14 فروری 2025 بروز جمعہ، ادارۂ زبان و ادبیاتِ اردو، اورینٹل کالج، جامعہ پنجاب لاہور اور قائد اعظم لائبریری، باغِ جناح لاہور کے اشتراک سے "بیادِ غالب" کے عنوان سے ایک روزہ سیمینار کا انعقاد کیا گیا۔ اس علمی و ادبی محفل کی نظامت کے فرائض ڈاکٹر محمد نعیم ورک صاحب نے انجام دیے۔
پروگرام کا آغاز تلاوتِ کلامِ پاک سے ہوا، جس کی سعادت عمر فاروق چشتی نے حاصل کی۔تلاوت کلام پاک کے بعد سیف علی خان نے نعتِ رسول مقبولﷺ پیش کی۔ اس کے بعد ڈائریکٹر جنرل لائبریریز پنجاب کاشف منظور صاحب نے استقبالیہ کلمات ادا کیے۔ انہوں نے اپنے خطاب میں فرمایا کہ غالب کو پڑھے بغیر ادب کا تعین مکمل نہیں ہوتا۔ انہوں نے اقبال کی جانب سے غالب کو پیش کیے گئے خراجِ تحسین، غالب پر بنائے گئے ڈراموں، فلموں اور دستاویزی پروگراموں کا ذکر کیا۔ اس کے علاوہ شمس الرحمن فاروقی کی صاحبزادی کا انگریزی میں غالب پر کیے گئے کام اور غالب کی نثر و شاعری پر مختصر گفتگو کی۔
استقبالیہ کلمات کے بعد، اورینٹل کالج کے سابق استاد اور ڈین فیکلٹی آف اورینٹل لرننگ، جامعہ پنجاب لاہور، جناب ڈاکٹر فخرالحق نوری صاحب کو مدعو کیا گیا۔ انہوں نے غالب کی شاعری، ان پر لکھی گئی شروح اور ان کی ضرورت و اہمیت پر تفصیلی بحث کی۔ انہوں نے غالب کی عظمت اور شعری مقام پر روشنی ڈالتے ہوئے ان کے لیے "ملٹی میٹروپولیٹن سٹی" کی اصطلاح استعمال کی۔
اس کے بعد، پروفیسر ایف سی یونیورسٹی، ڈاکٹر نجیب جمال نے غالب کی شاعری پر اپنے خیالات کا اظہار کیا۔انہوں نے غالب کے شاعری پر بحث کرتے ہوئے فرمایا کہ میر،غالب اور اقبال تین صدیاں ہیں یعنی میر اٹھارویں صدی ، غالب انیسویں صدی اور اقبال بیسویں صدی کے سب سے بڑے شاعر ہیں ، اور غالب کی عظمت ، مقام و مرتبے کے بارے میں رشید احمد صدیقی صاحب نے لکھا ہے کہ مغلیہ سلطنت نے ہندوستان کو تین چیزیں دی ہیں تاج محل ، اردو اور غالب۔ معروف صحافی سجاد میر صاحب نے بھی غالب کی شخصیت کی مختلف پہلوؤں سے سامعین کو روشناس کیا۔
ڈاکٹر سید عبداللہ کی صاحبزادی، ڈاکٹر عطیہ سید نے اپنا مضمون "غالب کی شخصیت کا نفسیاتی جائزہ" پیش کیا، جس میں انہوں نے غالب کی نفسیاتی پہلوؤں پر تفصیلی روشنی ڈالی۔
سیمینار کے اختتام پر، ڈائریکٹر ادارۂ زبان و ادبیاتِ اردو، ڈاکٹر بصیرہ عنبرین صاحبہ نے غالب کی شخصیت پر گفتگو کرتے ہوئے سامعین اور مقررین کا تہہ دل سے شکریہ ادا کیا۔ انہوں نے خاص طور پر غالب کی فارسی شاعری پر روشنی ڈالی اور فرمایا کہ غالب کی فارسی شاعری کا مرتبہ اتنا ہی ہے جتنا ان کی اردو شاعری کا ہے۔ اس کے بعد، مقررین کو اعزازی شیلڈز سے نوازا گیا۔
آخر میں ادارۂ زبان و ادبیاتِ اردو نے قائداعظم لائبریری کو اپنی مطبوعات تحفے میں پیش کیں۔
یہ سیمینار غالب کی یاد میں ایک شاندار علمی و ادبی محفل تھی، جس میں مقررین نے غالب کی زندگی، شاعری اور شخصیت کے مختلف پہلوؤں پر روشنی ڈالی اور سامعین کو غالب کی فکر و فن سے مستفید ہونے کا موقع فراہم کیا۔
تبصرہ لکھیے