد صرف فرد کی اصلاح نہیں بلکہ ایک ایسے اجتماعی نظام کی بنیاد رکھنا ہے، جو اللہ کی حاکمیت کے تحت قائم ہو اور جس میں انصاف، امن، مساوات اور خوشحالی جیسی اقدار عملی صورت میں نظر آئیں۔ گویا دین کے انفرادی اعمال محض ذاتی نجات یا انعام کے حصول کا ذریعہ نہیں، بلکہ ان کا اجتماعی مقصد ایک مثالی معاشرے کی تعمیر ہے، جہاں ہر فرد اپنی ذمہ داریوں کو پورا کرتے ہوئے اللہ کے نظام کو زمین پر نافذ کرنے میں شریک ہو۔
مسلمانوں کا المیہ: چھت کے بجائے دیواروں کی آرائش:
آج کے مسلمانوں کی حالت زار ایک ایسی عمارت کی مانند ہے جس کی چھت گرنے کو ہے، لیکن اس کے مکین دیواروں کی آرائش و زیبائش میں مصروف ہیں۔ دین اسلام جو ایک جامع اور مکمل نظامِ حیات ہے، اپنی اصل روح اور مقاصد سے محروم ہوتا جا رہا ہے۔ مسلمانوں کی اکثریت، خصوصاً علماء کرام، دین کے اس بنیادی مقصد کو فراموش کر چکے ہیں جو انسان کو اللہ کی بندگی کے ذریعے حقیقی کامیابی کی طرف لے جاتا ہے۔ اسلامی نظام کی بحالی، عدل و انصاف کا قیام، اور معاشرے میں روحانی و اخلاقی تربیت جیسے بنیادی مقاصد پسِ پشت ڈال دیے گئے ہیں۔ ان کے بجائے لوگ غیر اہم، ضمنی اور جزوی مسائل میں الجھ گئے ہیں، مثلاً فقہی اختلافات، عبادات کی جزوی تفصیلات، یا روایات کی سطحی ظاہری صورتوں پر حد سے زیادہ زور دینا۔ یہ صورتحال ایسے ہے جیسے ایک زوال پذیر عمارت میں لوگ اس کی شکستہ دیواروں پر رنگ روغن کر رہے ہوں، جبکہ چھت سر پر گرنے کو ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ دین کا اصل تصور دھندلا پڑ چکا ہے، اور مسلمان بحیثیت قوم، اجتماعی زندگی میں شکست و ریخت کا شکار ہیں۔ ایسے میں نہ صرف ان کی روحانی ترقی رک گئی ہے بلکہ دنیاوی میدان میں بھی وہ پستی کی طرف جا رہے ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم دین کی اصل روح کو سمجھیں، اس کی چھت یعنی بنیادی مقاصد کو مضبوط کریں، اور اجتماعی نظامِ زندگی میں اسلامی تعلیمات کا احیاء کریں۔ فقط دیواروں کی آرائش سے وہ تبدیلی ممکن نہیں جو اللہ نے امت مسلمہ سے مطلوب کی ہے۔
متبادل نظاموں کی طرف جھکاؤ:
آج کے دور میں مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد سکون اور سلامتی کی تلاش میں کمیونزم، سوشلزم، سرمایہ داری، قوم پرستی، اور مغربی جمہوریت جیسے غیر اسلامی نظریات اور نظاموں کی طرف جھکاؤ اختیار کر رہی ہے۔ یہ تمام نظام اس بات پر مبنی ہیں کہ انسان اپنے معاملات میں خود مختار ہے اور اپنی خواہشات کو فوقیت دے سکتا ہے، جبکہ اللہ کی حاکمیت کو مسترد کیا جاتا ہے۔ نتیجتاً، یہ نظام معاشرتی ناہمواری، اخلاقی پستی، اور باہمی اختلافات کو جنم دیتے ہیں، جو ایک منصفانہ اور پرامن معاشرے کے قیام میں بڑی رکاوٹ ہیں۔
ایک مسلمان کے لیے غیر اسلامی نظریات یا نظاموں کو رہنمائی کے طور پر اپنانا دین کے بنیادی اصولوں سے صریح انحراف اور منافقت کے مترادف ہے۔ اسلام ایک مکمل ضابطۂ حیات ہے، جو ہر پہلو میں انسان کی رہنمائی کرتا ہے، اور اس کی تعلیمات کسی بھی غیر اسلامی فلسفے یا نظام کے ساتھ مطابقت نہیں رکھتیں۔ اللہ کی حاکمیت کو تسلیم کرنا ایمان کی بنیاد ہے، اور اسے پس پشت ڈال کر کسی اور نظام کو اپنانا درحقیقت انسان کو گمراہی کی طرف لے جانے کے مترادف ہے۔ مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ ان متبادل نظاموں کی کشش سے دھوکہ نہ کھائیں اور اپنے مسائل کا حل اسلام کی مکمل تعلیمات میں تلاش کریں۔
حقیقت کو پہچاننا اور حکمت عملی اپنانا:
مسلمانوں کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے موجودہ حالات کا گہرائی سے تجزیہ کریں اور ان مسائل کو سمجھیں جن کا وہ سامنا کر رہے ہیں۔ یہ تجزیہ محض سطحی نہ ہو بلکہ باریک بینی سے کیا جائے تاکہ دھوکے یا مغالطے سے بچا جا سکے۔ دین اسلام کا حقیقی پیغام سمجھنا اور اسے اپنی زندگیوں میں عملی طور پر نافذ کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے۔ مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ اللہ کی حاکمیت کے قیام کے لیے ایک واضح اور جامع حکمت عملی ترتیب دیں۔ یہ حکمت عملی انفرادی اصلاح سے شروع ہو، جس کے تحت ہر مسلمان اپنے کردار، اخلاق اور عمل کو اسلام کے اصولوں کے مطابق ڈھالے۔ اس کے بعد اجتماعی شعور کو اجاگر کرنے کی ضرورت ہے تاکہ امت مسلمہ اپنی ذمہ داریوں کو پہچانے اور اپنے وسائل کو بہترین انداز میں استعمال کرے۔ آخری اور اہم ترین قدم اسلامی نظام کی بحالی ہے، جو انصاف، مساوات، اور انسانیت کی بھلائی پر مبنی ہو۔ اس مقصد کے حصول کے لیے تعلیم، تربیت، اور عملی اقدامات کو مربوط انداز میں بروئے کار لانا ہوگا، تاکہ اللہ کے دین کو اس کی اصل روح کے مطابق نافذ کیا جا سکے اور دنیا میں فلاح و کامیابی حاصل کی جا سکے۔
اختتامیہ
دین اسلام کا بنیادی مقصد اللہ کی حاکمیت کو عملی طور پر نافذ کرنا ہے، تاکہ ایک ایسا مثالی معاشرہ تشکیل دیا جا سکے جہاں انصاف، امن، اور خوشحالی کے اصولوں کا بول بالا ہو۔ یہ معاشرہ صرف اس وقت وجود میں آ سکتا ہے جب مسلمان دین کی اصل روح کو سمجھ کر اسے اپنی انفرادی اور اجتماعی زندگی میں نافذ کریں۔ دین اسلام کا تقاضا یہ ہے کہ انسان اپنی زندگی کے تمام پہلوؤں میں اللہ کے احکامات کو مقدم رکھے، چاہے وہ اخلاقیات ہوں، سیاست ہو، معیشت ہو یا سماجی معاملات۔ آج کے دور میں مسلمانوں کو درپیش چیلنجز اور مسائل کا حل اسی میں مضمر ہے کہ وہ اپنی کھوئی ہوئی عظمت کو بحال کرنے کے لیے دین کی تعلیمات کو پوری سنجیدگی کے ساتھ اپنائیں۔ یہ نہ صرف ہمارے موجودہ مسائل کا حل ہے بلکہ اس کے ذریعے ہم دنیا کے سامنے ایک ایسا نظام پیش کر سکتے ہیں جو انسانیت کے لیے امن، انصاف، اور خوشحالی کا ضامن ہو۔ دین کے حقیقی اصولوں پر عمل پیرا ہو کر ہی ہم نہ صرف اپنی دنیاوی زندگی کو بہتر بنا سکتے ہیں بلکہ آخرت میں بھی کامیابی حاصل کر سکتے ہیں۔
تبصرہ لکھیے