ہوم << لازوال محبت - اشفاق عنایت کاہلوں

لازوال محبت - اشفاق عنایت کاہلوں

زمانہ طالب علمی میں سابقہ سوویت روس کے بارے جو کچھ پرنٹ میڈیا کی بدولت پڑھا وہ ایک نقطہ پر مرکوز تھا، آہنی چادریں، لیکن جب خود جا کر مشاہدہ کیا تب معلوم ہوا کہ وہ لوگ بہت پیار و محبت والے، جولی، حساس اور مہمان نواز ہیں بالخصوص رشین زبان سکھانے میں راہ چلتے کسی سے پوچھو تو بغیر ناراض ہوئے خوشی سے سکھاتا، وہ لوگ منافق نہیں تھے، وہ لوگ اچھے یا بُرے، شکل سے واضح نظر آتے تھے۔

وہاں پر ایک سال میں بہت کچھ سیکھنے کو ملا لیکن ایک واقعہ ذہن پر ہمیشہ کیلئے ثبت ہو گیا، ماہ دسمبر 1999 کا مہینہ، تب جونی کشمیری اور میں، شاکاریما ایونیو پر ایک قازق لینڈ لیڈی زہرہ کے فلیٹ پر رہتے تھے، وہ ہم سے کرایہ وصول نہ کرتی، ماسوائےکھانے پینے کے اخراجات ہم دونوں مشترکہ ادا کرتے، رات کے دس بجےسامان خریدنے نکلے، ہر طرف برف ہی برف، شاکاریما بلڈنگ سے نکل کر بائیں طرف سیدھی سڑک ایل ڈے راڈو سٹور کو جاتی ہے، پہلا چوراہا کراس کرکے آگے بائیں طرف چھاؤنی کی قلعہ نما عمارت تھی، سیمی پلاٹنسک کی خالی گلیوں میں دسمبر کی کڑوی سائبیرین ہوا چل رہی تھی.

درجہ حرارت مائنس تیس ڈگری سینٹی گریڈ تک گر گیا تھا، سانس لو تو وہ بھی برف میں تحلیل ہو جاتی تھی، سڑکوں اور چھتوں پر موٹی برف، ہوا اتنی ٹھنڈی کہ سب سے موٹے کوٹ کی تہوں کو کاٹ کر بھی ہڈیوں میں گھس جاتی تھی، اچھوت برف جو سڑکوں اور عمارتوں کو اپنے جمے ہوئے گلے میں نگل رہی تھی، گلیوں میں زندگی کا کوئی نشان نہیں تھا، صرف عقب میں دریا ارتش کے منجمد پانی کو چھو کر آتی ہوا کی چیخ ہی خوفناک خاموشی کو توڑتی تھی، اتنی سردی میں فقط سرپھرے یا شرابی ہی باہر گھومتے تھے اور صبح کسی برفیلے بنچ پر اکڑی ہوئی حالت میں پائے جاتے تھے.

اردگرد کوئی ہم جیسا سر پھرا نظر نہ آیا، ماسوائے تنہا قدموں کے نشانات کے جو گیریژن کی طرف چلے گئے تھے، ہم آگے بڑھے، چوک کراس کیا، کیا دیکھتے ہیں کہ ایک سٹریٹ لیمپ کی مدھم چمک کے نیچے، ایک جوڑا بغلگیر ہوئے کھڑا تھا، دور سے دیکھ کر بھوت پریت سمجھے تھے، راستہ بدلنے کا سوچا، ایک دوسرے کی ہمت بڑھائی، انہیں دیکھنے کا تجسس تھا، ہم برف پر قدم اٹھاتے آگے بڑھے، حقیقت میں ایک مرد و عورت بغلگیر تھے، مرد کی فوجی وردی نظر آئی، دونوں نے موٹے لباس پہنے تھے، شکلیں نظر نہ آ رہی تھیں، ہم ان کے پاس سے گذر گئے، چند قدم آگے جا کر میں پیچھے مڑ مڑ کر انہیں دیکھتا رہا۔

ایک گھنٹے بعد ہم سامان خرید کر اسی راستے سے واپس آئے تو وہ دونوں وہیں اسی حالت میں کھڑے تھے، یا اللہ یہ کیا ماجرا ہے، رگوں میں خون جما دینے والی سردی، ایک گھنٹے سے زیادہ کوئی ذی روح باہر نہ ٹہر سکتا تھا، ہر طرف ہُو کا عالم، عاشقی کے جتنے واقعات کتابوں میں پڑھے تھے وہ سب ہیچ نظر آنے لگے، فلیٹ پہنچ کر تجسس کے مارے نیند نہ آئے، صبح چار بجے جونی کو جگایا اور اپنے ساتھ لیکر گیا، وہ جوڑا وہیں بغلگیر تھا، میں سچ مچ سر تھام کر زمین پر بیٹھ گیا، یہ سب سمجھ سے بالاتر تھا، مجھے یقین ہو چلا تھا کہ صبح ان دونوں کی نعشوں کی تصاویر مقامی اخبارات میں شائع ہوں گی، اگلی صبح یونیورسٹی لائبریری کے تمام اخبارات کھنگالے لیکن ایسی کوئی خبر نظر نہ آئی، بازاروں سے گذرتے دکانوں کے باہر آویزاں اخبارات کی شہ سرخیوں پر بھی نظر ڈالتا رہا لیکن ۔۔۔۔۔

چند دن بعد ایک مرتبہ رات گئے ایک دوست کی سالگرہ پارٹی سے واپس آئے تو وہ جوڑا وہیں کھڑا تھا، میں سچ مچ پریشان تھا کہ یہ ہو کیا رہا ہے، بعد میں کئی مرتبہ رات گئے گرم بستر چھوڑ کر صرف انہیں ایک نظر دیکھنے جاتا رہا، پاس سے گذرتے مجھے ان دونوں کی فقط آنکھیں نظر آتی تھیں، تب وہ میرے عادی ہو چکے تھے اور مجھے دیکھ کر مسکراتے تھے. گیریژن کی بیرونی دیوار کے باہر دو شخصیات، اس قدر شدید محبت کی خاموش گواہ بن کر کھڑی ہیں کہ ظالم ترین دسمبر بھی اس گرمی کو بجھا نہیں سکتا، ایک سپاہی اپنی بھاری وردی میں لپٹا ہوا بازو پھیلا کر انتظار کر رہا تھا، اور پھر، جیسے دنیا کے ظلم کو ٹالتے ہوئے، وہ پہنچی، تہوں میں لپٹی، سردی سے نہیں بلکہ اس کے گلے لگنے کی توقع سے کانپتی.

جس لمحے وہ ہم آغوش ہوئے، سردیوں کی ٹھنڈ بکھرتی دکھائی دی، اس کی جگہ شدید گرمی نے لے لی، صرف محبت ہی یہ معجزہ کروا سکتی ہے، اس سپاہی کے کھردرے ہاتھ، دردناک نرمی کے ساتھ اس کے چہرے کو لپیٹے ہوئے تھے، اور اس کی دستانے والی انگلیاں اس کے کوٹ سے اس طرح چمٹی ہوئی تھیں جیسے طلوع فجر سے پہلے آخری لمحے کو تھامے ہوئے اسے چرا لیا ہو، برف کے تودے ان کی پلکوں سے چمٹے ہوئے تھے، سرگوشیوں کی گرمی سے پگھلتے ہوئے وہ الفاظ جو اکیلے ہونٹوں سے نہیں بلکہ ان کی آنکھوں میں خاموش عقیدت سے کہے گئے تھے، ہر رات وہ اس منجمد دنیا میں ملتے تھے، ان کی محبت کسی بھی چولہے سے زیادہ جلتی تھی، سردیوں کے قہر سے بجھنے سے انکاری تھی، ایک اٹوٹ کہانی جو ٹھنڈ میں لکھی گئی ہے۔

ایک سپاہی ہر رات ڈیوٹی سے چکمہ دیکر نکلتا ہے، وہ پہلے ہی وہاں موجود انتظار کر تی ہے، اس کا نازک جسم اون میں لپٹا ہوا ہے، پھر بھی اس کا دل نہ ختم ہونے والی آگ سے جل رہا ہے، یہاں کوئی جنگ نہیں، ٹھنڈ نہیں، اصول نہیں، خوف نہیں، صرف دو روحوں کی مستحکم، اٹوٹ تال جنہیں محبت گرم بستروں سے کھینچ لاتی ہے۔میں نے اس محبت کو کِھلتے ہوئے دیکھا ہے، سردی سے ہلتے ہوئے، ہر رکاوٹ کو عبور کرتے ہوئے، دو دل اتنے معصوم، اتنی خوبصورتی سے لاپرواہ، کہ سائبیریا کی سرد ترین سردی بھی ان کے درمیان محبت کو منجمد نہیں کر سکتی۔

بھاری وردی میں ملبوس ایک سپاہی نے اپنی محبوبہ کو ایسے مضبوطی سے تھام رکھا تھا جیسے وہ واحد چیز ہو جو اسے برفانی محاذ پر مرنے سے روک رہی ہو، اس کا چہرہ اس کے سینے میں دفن تھا، سردی اور اس ظالم دنیا سے پناہ مانگ رہا تھا جو ان کی جدائی کا مطالبہ کرتی تھی ۔یہ محبت جس میں کوئی شان و شوکت نہ تھی، نام لینے کو کوئی معجزہ نہ تھا، پھر بھی اس نے مشرق کے آہنی دل میں محبت کے بارے میں کبھی پڑھے ہوئے ہر مذموم تصور کو توڑ دیا، ان لمحات میں، میں نے معصومیت سے بھی زیادہ پاکیزہ چیز دیکھی تھی، وہ تھا وفا، عقیدت، اور ایک اٹوٹ بندھن جو برف کی دنیا میں آخری انگارے کی طرح نرمی سے چمک رہا تھا، ایک ایسی محبت جو وقت، فاصلے اور شاید خود قسمت کے امتحان پر کھڑی ہے۔

شاید، یہ محبت کی کہانی صرف دو لوگوں کے بارے میں نہیں ہے، بلکہ ایک جگہ، ایک وقت، اور ایک احساس کے بارے میں بھی ہے جو ابھی تک باقی ہے، جو سالوں تک اچھوت نہیں ہے، کچھ محبت کی کہانیاں سیاہی سے لکھی جاتی ہیں، لیکن سب سے خوبصورت کہانیاں روح میں نقش ہوتی ہیں۔

Comments

اشفاق عنایت کاہلوں

اشفاق عنایت کاہلوں سعودی عرب میں مقیم ہیں۔ سفر اور سفرنامہ ان کی پہچان ہے۔ گورنمنٹ کالج لاہور سے ہوتے ہوئے اعلی تعلیم کےلیے روس جا پہنچے جہاں یونیورسٹی کی تاریخ میں پہلے غیرملکی طالب علم کے طور پر ٹاپ کیا۔ روسی زبان پر عبور رکھتے ہیں۔ دنیا کی تلاش اور تحریر کے ذریعے سفری تجربات کا اشتراک ان کا جذبہ ہے۔ کئی سفرنامے شائع ہو چکے ہیں، ان میں کوہ قاف کے دیس میں ایک سال، ارتش کنارے، سیمپلاٹنسک: پیار کا دوسرا شہر، اوست کامن گورد، بہشت بریں باکو، اور تاشقند میں تنہا شامل ہیں۔ مختلف زبانوں میں ان سفرناموں کے تراجم ہو چکے ہیں

Click here to post a comment